ڈاکٹر شکیل احمد خان،جالنہ
سمندر سے ذرا فاصلے پر بڑے بڑے سیاہ پتھروں سے بنے قید خانے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دو شخص ٹہل رہے ہیں۔ رات کی تاریکی میں سمندر کی لہریں کناروں پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں سے سر ٹکرا رہی ہیں۔ ٹہلتے ٹہلتے دونوں شخص کوٹھری میں موجود واحد کھڑکی کے قریب آتے ہیں اورباہر جھانکنے لگتے ہیں۔ ایک کو دکھائی دیتا ہے کیچڑ، دوسرے کوآسمان کے تارے! Frederic Langbridge کے مشہور قول پر مبنی اس بیان کی معنویت کا ادرا ک موجودہ معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال میں ملت کے لیے نہایت اہم ہو چکا ہے۔کہاوت کا درجہ حاصل کر چکا یہ قول دراصل نامساعد حالات میں دو مختلف انسانی رویوں یا نقطہ ِ نظر سے بحث کرتا ہے۔حالات کبھی کلیتاً اچھے یا برے نہیں ہوتے۔ہاں بہت برے یا بہت اچھے ہو سکتے ہیں۔ انسانی زندگی نہ مکمل المیہ ہے نہ مکمل طربیہ۔ اسی لیے مشہور برطانوی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپییر کی مشہور ٹریجڈی جولیس سیزر میں بھی ’’Cinna, the poet‘‘ کا مزاحیہ کردار ملتا ہے تو وہیں ان کی مشہور ترین کامیڈی Merchant of Venis میں’’ Shylock‘‘ جیسا ٹریجک کردار ملتا ہے۔موسمِ بہار میں شاخ پر جھولتے پھول کے مسندِ گل پر بھی باریک کیڑا رس چوسنے آ بیٹھتا ہے اور جنگل کی سیاہ ترین رات میں بھی جگنو جھلملاتے ہیں۔ Marilyn Welch اپنے مضمون The wolf You Feed میں درست کہتی ہیں کہ ’’ دنیا پرفیکٹ نہیں ہے، لیکن پرفیکٹ بیلینس (توازن) میںہے۔اس لیے یہ بات صحیح محسوس ہوتی ہے کہ اگر کہیں کوئی منفی(نگیٹیو) چیز موجود ہے تواسکا مثبت متبادل بھی یقینا وہیں کہیں موجود ہو گا‘‘۔ مدعا اِس تمہید کا یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ، اُن کے تئیں ہمارا رویہ اور ہماری سوچ ہمارے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے یا یوںکہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ہمارا مستقبل طے کرتی ہے۔بات ہمیشہ سچ اور جھوٹ یا صحیح غلط کی بھی نہیں ہوتی۔ جیسے جیل کی کھڑکی سے جھانکنے والے دونوں شخص اپنی جگہ پر صحیح ہیں کیونکہ کیچڑ بھی حقیقت ہے اور تارے بھی۔ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں اور وہ بھی، اِس پر بھی توجہ مرکوز کر سکتے ہیں اور اُس پر بھی۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دیکھنا مناسب اور مفیدہے؟کیادیکھناہمارے جسم،جذبات اور نفسیات پر اچھے،صحت مند اور مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔کیونکہ صحت مند جسم اور مثبت جذبات و نفسیات کیچڑ سے نکلنے اور آسمان پر پہنچنے کے لیے شرطِ اولیں ہوتے ہیں۔یہ امیدوں کو ٹوٹنے اور حوصلوںکو سرد پڑنے سے روکتے ہیں۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم حالات کی سنگینی سے صرفِ نظر کرتے ر ہیں،شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر یہ سمجھنے لگیں کہ آس پاس کوئی درندہ نہیں ہے۔جسے مسائل، مصائب اور استحصال کا احساس ہی نہ ہو وہ ان کے تدارک کے بارے میں کیونکر سوچ سکتاہے۔ حالات یقینا ناگفتہ بہ ہیں۔ہر روز نئے مسائل، ہر روز نئی زیادتیوں کا سامنا ہے۔پرنٹ اور سوشل میڈیا ان چیزوں کے اظہار اور تجزیوںسے بھرا رہتا ہے۔یہ اگرچہ ہمارے باخبر ہونے کا ثبوت ہے لیکن ہر وقت تاریک پہلو دیکھتے رہنے سے مایوسی، بددلی،اضمحلال اور احساسِ محرومی و شکست خوردگی پیدا ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔لہذا، گاہے بگاہے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہاں وہاں ٹمٹماتے ہوئے چراغوں کو بھی دیکھ لیا کیجیے ، رات کی سیاہی میں اِدھراُادھر بھٹکتے جگنوئوں کو بھی دیکھ لیا کیجیے۔