مسعود ابدالی
گزشتہ چند ماہ سے خلیجی ممالک اور ترکی کے درمیان پسِ پردہ بات چیت یا بیک ڈور ڈپلومیسی کی جو خبریں آرہی تھیں ان کی رمضان کے آخر میں تصدیق ہو گئی جب ترک صدر طیب رجب ایردوان، شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب پہنچے۔ اس دورے میں شاہی خاندان اور سعودی حکومت نے ترک صدر کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ دوسری جانب صدر ایردوان نے بھی شاہ سلمان کے لیے بے حد درجہ عزت و احترام کا مظاہرہ کیا۔ سعودی بادشاہ کو ضعیف العمری کی وجہ سے چلنے میں مشکل ہوتی ہے چنانچہ شاہی محل کے لان پر استقبالیہ تقریب کے بعد وہاں سے محل کے اندر جاتے ہوئے ترک صدر نے شاہ سلمان کی کہنی کو آہستگی سے سہارا دیا جس سے گھر کے بزرگ کے ساتھ احتراماً سر جھکا کر چلنےکا تاثر پیدا ہوا۔ شاہی خاندان میں صدر ایردوان کی اس وضع داری کو بہت پسند کیا گیا۔ سعودیوں نے ترک صدر کے لیے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے دروازے کھول دیے جو سعودیوں کے یہاں مہمانوں کی عزت افزائی کی علامت ہے۔ ڈھائی ماہ پہلے صدر ایردوان کے دورہِ متحدہ عرب امارات میں بھی میزبانوں کی طرف اسی قسم کی گرمجوشی نظر آئی تھی۔
ترکوں اور آلِ سعود کے درمیان چپقلش کا آغاز عثمانی دور سے جاری ہے۔ اس دوران امام عبدالوہاب (ر) کی فکر سے متاثر، خاندانِ سعود اور ترکوں میں کئی خونریز تصادم ہوئے تاہم جب 1932 میں المملكة السعودیہ کے نام سے آزاد ریاست قائم ہو گئی تو ترکی کے صدر کمال اتاترک نے سعودی عرب کو تسلیم کر کے مکمل سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ ابتدا میں ان دونوں ملکوں کے تعلقات بہت عمدہ رہے اور خارجہ امور پر باہمی مشاورت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ اسی صلاح و مشورے کا نتیجہ تھا کہ برطانیہ کے شدید دباو کے باوجود سعودی عرب بھی ترکوں کی طرح دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبدار رہا۔
ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں بال اس وقت پڑا جب شاہ سعود بن عبدالعزیز کا مشورہ رد کرتے ہوئے ترکی 1955 میں امریکہ نواز سینٹو (CENTO) المعروف معاہدہ بغداد کا اتحادی بن گیا۔ سعودی فرمانروا کا موقف تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے ترکی اور سعودی عرب لڑائی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے چنانچہ ہمیں سرد جنگ سے بھی خود کو دور رکھنا چاہیے لیکن ترک صدر جلال بایار اور وزیر اعظم عدنان مندریس کا خیال تھا کہ بحر اسود میں روسی بحریہ کے بڑھتے ہوے اثر و رسوخ کے مقابلہ کے لیے مضبوط ترکی کو اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ ترکی کے ساتھ عراق، ایران، پاکستان اور برطانیہ، امریکہ کی سرپرستی میں بننے والے اس عسکری اتحاد کا حصہ تھے۔ سعودی عرب کے وزیر اعظم شاہ فیصل بن عبدالعزیز سینٹو میں شمولیت کے حامی تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1962 میں شاہ سعود کی معزولی کے عوامل میں سے ایک نکتہ بغداد معاہدے سے انکار بھی تھا۔
ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی پشت پناہی پر دونوں ملک یکسو تھے اور اس دوران سعودی عرب نے ترکی کو نقد مالی مدد بھی فراہم کی تھی۔ امریکہ کے 1991 میں عراق پر حملے کی بھی ان دونوں ملکوں نے کھل کر حمایت کی اور 2003 کے امریکی حملے کی اصولی مخالفت کے باوجود دونوں نے چچا سام کا ساتھ دیا۔
