جماعت اسلامی ہند نے خواتین کے لیے شادی کی قانونی عمر 21 سال کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی، دسمبر 19: جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے خواتین کے لیے شادی کی قانونی عمر بڑھا کر 21 سال کرنے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

مرکزی کابینہ نے حال ہی میں ایک نئے بل کو متعارف کرانے کی منظوری دی ہے جو خواتین کی شادی کی قانونی عمر کو 18 سے بڑھا کر 21 سال کرنے کے لیے ’’بچوں کی شادی پر پابندی ایکٹ، 2006 (PCMA) میں ترمیم کرے گا۔

ایک بیان میں امیرِ جماعت نے کہا ’’ہم نہیں سمجھتے کہ ہندوستان میں خواتین کے لیے شادی کی قانونی عمر کو بڑھا کر 21 کرنا کوئی دانش مندانہ اقدام ہے۔ فی الحال عالمی اتفاق رائے ہے کہ خواتین کے لیے شادی کی قانونی عمر 18 سال ہونی چاہیے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک سمیت زیادہ سے زیادہ ممالک میں اس کی پیروی کی جا رہی ہے۔‘‘

امیرِ جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ’’حکومت سمجھتی ہے کہ 21 سال کی عمر میں شادی سے زچگی کی عمر میں اضافہ ہوگا، زرخیزی کی شرح کم ہوگی اور ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت بہتر ہوگی۔ تاہم ڈیٹا اس نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتا۔ ہمارے ملک میں ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے خراب اشارے غربت اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ عمر کی حد میں اضافے کا صحت کے ان اشاریوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اگر غربت اور صحت کی دیکھ بھال تک ناقص رسائی موجودہ بلند سطحوں پر برقرار رہے گی۔‘‘

امیرِ جماعت نے مزید کہا ’’کم عمری کی شادی کی اعلی شرح والی ریاستوں میں بھی زرخیزی کی شرح گر رہی ہے۔ لہٰذا یہ فرض کرنا کہ خواتین کے لیے شادی کی قانونی عمر کو 21 تک بڑھانا خواتین کے لیے بہت سی بہتری لانے والا ہے، غلط ہے اور تجرباتی اعداد و شمار کی حمایت نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ یہ اقدام فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اس سے نفسیاتی، طبی، سماجی اور انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوں گے۔‘‘

انھوں نے نشان دہی کی ’’سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کچھ خواتین جو 30 سال کی عمر کے بعد پہلی بار ماں بنتی ہیں، انھیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمر کی حد میں اضافے سے ہمارے ملک کی آبادی کی نوعیت پر بھی اثر پڑے گا، جس میں ابھی نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یقیناً نوجوان آبادی کسی ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’ایک بار جب یہ تجویز قانون بن جاتی ہے تو یہ قبائلی برادریوں پر منفی اثر ڈالے گی اور انھیں قانون نافذ کرنے والی مشینری کے ہاتھوں مزید ہراساں کیا جائے گا۔‘‘

جناب حسینی نے کہا کہ حکومت کو جلد بازی میں قانون پاس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ متعلقہ ڈومینز کے کمیونٹی رہنماؤں اور اس موضوع کے ماہرین کے ساتھ بات چیت شروع کر کے اس مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