کسب ِمال کا اسلامی تصور

مفتی شہباز عالم ندوی

مسلمانوں کے ایک حلقے میں مال کے تعلق سے یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی کہ مال کمانا، دولت جمع کرنا اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا توکّل علی اللہ کے منافی ہے، حالاں کہ یہ فکر اور نظریہ اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ ذاتی ضروریات کی تکمیل اور اعلیٰ مقاصد زندگی کی تحصیل کے لیے مال کمانے کی جدوجہد نہ صرف پسندیدہ بلکہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت، زراعت یا کمانے کے دوسرے وسائل وذرائع اختیارکرنے کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر بیٹھے رہنے اور دوسروں کا دست نگر بننے کے بجائے ہاتھ پاؤں مار کر اور محنت ومشقت کر کے حلال روزی حاصل کرنے اور مال کمانے کی ترغیب دی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی میں ہمیں مال و دولت کے تعلق سے ایک صحیح اور متوازن فکر ملتی ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کو معاشی ومالیاتی میدانوں میں درپیش چیلنجز اور مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ انہیں تکوین ثروت اور افزائش دولت کی طرف متوجہ کیا جائے اور اس کے لیے با ضابطہ ایک تحریک اور مہم چلائی جائے۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی جو معاشی حالت ہے وہ جگ ظاہر ہے۔ وہ ہر جگہ کمزور اور حاشیے پر ہیں اور بالکل نچلی سطح کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں واضح طور پر اور دو ٹوک انداز میں یہ پیغام دیا گیا تھا
وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِتُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِن دُونِہِمْ لاَ تَعْلَمُونَہُمُ اللّہُ یَعْلَمُہُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْء ٍفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ (الانفال:60)
’’اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘
یہ آیت ہمیں بہت پر زور طریقے سے دعوت دے رہی ہے کہ دور جدید میں دفاعی اور جنگی تیاری رکھیں۔ اس کے لیے ایک مضبوط معاشی بنیاد کی ضرورت ہے۔
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُواْ أَوْلاَدَہُمْ سَفَہاً بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَہُمُ اللّہُ افْتِرَاء عَلَی اللّہِ (الانعام:140)
’’یقیناً خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو اللہ پر افتراء پردازی کرکے حرام ٹھہرا لیا۔‘‘
وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوہَا مَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْْہِمْ إِلَّا ابْتِغَاءرِضْوَانِ اللَّہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا (الحدید:27)
’’اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔‘‘
حج اسلام کا ایک رکن اعظم اور خالص مذہبی فریضہ ہے ۔اس کی ادائیگی کے لیے سفر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حصول رزق کا حکم دیا ہے لَیْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ ( البقرۃ:198)
اور (اگر حج کے ساتھ ساتھ) تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مال ودولت کی اہمیت قرآن وحدیث کی روشنی میں
مال و دولت اس لیے ضروری ہے کیوں کہ اگر انسان کی معاش متاثر ہو اور وہ فقر و فاقہ کا شکار ہو جائے تو اس کا معاملہ کفر تک جا پہنچتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے
’’ فقر انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘
مزید یہ کہ اگر انسان کو مادی وسائل دستیاب نہ ہوں تو اس کے لیے دینی تقاضوں کی انجام دہی بھی بعض حالات میں انتہائی مشکل اور کبھی کبھی بالکل ناممکن ہوجاتی ہے اس لیے قرآن کریم نے جہاں انسان کی خالص دینی اور روحانی ذمہ داریوں کو یاد دلایا ہے وہیں اس کی معاشی ضروریات اور تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے روحانی معاملات، دینی ذمہ داریوں اور اخلاقی تقاضوں کی کماحقہ تکمیل اسی وقت کر سکتا ہے جب اس کو بقدر ضرورت مادی وسائل اور اسباب میسر ہوں۔
قرآن حکیم نے مال و دولت کو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بتایا ہے، چنانچہ اس نے حکم دیا ہے کہ اپنا مال کم عقلوں کو مت دو ورنہ وہ اسے ضائع کردیں گے
وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَہَاء أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ قِیَاماً (النساء:5)
’’ اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانتَشِرُوا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ (الجمعۃ: 10)
’’ پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘
یہ تمام آیات مال و دولت کمانے اور معاشی جدوجہد کرنے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
اسی طرح متعدداحادیث میں کسب مال کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے نعم المال الصالح للرجل الصالح 2؎
’’اچھا مال اچھے انسان کے لیے ہے۔‘‘
ایک موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے اپنے خادم خاص حضرت انس ؓ کو یہ دعا دی ‘ ’’اللھم أکثرمالہ‘‘ 3؎
’’اے اللہ! اس کے مال میں خوب اضافہ کردے۔‘‘
اسی طرح آپؐ نے ایک موقع پر اپنے رفیق ِ خاص ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا
’’مجھے ابوبکر کے مال کی طرح کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا۔‘‘
خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کی زندگیوں پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جہاں میدان جہاد کے غازی تھے وہیں معاشی جدوجہد اور کسب ِمال کو بھی ضروری سمجھتے تھے ۔چنانچہ عشرہ مبشرہ میں سے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت زبیر بن العوامؓ آج کے ارب پتیوں سے زیادہ مال دار تھے۔ یہ حضرات جنگ کے مواقع پر مالی تعاون پیش کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور دوسرے مواقع پر بھی مسلمانوں کو خوب مالی امداد کیا کرتے تھے ۔
قرآن مجید میں مال کمانے اور اسے خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
فَکُلُواْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّہُ حَلالاً طَیِّباً وَاشْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (النحل:114)
’’پس اے لوگو! اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو، اگرتم واقعی اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔‘‘
یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ (البقرۃ:267)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جو مال تم نے کمائے ہیں اس میں سے بہتر حصہ راہِ خدا میں خرچ کرو۔‘‘
وَآتُوہُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِیْ آتٰکُمْ (النور:33)
’’اور ان (مملوکوں) کواس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔
ظاہر ہے کہ جس شخص کے پاس پیسے ہوں گے وہی خرچ کر سکتا ہے اور جو صاحب نصاب ہوگا وہی زکوۃ سے دوسروں کی مدد کر سکتا ہے۔
مال کب آزمائش بنتا ہے؟
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے مال کی محبت فطری طور پر انسان میں ودیعت کی ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔مثلاً اِنَّہُ لِحُبِّ الخَیْرِ لَشَدِیْدٌ (العادیات:8)’’ اور وہ ( انسان) مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے۔‘‘وَتُحِبُّوْنَ المَالَ حُبًّا جَمًّا (الفجر:20)’’ اور تم مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔‘‘ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَالْبٰقِیٰتُ الصٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْرٌ أَمَلاً ( الکہف:46)
’’ یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔‘‘
اگر مال کی محبت حدود کے اندر ہے اور وہ انسان کی بڑی ذمہ داریوں کو فراموش کرنے کا سبب نہیں بن رہی ہے تو اس کے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس کی محبت بڑھ جائے اور حدود سے نکل جائے تو پھر یہ ناپسندیدہ ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں مال کو فتنۃ ( وجہ آزمائش) بھی کہا گیا ہے۔ وَاعْلَمُوٓا اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَہٌ (الأنفال: 28)’’ اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامان آزمائش ہیں۔‘‘دوسری جگہ ہے وَیْْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَہُ ، یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہُ أَخْلَدَہ ( الماعون3-1)’’ تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے، جس نے مال جمع کیا اور اسے گِن گِن کر رکھا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔‘‘