دسمبر 2010 میں تیونس سے طلوع ہونے والی لہرِ آزادی یعنی الربیع العربی (Arab Spring) کے آغاز پر ریاض اور انقرہ کے درمیان دوستی اور دشمنی کا ایک مہین سلسلہ شروع ہوا۔ شام میں بشار الاسد کے خلاف ہونے والی بغاوت میں ترکی اور سعودی سمیت تمام خلیجی ممالک ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ لیبیا اور یمن کے معاملے پر بھی سعودی عرب اور ترکی میں کوئی اختلاف نہ تھا لیکن مصر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی جد و جہد سعودی عرب کو پسند نہ آئی اور پھر وہاں عوامی سطح پر اخوان المسلموں کے بڑھتے ہوئے اثر سے خلیجی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ پارلیمانی انتخابات میں واضح کامیابی کے بعد جون 2012 میں جب ڈاکٹر محمد مرسی 51.73 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہو گئے تو خلیجی ممالک اور ترکی کی راہیں جدا ہوگئیں۔
جناب ایردوان نے جو اس وقت ترکی کے وزیر اعظم تھے، صدر مرسی کی پشت پر آ کھڑے ہوئے۔ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے عرب ملک میں عوامی طاقت سے ایوان اقتدار میں اخوان کا پُر وقار داخلہ خلیجی بادشاہتوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور اس کے امریکی و مغربی اتحادیوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنا۔
اسی کے ساتھ تیونس اور مراقش کے انتخابات میں بھی اخوانی فکر سے وابستہ النہضہ اور حزب العدالۃ والتنمیۃ (Justice and Development Party) کامیاب ہو گئیں۔ شمالی افریقہ کا نیا نظریاتی جغرافیہ امریکہ بہادر کے لیے ناقابل قبول تھا چانچہ مغرب کی ایما پر مصر میں سیکیولر اتحاد نے صدر مرسی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا اور اس ‘کارِ خیر’ میں سلفی تحریک النور پیش پیش تھی۔ پارلیمانی انتخابات میں اخوان نے 235 اور النور نے 123نشستیں حاصل کی تھیں یعنی 508 کے ایوان میں اسلامی طاقتوں کا تناسب دو تہائی سے زیادہ تھا۔ لیکن النور مخلوط حکومت سازی کے لیے اخوان کی دعوت مسترد کر کے سیکیولر قوتوں کے شانہ بشانہ سڑکوں پر آ گئی۔ فوج اس تحریک کی پشت پر تھی چنانچہ 3 جولائی کو جنرل السیسی نے صدر مرسی کا تختہ الٹ دیا۔ ‘انتہا پسندی’ کے خاتمے کے لیے مصر میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی اس کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے۔
سعودی عرب اس کشمکش میں دامے درمے قدمے سخنے جنرل السیسی کی پشت پر تھا تو رجب ایردوان اخوان کے اتحادی۔ انہوں نے جنرل السیسی کو قاتل اور غاصب کہا۔ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے علما کا خیال ہے کہ اخوان کے معاملے میں ترکی کے دو ٹوک رویے نے سعودی عرب کی ناراضگی کو صدر ایردوان سے نفرت میں تبدیل کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 2014 میں سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کی نشست کے لیے ہونے والے انتخاب میں سعودی عرب نے کھل کر ترکی کے خلاف مہم چلائی نتیجہ انقرہ سلامتی کونسل میں جگہ نہ پا سکا۔
اخوان کی وجہ سے سعودی عرب اور قطر کے تعلقات میں کشیدگی کا آغاز ہوا اور 2017 میں محمد بن سلمان المعروف MBS کے ولی عہد بننے کے بعد معاملہ مزید سنگین ہو گیا حتیٰ کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے فلسطینی حماس اور اخوان کی پشت پناہی کے الزام میں قطر سے سفارتی تعلقات توڑ کر اپنی فضائی، بری اور آبی سرحدیں قطر کے لیے بند کر دیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کو ‘منطقی’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کا دور لد گیا اور یہ بات قطر کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔
