خواتین کی خود اختیاری‘ بھارت کے بہتر مستقبل کی ضمانت

‘‘مسلم خواتین کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھا کر ان میں خود اعتمادی پیدا کی جا سکتی ہے’’

محمد نوشاد خان
ترجمہ: سلیم الہندی (حیدرآباد)

فسطائیت سے مقابلے کے لیے ہمیں اپنے صحافتی ادارے، نیوز پورٹلس اور الکٹرانک میڈیا سنٹرس قائم کرنے کی ضرورت
محترمہ ثمر علی، جنرل سکریٹری، نیشنل فیڈریشن آف گرلز اسلامک آرگنائزیشن کا ایک انٹرویو
سماج اور قوم کی تعمیر نو میں جی آئی او کا کردار:
ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کی تمام خواتین میں عموماً اور مسلم خواتین میں خصوصاً احساس خود اختیاری کو اس سطح تک اجاگر کیا جائے کہ وہ ہماری روزمرہ زندگی میں پیدا ہونے والے عوامی اور قومی مسائل پر نہ صرف نظر رکھ سکیں بلکہ انہیں حل کرنے کی جستجو بھی کرسکیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ برسوں میں جب جب مسلمانوں کو مخالفین کی جانب سے بے بنیاد اور یکطرفہ تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا، ہماری بہنوں نے نہ صرف ان اعتراضات کا جواب دینے میں کبھی تاخیر نہیں کی بلکہ مخالفین کو ان ہی کے سوالات کے گھیرے میں کھڑا کرکے انہیں لاجواب کر دیا۔ عالمی سطح پر خواتین کو نفسیاتی دباؤ کے تحت رکھے جانے کی سازش کو بھی خواتین ہی نے ناکام بنایا۔ جی آئی او، خواتین کی بہبود اور انہیں بیرونی افکار سے محفوظ رکھنے کے لیے کی جانے والی تمام تر کوششوں کی ہمت افزائی کرتی آرہی ہے تاکہ ہماری بہنوں کے حوصلے کبھی پست نہ ہونے پائیں۔ اس کام کو منظم طور پر انجام دینے کے لیے جی آئی او ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ روز بروز پیدا ہونے والے نئے نئے مسائل کی نوعیت سے نوجوان طالبات اور خواتین کو آگاہ کیا جا سکے اور مختلف مسائل کا مجوزہ حل بھی ان تک پہنچ جائے۔ جی آئی او بحیثیت مرکزی فیڈریشن، ملک میں اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہے چنانچہ تمام طے شدہ کام، ملک کی تمام ریاستوں میں ایک ساتھ شروع کیے جائیں گے۔ اس سے ہٹ کر ریاستوں کے الگ الگ سیاسی و سماجی ماحول اور ممکن و ناممکن کے پس منظر میں جی آئی او کیڈر کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
جی آئی او کی ترجیحات:
بحیثیت مرکزی وفاق ایک ہی قسم کا کام ہر ریاست میں نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ خواتین کی خود اختیاری، ان کی بنیادی تعلیم، تعلیم کا مطلوبہ معیار، مقامی اسکولوں کا تعلیمی ڈھانچہ، صحت عامہ کی صورت حال، سماجی اور سیاسی فضا ہر ریاست میں یقینا الگ الگ ہوگی اور اسی بنیاد پر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ موجودہ حالات کے مد نظر، جی آئی او کی ریاستی کمیٹیوں کی کارکردگی کو عمدہ سے عمدہ تر بنانے کے لیے کیڈر کو کوئی اہم ذمہ داری دی جائے گی۔ ویسے بھی ریاستوں میں ابتدا ہی سے طالبات، مختلف ذمہ داریاں بڑی خوبی سے نبھاتی چلی آرہی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ریاستوں کے جی آئی او کے ذمہ داروں کے ساتھ ایک نشست مقرر کی جائے جس میں اس بات پر سیر حاصل گفتگو کی جائے تاکہ موجودہ مشکل حالات کے باوجود، انجام دیے گئے کاموں اور ان کاموں میں پیش آنے والی دشواریوں پر آئندہ قابو پانے کے لیے کوئی لائحہ عمل نکل آئے تاکہ وہاں دستیاب سہولتوں سے استفادہ کیا جاسکے۔ جہاں تک جی آئی او کے لیے ایک ہی دستور کی اجرائی کا سوال ہے، اس کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ ریاستی کیڈر کے ذمہ داران ایک دوسرے کو اپنے کاموں کے درمیان حائل ہونے والی دشواریوں اور سہولتوں سے آگاہ کرتے رہیں گے۔
