اسلام بجز اطاعت کے کچھ نہیں ہے

’’خدارا، بتاؤ کہ پرانی دین دار خاتونوں کی گود میں پرورش پانے کے باوجود جب تمھارا یہ حال ہوا ہے تو جب تمھاری عورتیں بھی غیرتِ ایمانی سے بیگانہ اور اطاعت خدا اوررسولؐ کی حدود سے باہر ہو جائیں گی تو ان نسلوں کا کیا حشر ہوگا جو ان نئی فرنگیت مآب خواتین کی گودوں میں پرورش پاکر نکلیں گی؟ جو بچے آنکھ کھولتے ہی اپنے گرد و پیش فرنگیت ہی فرنگیت کے آثار دیکھیں گے‘ جن کی معصوم نگاہیں اسلامی تہذیب و تمدن کی کسی علامت سے آشنا ہی نہ ہوں گی‘ جن کے کانوں میں کبھی خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں پڑیں گی ہی نہیں‘ جن کے دل و دماغ کی لوحِ سادہ پر ابتدا ہی سے فرنگیت کے نقوش ثبت ہو جائیں گے‘ کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے جذبات‘ خیالات‘ اخلاق‘ اعمال‘ غرض کسی حیثیت سے بھی مسلمان ہوں گے؟
* جرم کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے مگر اس کو جرم سمجھے اور اس پر شرمندہ ہو۔ اس قسم کا جرم محض اپنی حیثیت کے لحاظ سے سزا کا مستوجب ہوتا ہے بلکہ توبہ اور اظہار ندامت سے معاف بھی کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسا جرم صرف انسان کی کمزوری پر محمول کیا جائے گا۔
* جرم کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان جرم کرے اور اس کو عیب کے بجائے خوبی سمجھے اور فخر کے ساتھ اس کا علانیہ اظہار کرے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس شخص کے دل میں اس قانون کا کوئی احترام نہیں ہے جو اس فعل کو جرم قرار دیتا ہے۔
* جرم کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف ایک قانون کے خلاف جرم کا ارتکاب کرے، بلکہ اس کے مقابلے میں ایک دوسرے قانون کے لحاظ سے اس جرم کو جائز اور عین ثواب سمجھے‘ اور جو قانون اس فعل کو جرم ٹھہراتا ہے اُس کا مذاق اڑائے اور اس کی پیروی کرنے والوں کو خطا کار سمجھے۔ ایسا شخص صرف قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا‘ بلکہ اس کی تحقیر کرتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوتا ہے۔
ہر شخص جس میں تھوڑی سی عقل سلیم بھی ہوگی‘ یہ تسلیم کرے گا کہ جب انسان اس آخری مرتبے پر پہنچ جائے تو وہ اس قانون کی حدود میں نہیں رہ سکتا جس کے خلاف اس نے علانیہ بغاوت کی ہے، مگر کس قدر مردود ہے وہ شیطان جو تم کو یقین دلاتا ہے کہ تم اسلامی قانون کی تحقیر کرکے‘ اس کا مذاق اڑا، کر اس کی پیروی کو عیب ٹھہرا کر‘ اور اس کی خلاف ورزی کو ثواب قرار دے کر بھی مسلمان رہ سکتے ہو۔ ایک طرف تو تمھارا یہ حال ہے کہ خدا اور رسولؐجس کو اچھا کہیں اس کو تم برا کہو‘ وہ جس کو برا کہیں اس کو تم اچھا کہو‘ وہ جس کو گناہ ٹھہرائیں اس کو تم ثواب قرار دو‘ وہ جس کو ثواب ٹھہرائیں اس کو تم گناہ سمجھو‘ وہ جو حکم دیں اس کا تم مذاق اڑاؤ، وہ جو قانون بنائیں اس کی خلاف ورزی پر شرمانے کے بجائے تم الٹا اس شخص کو شرمانے کی کوشش کرو جو ان کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔ دوسری طرف تمھارا یہ دعویٰ کہ تم خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہو‘ اور ان کی عظمت تمھارے دل میں ہے‘ اور ان کے پسندیدہ دین یعنی اسلام کے تم پیرو ہو۔ کیا کوئی صاحب عقل انسان تسلیم کرسکتا ہے کہ اس طرز عمل کے ساتھ یہ دعویٰ صحیح ہے؟ اگر ایمان کے ساتھ انکار جمع ہو سکتا ہے‘ اگر تعظیم کے ساتھ تحقیر جمع ہوسکتی ہے‘ اگر یہ ممکن ہے کہ کسی کا احترام بھی دل میں ہو، اور اُس کا مذاق بھی اڑایا جائے۔ اگر یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ خلاف ورزی پر فخر کرنے والا اور پیروی کوملامت کے قابل سمجھنے والا بھی پیرو اور مطیع ہو‘ تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ بغاوت ہی عین اطاعت ہے‘ اور تحقیر ہی عین تعظیم ہے‘ اور انکار ہی کا نام ایمان ہے۔ جو تمھیں ٹھوکر مارتا ہے وہی دراصل تمھاری تعظیم کرتا ہے‘ جو تمھارا مذاق اڑاتا ہے وہی دراصل تمھارا احترام کرتا ہے‘ اور جو تمھیں جھوٹا کہتا ہے وہی دراصل تمھاری تصدیق کرنے والا ہے۔