ناکہ بندی قطر کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی اس لیے کہ خلیج کی یہ ننھی سی ریاست سبزی، گوشت، دودھ دہی اور غلہ سعودی عرب سے خریدتی ہے۔ اس موقع پر ترکی کھل کر قطر کی مدد کو آیا اور غذائی اجناس کی فراہمی کے ساتھ اس نے قطر کے دفاع کے لیے بحری جہاز اور فوجی بھی وہاں بھیج دیے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ قطر کی اس تیز رفتار کارروائی کی باعث پر MBS نے قطر کے خلاف عسکری مہم جوئی کا ارادہ ترک کر دیا۔
سعودی ترک تعلقات میں ایک اور فیصلہ کن موڑ 2018 میں آیا جب واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیے گئے۔ جمال خاشقجی شاہی خاندان پر سخت تنقید کیا کرتے تھے۔ اس معاملے پر سرکاری موقف کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کے اٹارنی جنرل شیخ سعود بن عبداللہ نے بتایا کہ جمال خاشقجی اپنی چند دستاویزت کی توثیق کے لیے قونصل خانہ خانے آئے تھے۔ وہاں ان کی کچھ لوگوں سے بحث و مباحثے کے دوران شدید تلخ کلامی ہوئی اور لڑائی کے نتیجے میں جمال خاشقجی جاں بحق ہو گئے۔ سعودی اٹارنی جنرل کے مطابق ذمہ داروں کو سزائیں سنا دی گئیں۔ ترک حکومت کا اصرار ہے کہ جرم استنبول میں ہوا ہے اس لیے مقدمہ ترکی میں ہی چلنا چاہیے۔
لیبیا کے معاملے پر بھی اب سعودی عرب اور ترکی کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے ہیں۔ سعودیوں کا خیال ہے کہ لیبیا کی وفاقی حکومت نظریاتی طور پر اخوان کے زیر اثر ہے چنانچہ ریاض، حفتر ملیشیا کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس دہشت گرد ملیشیا کو امریکہ، فرانس اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔
دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر سعودی عرب نے نگورنوکاراباخ تنازعہ میں آذربائیجان کے مقابلے میں آرمینیا کی حمایت کی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں سعودی عرب، یونان، متحدہ عرب امارات، مصر اور اسرائیل نے طیب ایردوان کو بحر روم، بحر احمر اور خلیج کے لیے نیا خطرہ قرار دیا۔سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ نے الزام لگایا کہ صدر ایردوان تجدیدِ خلافتِ عثمانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل صدر ایردوان نے علاقائی اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی مہم شروع کی تھی۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا کے نتیجے میں ترک معیشت شدید دباو میں ہے۔ روس سے فضائی دفاعی نظام خریدنے کی بنا پر امریکہ نے ان کے ملک پر پابندیاں لگادی ہیں جس سے ترک برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔
اس سال کے آغاز پر صدر ایردوان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو خیر سگالی سندیسہ بھیجا جس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اسرائیل کا جواب مثبت تھا اور ایک عرصے بعد ترکی اور اسرائیل نے ایک دوسرے ملکوں میں سفیر دوبارہ تعینات کر دیے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کے صدر اسحق ہیزرگ نے ترکی کا دورہ کیا۔ یہ 14 سال بعد دونوں ملکوں کے پہلی اعلی سطحی ملاقات تھی۔
صدر ایردوان نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی طرف بھی خیر سگالی کے پیغامات کے ساتھ ایلچی بھجوائے، ادھر قاہرہ سے آنے والے اشارے بھی حوصلہ افزا ہیں۔ فروری میں صدر ایردوان کے دورے کے بعد سے انقرہ اور ابوظبی کے مابین سلسلہِ پیام و کلام میں باقاعدگی آگئی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق امارات نے یمنی حوثیوں سے مصالحت کے لیے ترکوں سے ثالثی کی درخواست کی ہے۔