باحجاب طالبات کے ساتھ متعصبانہ سلوک:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماج میں حجاب کرنے والی خواتین خصوصاً طالبات کے ساتھ متعصبانہ سلوک کا رواج عرصہ دراز سے جاری ہے۔ چونکہ پردہ مسلمانوں کی خاص شناخت ہے اس لیے پردے کے مخالفین سمجھتے ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو مقامی سماج سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس حقیقت کو جھٹلا نہ سکے کہ پردہ کرنے والی نوجوان لڑکیاں، سماجی زندگی کے ہر شعبے میں، کالج اور یونیورسٹی کیمپس میں کامیابی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ہماری یہی ہونہار باحجاب نوجوان لڑکیاں، نصابی تعلیم کی تکمیل میں، پیشہ ورانہ ڈگریوں کے حصول میں، تحقیقی مقالوں کی پیشکشی میں، سرکاری دفتروں میں، خانگی تجارتی اداروں میں، کمپنیوں کے انتظامی امورمیں ہر جگہ ہر میدان میں بہترین ثابت کرنے کے باوجود متعصبانہ سلوک کا مقابلہ ہمت کے ساتھ کر رہی ہیں۔ ملک کی ہر ریاست میں ہماری باحجاب بیٹیوں کے ساتھ انسانیت کو شرمسار کرنے والا ناروا سلوک دراصل پردے کے خلاف فاشسٹ تنظیموں کی جانب سے پیدا کی گئی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ایسے دشوار ترین سماجی ماحول کے باوجود الحمدللہ مسلمان لڑکیاں ہر سطح پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان کی اعلی تعلیمی صلاحیتوں کے اعتراف میں یہی فاشست تنظیمیں بادل ناخواستہ انہیں گولڈ میڈل دینے پر مجبور ہیں۔ ان تمام تر اعلی تعلیمی اور انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف کے باوجود اگر حجاب سے نفرت کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر ہمیں اپنا منفرد مقام قائم رکھنے کے لیے اپنی جد و جہدجاری رکھنی ہوگی۔
حجاب کے خلاف نفرت کے طوفان کا مقابلہ:
حجاب کے خلاف نفرت کے ماحول میں اپنے کرئیر اور تعلیم پر توجہ دینا، آج کی باحجاب طالبات کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا نہایت ثابت قدمی اور حکمت کے ساتھ مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ پردے کے خلاف یہ نفرت آج کی پیداوار نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے۔ ہماری پر عزم خواتین اس نفرت کا ہمت کے ساتھ مسلسل مقابلہ کرتی آرہی ہیں۔ آج کے اس بگڑے ہوئے ماحول میں بھی طالبات اپنی ہمت و حوصلے کے بل پر مخالفین کی اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی جستجو کر رہی ہیں۔ اسی نفرت کے خلاف 2019ء میں باحجاب خواتین نے ایک تحریک پین انڈیا موومنٹPAN INDIA MOVEMENT کا آغاز کیا تھا۔ حکومت نے اس تحریک کو دبانے کے لیے کوویڈ وبا کا سہارا لیا تھا اور وہ اس مقصد میں کامیاب بھی رہی۔ اسی دوران کرناٹک کی ایک طالبہ مسکان کی حجاب کی کھلم کھلا تائید نے ایوانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ حجاب کی تائید میں ایک باحجاب طالبہ کی یہی آواز دنیا کے گوشے گوشے میں گونجتی رہی۔ ہمیں مسکان جیسی ان تمام بہادر باحجاب طالبات کی ہمت پر ناز ہے جنہوں نے اس ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ملک میں کسی بھی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ایسی جرات، ہر شہری میں ہونی چاہیے۔ جی آئی او ہر اس فرد یا جماعت کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہے جو ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی ہمت اور جرات کرے اور کسی قیمت پر بھی ظالم کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
مسلم خواتین کی شناخت، شاہین باغ احتجاج کے پس منظر میں:
سی اے اے اور این آر سی جیسے مسلم مخالف قوانین کے نفاذ کے خلاف شاہین باغ میں خواتین کے احتجاجی کیمپ کی تشہیر، بین الاقوامی میڈیا پر اتنے شاندار پیمانے پر ہوئی کہ سب دم بخود رہ گئے۔ حکومت پریشان ہو گئی۔ اس کیمپ نے مسلم خواتین کے خلاف بلا وجہ بغض رکھنے والے کئی جنونی افراد اور انجمنوں کی غلط فہمی دور کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ سب نے دیکھا کہ اس احتجاج میں موسم کی سختیوں کے باوجود نوجوان طالبات اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ سن رسیدہ، ضعیف کمزور خواتین بھی شامل تھیں۔ خصوصاً سن رسیدہ ضعیف خواتین نے مختلف چینلس کو دیے گئے انٹرویوز کے ذریعے اپنے سیاسی شعور، سماجی بیداری اور ملک کے حالات پر نظر رکھنے کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا۔ چنانچہ ان قوانین کے پس پردہ فسطائی حکومت کی نیت اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب اس احتجاج کو بند کروانے کی تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں۔ دنیا نے ہماری خواتین کے جذبہ ایثار اور ظلم کے خلاف احتجاج منظم کرنے کے حق کا اظہار بھی دیکھا۔
