خبرونظر

پرواز رحمانی

دھرم کے نام پر
چند روز قبل مشہور صنعت کار لیڈی کرن مجمدار شا نے ایک تیز وتند بیان میں ان لوگوں کی شدید مذمت کی تھی جو دھرم کے نام پر ملکی شہریوں کو تقسیم کر رہے ہیں۔ کرناٹک میں مسلمانوں کے کاروبار اور دکانوں کے بائیکاٹ کی اپیل ایک ایسی ہی کوشش ہے جس سے شہریوں میں باہم کدورت پیدا ہو گی اور ان میں دھرم کے نام پر دوری بڑھے گی۔ اب یہی بات کچھ دوسرے الفاظ میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار نے سانگلی میں کہی ہے۔ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں کچھ لوگوں نے ایک ’’فتویٰ‘‘ جاری کر کے ہندو عوام سے کہا ہے کہ اقلیتی کمیونٹی کی دکانوں سے کوئی سامان نہ خریدیں بلکہ ان کا بائیکاٹ کریں جبکہ یہ ایک آزاد ملک ہے اور یہاں تمام مذہبی فرقوں اور ذاتوں کو کاروبار ودکانداری کی اجازت ہے۔ خرید وفروخت کے وقت صرف سامان کی کوالٹی دیکھی جائے۔ جس کا سامان معیاری ہو اس سے ضرور مال خریدا جائے۔ مسٹر پوار نے کہا کہ اس مذہبی تقسیم سے ملک کی ترقی میں سخت رکاوٹ پڑے گی اور ملک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو ان روڈی وادیوں کے خلاف لڑنے کی شدید ضرورت ہے جو ملک کو معاشی لحاظ سے کمزور کرنے کا کام کر رہے ہیں۔

عوام کے دل پر دستک دیجیے
اب سے کوئی 38 سال قبل کرناٹک کے ایک سفر میں حلقہ کرناٹک کے امیر مولانا محمد سراج الحسن صاحب نے بہت تفصیل سے بتایا تھا کہ سنگھ اور اس کے مختلف گروپ ریاست کرناٹک پر خاص طور سے متوجہ ہیں۔ جنوب کی سبھی ریاستوں میں انہوں نے بہت کچھ تجربات کر کے دیکھ لیے کہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اسی ریاست کے لوگوں میں انہیں کچھ آثار دکھائی دیے یہاں وہ برسوں سے چھوٹے بڑے تجربات کر رہے ہیں اور کچھ میں انہیں کامیابی بھی ملی اور فرقہ پرستی کا پہلا کوٹ چڑھ گیا ہے اب مزید کوٹوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مولانا مرحوم کے ساتھ یہ سفر ایس آئی او کی پہلی آل انڈیا کانفرنس کے بعد ہوا تھا جس میں دلی کے کئی رفقا شامل تھے۔ کانفرنس بنگلور میں ہوئی تھی، وہاں سے نکل کر ہماری بس کنیا کماری پہنچی تھی۔ اس سفر میں جماعت کی کئی اہم شخصیات شامل تھیں۔ مولانا سراج الحسن صاحب دوران سفر کرناٹک کا جغرافیہ جس مقام سے گزرتے اس کا محل وقوع وغیرہ بتاتے رہے۔ مولانا نے کرناٹک میں سنگھ کی سرگرمیوں کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ یہ درست ہے کہ یہاں سنگھ کو کچھ کامیابی مل رہی ہے لیکن اس کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے عام وخاص کی اکثریت آج بھی امن پسند اور انسانیت نواز ہے صرف اس کے دلوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔

اب آٹھ سال سے
سنگھ کی مستقبل کی سرگرمیوں کے بارے میں مولانا سراج الحسن صاحب نے جو پیش گوئی کی تھی، ہر چند کہ سفر کے بعد کے تیس سال تک اس کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔ البتہ اب گزشتہ آٹھ سال سے ان سرگرمیوں کا اثر پورے ملک میں بالخصوص کرناٹک میں دیکھا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی ایک تو مرکز میں سنگھ کا برسر اقتدار ہونا اور خود کرناٹک میں بی جے پی کی سرکار بن جانا ہے۔ اڈپی کے ایک کالج میں مسلم طالبات کے حجاب کو بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا۔ پھر ذبیحہ حلال پر پابندی کی آوازیں اٹھنے لگیں۔ ایک ریاستی وزیر کا بیان ہے کہ عربی مدرسوں پر بھی پابندی لگنی چاہیے کیوں کہ ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سب کی تعلیم یکساں ہو۔ مساجد میں لاوڈ اسپیکر کے استعمال کی مخالفت اور بہت سارے مسائل ہیں کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا جب کوئی نہ کوئی لیڈر یا کارکن مسلم آزار بیان نہ دیتا ہو۔ ضبط وتحمل کے لیے قابل مبارکباد ہے ملک کی مسلم آبادی بالعموم اور کرناٹک کی آبادی بالخصوص، کہ اس صورت حال میں کہیں کوئی غلط اور خلاف تعلیمات اسلامی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ امید ہے کہ مسلمان اپنے اس طرز فکر و عمل پر قائم رہیں گے اور مسائل کے حل کی پرامن کوشش جاری رکھیں گے جو بہت ضروری ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اس سلسلے میں اپنا یک بڑا اجلاس منعقد کرے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022