سعودی عرب خود بھی سفارتی سطح پر مشکلات کا شکار ہے۔ امریکی کانگریس میں جمال خاشقجی قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ یمن میں خونریزی، شہری آبادیوں پر بمباری اور جنگ کے نتیجے میں قحط نے ایک انسانی بحران پیدا کر دیا ہے اور اب درجنوں اراکینِ کانگریس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ کی فروخت روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں ریاض اب یمن کی بے نتیجہ و بے مقصد جنگ سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔ اسی کے ساتھ ریاض سے آنے والے اشاروں سے لگتا ہے کہ MBS ترکی اور ایران سے تعلقات کو معمول پر لانے یا کم از کم کشیدگی ختم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ صدر ایردوان کو رمضان کے آخری عشرے میں دورے کی دعوت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ دونوں جانب سے گرمجوشی کا اظہار بہت واضح اور غیر مبہم تھا۔ صدر ایردوان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کا خیر مقدم کرتے ہوئے امارات کے ولی عہد محمد بن زید (MBZ) نے کہا کہ ‘بھائیوں’ کے درمیان بے تکلف ملاقاتوں سے علاقے میں امن و استحکام کی کوششوں کو تقویت حاصل ہو گی۔
اسی کے ساتھ سعودی عرب نے یمن کے ایران نواز حوثیوں کی طرف شاخ زیتون لہرانی شروع کر دی ہے۔ جس دن صدر ایردوان، سعودی عرب آئے اسی روز سعودی نواز خلیجی اتحاد کے عسکری سربراہ جنرل ترکی المالکی نے 163 حوثی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ قیدیوں کا تبادلہ نہیں بلکہ جذبہ خیر سگالی کا یکطرفہ مظاہرہ ہے۔ حوثیوں نے اس پر کسی غیر معمولی خوشی یا جوابی اقدام کا اعلان نہیں کیا لیکن سعودی پرامید ہیں کہ اس خونریزی کا پر امن خاتمہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ یہ جنگ 2015 سے جاری ہے جس نے یمن کو عملاً کھنڈر بنا دیا ہے۔
مشرق وسطٰی کے تنازعات، جہاں پیچ در پیچ اور حد درجہ گنجلک ہیں وہیں تقریباً ہر جگہ طاقتور غیر ملکی طاقتوں کے اثرات بھی ہیں۔ فرقہ وارانہ رنگ نے معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ مردانِ صف شکن کے ساتھ کئی کلیدی و تزویراتی موڑ پر پردہ نشینوں نے دام ہمرنگ زمین بچھا رکھے ہیں یا یوں کہیے کہ رنگیں آنچل اور چلتے پھرتے سائے اِدھر سے اُدھر کوندتے پھر رہے ہیں۔
ان تنازعات کے کچھ فریق پُر جوش اور بعض تذبذب کا شکار ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد شکوک و شبہات اور اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہے لیکن یہ تمام ‘کھلاڑی’ بے مقصد لڑائی سے اکتائے ہوئے لگ رہے ہیں۔یہی اس معاملے کا خوش آئند پہلو ہے تاہم، موہوم اشاروں سے امیدیں وابستہ کر لینا مناسب نہیں کہ راستہ مخصوص مفادات کی بارودی سرنگوں اور مذہبی منافرت کے ٹائم بموں سے پٹا پڑا ہے۔
[email protected]
***
***
امریکی کانگریس میں جمال خاشقجی قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ جڑ پکڑ رہا ہے۔ یمن میں خونریزی، شہری آبادیوں پر بمباری اور جنگ کے نتیجے میں قحط نے ایک انسانی بحران پیدا کر دیا ہے اور اب درجنوں اراکینِ کانگریس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ کی فروخت روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ریاض اب یمن کی بے نتیجہ و بے مقصد جنگ سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔ اسی کے ساتھ ریاض سے آنے والے اشاروں سے لگتا ہے کہ MBS ترکی اور ایران سے تعلقات کو معمول پر لانے یا کم از کم کشیدگی ختم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ صدر ایردوان کو رمضان کے آخری عشرے میں دورے کی دعوت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ دونوں جانب سے گرمجوشی کا اظہار بہت واضح اور غیر مبہم تھا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 08 تا 14 مئی 2022