جائز طریقے سے مال حاصل کرنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اس کی ایسی محبت کہ ہر وقت انسان اسی کی گنتی میں لگا رہے، اسے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے۔ جب کسی پر مال کی محبت اس طرح سوار ہوجائے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میری ہر مشکل اسی کے ذریعہ آسان ہو گی، چنانچہ وہ موت سے غافل ہو کر دنیا داری کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ پھر ایسا شخص اپنی وہ دینی ذمہ داریاں انجام نہیں دیتا جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کر رکھی ہیں، اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا، جس کی اسے تلقین کی گئی ہے، زکوٰۃ نہیں ادا کرتا اور نفقات واجبہ کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم میں دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
اسلام اپنے متبعین کو مال ودولت جمع کرنے کی اجازت دیتا ہے اور دنیاوی فائدے حاصل کرنے کا شوق دلاتا ہے تو ساتھ ہی اس کے مصارف بھی بتا دیتا ہے، تاکہ کوئی نقص واقع نہ ہونے پائے۔ مال داری مسلمانوں کے لیے ایک ایسی آزمائش ہے جہاں اچھے اچھے راسخ العقیدہ لوگوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔
مال و دولت دین و دنیا دونوں کے لیے ضروری ہے۔
مال و دولت کی انسانی معاشرے کے لیے وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم کے لیے خون کی ہے۔ جس طرح انسانی زندگی خون کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح کوئی معاشرہ معاشی سرگرمی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس بنا پر مال حاصل کرنا اور دولت کمانا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ وہ انسانی معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے اور فرد اور معاشرہ دونوں کے وجود وبقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، البتہ دولت کو پا کر اترانا، اللہ کو بھول جانا اور اس کے بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا ناپسندیدہ اور بُری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَابْتَغِ فِیْمَآ آتٰکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ وَلَا تَنسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَأَحْسِن کَمَا أَحْسَنَ اللَّہُ إِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِیْ الْأَرْضِ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ( القصص:77)
’’جو مال اللہ نے تجھے دیاہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر۔ اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں
’’مطلب یہ ہے کہ مال ودولت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کرو جس کے نتیجے میں آخرت کا ثواب حاصل ہو۔ آخرت کا گھر بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا کی ضروریات بالکل نظر انداز کردو بلکہ ضرورت کے مطابق دنیا کا ساز و سامان رکھنے اور کمانے میں بھی کچھ گناہ نہیں ہے، البتہ دنیا اس انداز سے نہ کماؤ جس سے آخرت میں نقصان اٹھانا پڑے۔ یہاں اشارہ فرما دیا گیا کہ جو مال و دولت تمہیں دنیا میں ملا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اس نے تم پر احسان کرکے تمہیں عطا فرمایا ہے، اسی طرح تم بھی لوگوں پر احسان کر کے انہیں اس مال و دولت میں شریک کرو۔ سب سے اہم اصول جس کا نبیﷺ نے اعلان کیا ہے جسے بخاری نے روایت کیا ہے کہ ’’اپنے اہل و عیال کے لیے مال چھوڑ کر مرنا اس سے بہتر ہے کہ آدمی ان کو مفلس اور بے سہارا چھوڑ کر مرے۔‘‘
علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’بعض کم علم لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ ضرورت سے زائد مال جمع کرنا توکّل کے منافی اور گناہ ہے، بلکہ جائز طریقے سے نیک نیتی کے ساتھ ضرورت سے زائد مال جمع کرنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔ البتہ اگر مال جمع کرنے اور بچت کرنے کا مقصد ٹھیک نہ ہو، مثلاً کوئی شخص نمائش، نام و نمود، حبِّ جاہ اور حبِّ مال کی وجہ سے مال جمع کرنا چاہتا ہو، یا غلط جگہوں پر خرچ کرنا چاہتا ہو تو یہ غلط اور گناہ کا سبب ہوگا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے’’ زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے روز خسارے میں ہوں گے مگر جنہوں نے اس طرح اور اس طرح (صدقہ و خیرات میں خرچ) کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً
( الاسراء:6)
اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر انسانوں کو اس کا فضل حاصل کرنے یعنی مال کمانے کی ترغیب دی ہے۔ اگر مال کمانا جائز نہ ہوتا تو مسلمانوں کو زکوۃ کا حکم بھی نہ دیا جاتا۔ اس کے علاوہ حج، صدقات و خیرات، مہر اور وراثت وغیرہ سے متعلق بہت سے احکام و مسائل ہیں جن کے لیے مال و دولت کی ضرورت پڑتی ہے، اگر مال و دولت رکھنا مسلمانوں کے لیے جائز نہ ہوتا تو اس قسم کے احکام بھی نہ دیے جاتے ۔
ایک حدیث قدسی میں مال کا بنیادی مصرف واضح کیا گیا ہے کہ
اِنّا أنزلنا المالَ لاقامِ الصلاۃ واِیتائِ الزکاۃ 5؎
’’ ہم نے مال نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے نازل کیا ہے۔‘‘
اقامت صلوٰۃ سے اللہ کے حقوق اور ادائیگی زکوٰۃ سے بندوں کے حقوق کی طرف اشارہ ہے۔ گویا اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں، جو حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔22
کُلَوا وَ اشْرَبوُا وَ الْبَسُوا وَتَصَدَّقُوا فِي غَیْرِ اِسْرَافٍ وَ لَا مَخَیْلَۃٍ 5؎
’’ کھاؤ پیو، پہنو اور صدقہ کرو، جب تک اس میں فضول خرچی یا تکبر کی آمیزش نہ ہو۔‘‘
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی رہتا ہے، اللہ اس کے تھوڑے عمل سے راضی ہو جاتا ہے۔‘‘ 8؎
حضرت کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ کے پاس سے ایک آدمی کا گزرا صحابہ نے دیکھا کہ وہ روزی کے حصول میں بہت متحرک ہے اور پوری دل چسپی لے رہا ہے۔ وہاں بیٹھے ہوئے بعض اصحاب نے کہا اے اللہ کے رسول! اگر اس کی دوڑ دھوپ اور دل چسپی اللہ کی راہ میں ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے تو یہ اللہ کی راہ میں شمار ہو گی۔ اگر وہ اپنے بوڑھے والدین کی کفالت کے لیے کوشش کر رہا ہے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہو گی اور اگر اپنی ذات کے لیے کوشش کر رہا ہے اور مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچا رہے تو یہ کوشش بھی اللہ کی راہ میں شمار ہو گی۔ البتہ اگر اس کی محنت اور کوشش زیادہ مال حاصل کرکے لوگوں پر برتری جتانے اور ان کے سامنے دکھاوا کرنے کے لیے ہو تو پھر اس کی یہ ساری کوشش اور جدوجہد شیطان کی راہ میں شمار ہوگی۔‘‘9؎
حواشی و مراجع
1۔مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث نمبر 1505، بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان
2۔بخاری ،الادب المفرد،
3۔الکسب الطیب وتربیتہا، ص605، الحدیث 56
4۔بخاری حدیث نمبر3904
5۔الألبانی ، صحیح الجامع حدیث نمبر1781
6۔بخاری، کتاب الباس ، باب قول اللہ تعالیٰ قل من حرّم زینۃ اللہ التي اخرج لعبادہ
7۔ بخاری ، حوالہ سابق
8۔ بیہقی فی شعب الایمان
9۔أخرجہ الطبرانی فی الکبیر (4596)، وصححہ الألبانی (صحیح الترغیب والترہیب، 1692)
***

 

***

 جائز طریقے سے مال حاصل کرنا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اس کی ایسی محبت کہ ہر وقت انسان اسی کی گنتی میں لگا رہے، اسے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے۔ جب کسی پر مال کی محبت اس طرح سوار ہوجائے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میری ہر مشکل اسی کے ذریعہ آسان ہو گی، چنانچہ وہ موت سے غافل ہو کر دنیا داری کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ پھر ایسا شخص اپنی وہ دینی ذمہ داریاں انجام نہیں دیتا جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کر رکھی ہیں، اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا، جس کی اسے تلقین کی گئی ہے، زکوٰۃ نہیں ادا کرتا اور نفقات واجبہ کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم میں دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022