کاس گنج حراستی موت: پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی نابالغ نہیں، مسلم نوجوان کے خلاف اغوا کا الزام ختم

نئی دہلی، نومبر 17: انڈین ایکسپریس نے منگل کو پولیس کے حوالے سے اطلاع دی کہ اتر پردیش کے کاس گنج ضلع میں اس ماہ کے شروع میں پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے مسلم نوجوان کے خلاف اغوا کا الزام ختم کر دیا جائے گا۔

22 سالہ الطاف پر جس لڑکی کو اغوا کرنے کا الزام تھا وہ گزشتہ ہفتے مل گئی تھی۔ پولیس نے کہا کہ وہ لڑکی نابالغ نہیں ہے۔

مبینہ طور پر 19 سالہ خاتون نے پیر کو مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اس نے کہا کہ الطاف نے اس سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ مبینہ طور پر الطاف نے خاتون کو اپنے دوست کے ساتھ آگرہ جانے کے لیے کہا تھا، اس نے مزید کہا تھا کہ وہ بعد میں ان کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔

الطاف کو خاتون کے اہل خانہ کی شکایت پر 9 نومبر کو پوچھ گچھ کے لیے لے جایا گیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ پوچھ گچھ کے دوران اس نے واش روم جانے کی اجازت مانگی اور اپنی جیکٹ کے ہڈ کا استعمال کرتے ہوئے زمین سے صرف دو فٹ اوپر ایک نل سے لٹک کر خودکشی کر لی۔

الطاف کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ اسے قتل کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مرکزی تفتیشی بیورو اس کی موت کی تحقیقات کرے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق الطاف کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 363 (اغوا) اور 366 (عورت کو اغوا کرنا یا اس کی شادی پر مجبور کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

خاتون کے والد نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ لڑکی نابالغ ہے۔ کاس گنج پولیس سپرنٹنڈنٹ بوترے روہن پرمود نے اخبار کو بتایا ’’یہ پتہ چلا ہے کہ اس کی عمر 19 سال ہے۔ اغوا کی دفعہ جو پہلے ایف آئی آر میں شامل کی گئی تھی ہٹا دی جائے گی۔ مجسٹریٹ کے سامنے اس کے بیان کی کاپی حاصل کرنے کے بعد مزید کارروائی پر غور کیا جائے گا۔‘‘

تاہم دی ہندو کے مطابق پولیس ’’عورت کو اغوا کرنے یا شادی پر مجبور کرنے‘‘ کے الزامات کی تحقیقات جاری رکھے گی۔

الطاف کی پولیس حراست میں موت نے ملک میں غم و غصے کو جنم دیا اور اس کی مذمت کی گئی۔ موت کے سلسلے میں نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی۔

بعد میں ایک مبینہ خط میں الطاف کے والد چاند میاں نے اپنے بیٹے کی موت کے لیے اتر پردیش پولیس کو کسی بھی الزام سے بری کر دیا تھا۔ لیکن الطاف کے والد نے بعد میں دعویٰ کیا کہ پولیس نے ان سے مندرجات دکھائے بغیر اس پر دستخط کرائے تھے۔ چاند میاں نے یہ بھی کہا کہ وہ ناخواندہ ہیں اور انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ کس تحریر پر دستخط کر رہے ہیں۔