اسلام بجز اطاعت کے اور کسی چیز کا نام نہیں ہے‘ اور حقیقی اطاعت ایمان کے بغیر متحقق نہیں ہوتی اور ایمان کا اولین اقتضا یہ ہے کہ آدمی کو جب خدا اور رسول کا حکم پہنچے تو اس کی گردن جھک جائے اور وہ اس کے مقابلے میں سر نہ اٹھا سکے
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓ ا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاط وَاُولٓءِٰکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (النور۔۲۴۵۱)
مومنوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو بلایا جائے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
پھر یہ گردن جھکانا بھی بکراہت نہیں بطوع و رغبت ہونا چاہیے‘ حتیٰ کہ حکمِ خدا و رسولؐکے خلاف دل میں بھی کوئی تنگی اور ناراضی چھپی ہوئی نہ ہو۔ جس شخص کی گردن محض ظاہر میں جھک جائے، مگر دل میں اس کے خلاف تنگی محسوس کر رہا ہو وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا۔۔۔ فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (النساء۔۴ ۶۱،۶۵)
اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسولؐکی طرف تو تم دیکھتے ہو کہ منافقین تمھاری طرف آتے ہوئے جی چراتے ہیں۔ پس قسم ہے تیرے پروردگار کی! وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اپنے اختلافات میں تجھ کو فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں‘ پھر جو کچھ تو فیصلہ کرے اس پر اپنے دلوں میں تنگی بھی نہ پائیں بلکہ سر تسلیم خم کر دیں۔
لیکن جو شخص علانیہ حکم ماننے سے انکار کر دے اور خدا اور رسولؐکے قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین کی پیروی کرے اور انھی قوانین کو درست اور حق سمجھے اور ان کی پیروی کرتے ہوئے خدا اور رسولؐکے قانون کا مذاق اڑائے اور اس کی اطاعت کو عیب ٹھہرائے وہ تو کسی طرح بھی مومن نہیں ہوسکتا‘ خواہ وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور مسلمانوں کے سے نام سے موسوم ہو، اور مردم شماری میں اس کو مسلمان لکھا گیا ہو۔ انسان گناہ کرکے مومن رہ سکتا ہے بشرطیکہ گناہ کو گناہ سمجھے اور اس پر نادم ہو، اور اس قانون کو تسلیم کرے جس کے خلاف محض اپنی فطری کمزوری سے اس نے ایک فعل کا ارتکاب کیا ہے، لیکن جب گناہ کے ساتھ بے شرمی اور ڈھٹائی بھی ہو‘ اور اس پر فخر بھی کیا جائے‘ اور اس کو ثواب ٹھہرا کر اس شخص کو ملامت بھی کی جائے جو اس کا ارتکاب نہیں کرتا‘ تو خدا کی قسم ایسے گناہ کے ساتھ ایمان کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ اس مرتبے میں داخل ہونے سے پہلے ہی آدمی کو فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیاوہ مسلمان رہنا چاہتا ہے، یا اسلام سے نکل کر اس قانون کی اطاعت میں داخل ہو جانا پسند کرتا ہے جس کی پیروی میں اس کو شرح صدر حاصل ہو رہا ہے۔‘‘
(تحریر : مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ ۔ ترجمان القرآن، ذی القعدہ ۱۳۵۳ھ۔ فروری ۱۹۳۵ء)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022