مسلم خواتین میں تعلیمی خود اعتمادی پیدا کرنے کا منصوبہ:
ہم سمجھتے ہیں کہ تھوڑی سی کوشش سے مسلم خواتین میں تعلیمی خود اعتمادی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں مسلم طالبات اور سماج کے دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والی مسلم لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا ایک جامع عملی خاکہ تیار کرنا ہوگا اور اسی خاکے کی بنیاد پر عملی کام شروع کرنا ہوگا۔ اس کام میں آنے والی ایک بڑی رکاوٹ خود ایسے مسلم خاندان ہیں جو کسی بھی سبب کے بغیر، اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کے سخت مخالف ہیں۔ انہیں میں سے بعض والدین کا کہنا ہے کہ بیٹیوں کو تعلیم دلواکر ہمیں ان سے نوکری تھوڑی کروانی ہے اور پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کی تعلیم یافتہ بیٹیوں کو کوئی سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ ہمیں تو پکا یقین ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی وہ عمر بھر سرکاری نوکری کے لیے ترستی ہی رہیں گی۔ اس سے ہٹ کر بعض حقیقی مسائل بھی ہیں جیسے سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کا فقدان، کتابوں کی عدم سربراہی، اساتذہ کی قلت، اسکول کی عمارتوں کی خستہ حالت وغیرہ وغیرہ۔ ان وجوہات سے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طالبات کے والدین اپنے بچوں کو کچھ ہی عرصہ بعد اسکول سے نکلوالیتے ہیں۔ ان حقائق کے علاوہ کئی اور بھی شکایتیں ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو کسی حد تک درست بھی ہے۔ غریب والدین غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو خانگی اسکولوں میں بھی نہیں بھیج سکتے۔ ان حالات کی باوجود انہیں تعلیم سے آراستہ کرنا ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔ باوجود ان تمام دشواریوں کے بیشتر مسلم خواتین و طالبات کا ملک کے حالات سے واقف رہنا، ناانصافی اور حق تلفی کے خلاف آواز بلند کرنا فسطائی قوتوں کو برداشت نہیں ہوتا۔ ایسے دشوار گزار ماحول میں بھی باحجاب مسلم لڑکیاں اپنی خصوصی شناخت کے ساتھ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنی تعلیم مکمل کررہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کی ایک گہری سازش کے تحت حجاب کا مسئلہ کھڑا کیا گیا ہے۔
مسلم سماجی تنظیمیں‘ مسلم مسائل اور میڈیا کا منفی رول:
آج تمام اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت کے ساتھ میڈیا کا رول انتہائی شرمناک ہو چکا ہے۔ کسی بھی معمولی واقعے کو بلا تحقیق، بلا ثبوت مسلمانوں سے جوڑ کر انہیں بدنام کرنا، بے عزت کرنا، انہیں بدمعاش اور غنڈے اور جرائم پیشہ ثابت کرنا، میڈیا کا معمول بن گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کا کوئی واقعہ پیش آجائے تو میڈیا اس کا کوئی نوٹ نہیں لیتا۔ اخبارت، ٹی وی اور الکڑانک میڈیا اسے مکمل نظر انداز کر دیتا ہے۔ حقیقی مجرم کی شناخت چھپاتے ہوئے اس تنازعے کو خود مسلمانوں کے خلاف تبدیل کرنے اور بے قصور مسلمانوں کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرواکے انہیں جیل پہنچانے تک، میڈیا بہت چستی دکھاتا ہے۔ مسلم جہد کاروں اور مسلم دانشوروں کی سماجی خدمات کو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھنا ان کی بنیادی پالیسی میں شامل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال سے مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ کارگر ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ آج کے مسلم مخالف تعصب پسند صحافت سے وابستہ متعصب اور فسطائی ذہنیت والے ادارے ہماری شناخت مکمل طور پر مسخ کر دیں، ہمیں مزید کسی تاخیر کے خود اپنے صحافتی ادارے، نیوز پورٹلس اور دیگر الکٹرانک میڈیا سنٹرس قائم کرنے ہوں گے۔
(بشکریہ ریڈینس ویوز ویکلی)

 

***

 ہمیں مسکان جیسی ان تمام بہادر باحجاب طالبات کی ہمت پر ناز ہے جنہوں نے اس ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ملک میں کسی بھی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ایسی جرات، ہر شہری میں ہونی چاہیے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022