جامعہ تشدد: عدالت نے تسلیم کیا کہ ’’پولیس نے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا‘‘، تاہم اس معاملے کی تحقیقات کے لیے یونیورسٹی کی طرف سے دائر درخواست کو خارج کیا

نئی دہلی، فروری 4: انڈین ایکسپریس کے مطابق دہلی کی ایک عدالت نے بدھ کے روز کہا کہ پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کو قابو کرتے ہوئے کچھ معاملات میں ’’ضرورت سے زیادہ طاقت‘‘ کا استعمال کیا ہے۔

تاہم عدالت نے کہا کہ پولیس کے ذریعے صورت حال پر قابو پانے کی کوشش میں کی جانے والی مبینہ زیادتیوں کا تعلق ان کے فرائض سے ہے اور اس بنیاد پر اس نے اس کی تحقیقات کے لیے یونیورسٹی کی طرف سے دائر درخواست کو خارج کردیا۔

میٹروپولیٹن مجسٹریٹ رجت گوئل نے اپنے حکم میں کہا ’’اگرچہ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہ کام کرتے ہوئے پولیس/جواب دہندگان نے مبینہ طور پر اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا تھا اور بعض مواقع پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا تھا، لیکن کسی بھی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ حرکتیں ان کے سرکاری فرائض سے مکمل طور پر غیر منسلک تھیں۔‘‘

مجسٹریٹ نے مزید کہا کہ پولیس کچھ کنٹرول دکھا سکتی تھی اور صورت حال کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتی تھی۔ ’’تاہم پولیس کی جانب سے اس طرح کے تحمل کی عدم موجودگی اور صورت حال پر قابو پانے کی کوششوں میں کی جانے والی زیادتیوں کا بہت زیادہ تعلق ان کے سرکاری فرائض سے ہے۔‘‘

بار اینڈ بنچ کے مطابق گوئل نے کہا کہ یہ بات بہت واضح ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کچھ مظاہرے متشدد ہوگئے تھے اور پولیس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کی کہ امن و امان کی صورت حال مزید خراب نہ ہو۔

واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران 15 دسمبر 2019 کو پولیس نے یونیورسٹی کے احاطے میں گھس کر طلبا کو زد و کوب کیا تھا، جس کی ویڈیوز پورے ملک میں پھیلنے کے بعد لوگوں میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اور طلبا پر پولیس کی اس بربریت پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ تاہم دہلی پولیس طلبا پر حملے کی بات سے انکار کرتی رہی ہے۔