کیونکہ مشہور بیسٹ سیلر مصنف John Demartini اپنی شہرہ آقاق کتاب The Breakthrough Experience (2002) میں واضح کرتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی ناخوش گوار یا منفی چیز واقع ہوتی ہے اور ہم صرف اُس منفی چیز کو ہی نہیں دیکھتے بلکہ اس کے ساتھ آئی( یا اُس کے ساتھ موجود) مثبت چیز کو بھی دیکھتے ہیں تو ہم اُس منفی چیز کو ایک متوازن طریقے سے یا تناظر میں سمجھنے لگتے ہیں۔ اور اسکے منفی اثرات سے ابھر بھی سکتے ہیں ‘‘۔لہذا، بقول استادِ من سجاد اختر : ’’ کس لیے شکوہِ ظلمات کریں ؛ آئو تنویرِ نو کی بات کریں ‘‘ ۔ ا گر آپ کے ذہن میں یہ بات آرہی ہے کہ یہ سب کتابی و خیالی باتیں ہیں، حالات بدترین ہو چکے ہیں، ایسے میں کہاں چراغ اور کہاں جگنو تو چلئے ، ہم آپ کو چند جگنو دکھاتے ہیں۔ یہ جگنو ہماری امید ہیں، یہ جگنو ہمارا وقار ہیں، یہ جگنو ہمارا مستقبل ہیں۔
یہ ہے ثنا ارشاد متو ۔ جموں و کشمیر کے سری نگرسے تعلق رکھنے والی اس نوجوان صحافی نے فیچر فوٹو گرافی میںپلٹزر پرائز (۲۰۲۲)کا خطاب حاصل کر کے پوری دنیا میںملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔یہ ہے نکہت زرین۔ ریاست تلنگانہ کے ضلع نظام آباد کی اِس ماہر و محنتی کھلاڑی نے2022 میں انٹالیا میں ہونے والےIBA World Boxing Championships میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور IBA میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی بھارت کی پانچویں خاتون کے طور پر اپنانام درج کروایا ہے۔ یہ ہے بشری متین۔ریاستِ کرناٹک کے ضلع رائچور کے ایک متوسط خاندان کی سول انجینرنگ کی اس ہونہار طالبہ نے وی ٹی یو وشویشوریا ٹیکنیکل یونیورسٹی سے 16 گولڈ میڈلس حاصل کر کے مذکورہ یونیورسٹی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔یہ ہے لامیہ مجید۔اسی ریاست کے ضلع منگلور کی ذہین و فطین اس طالبہ نے ایم ایس سی باٹنی میں میسور یونیورسٹی سے 7گولڈ میڈلس حاصل کیے ہیں۔یہ ہے الفیہ پٹھان۔ ریاستِ مہاراشٹرا کے ناگپور کے پولیس کانسٹیبل اکرم خان کی سولہ سالہ دختر نے حال ہی میں سربیا میں ہونے والے3edNations Cup International Boxing Championship میں برانز میڈل حاصل کیا ہے۔یہ ہے عشرت اختر ۔کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کی یہ باہمت لڑکی چند سال قبل ایک حادثہ میں معذور ہو چکی تھی لیکن آج اُسے ریاست کی پہلی International Wheelchair Basketball Plyerہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس نے تھائی لینڈ میں ہوئےAsia-Oceanic Wheelchair Basketball Championship میں بھارت کی نمائندگی کی ہے۔ یہ ہے الہام ۔ منگلور، کرناٹک کی یہ طالبہ بارہویں سائنس میں 600 میں سے597 نمبرات حاصل کر کے پوری ریاست میں دوسری پوزیشن پر آئی ہے۔ یہ ہے صباحت خان۔ مہاراشٹرا کے ضلع اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی برطانیہ کی مشہور شیفیلڈ یونیورسٹی میں صحتِ عامہ میں پوسٹ گریجویشن کر رہی ہے اور اسے یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آفیسر منتخب ہونے والی پہلی باحجاب مسلم طالبہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ ہے اسحاق حمزہ۔ اس طالب علم نے حال ہی میں آل انڈیا 62 رینک حاصل کرتے ہوئے Indian Statistical Instituteمیں داخلے کاامتحان کوالیفائی کیا ہے ۔یہ ہے سہیل خان۔ ممبئی کے چمبور اشوک نگر چھونپڑپٹی کے رہنے والے ٹیکسی ڈرائیور کے اس فرزند نے کووڈ سینٹر میں زیرِ علاج رہتے ہوئے پڑھائی کی اور سی اے جیسا نہایت اہم امتحان پاس کیا ہے۔ یہ ہے خوشبو مرزا۔اتر پردیش کے چھوٹے سے شہر امروہہ کے ر وایتی متوسط مسلم گھرانے کی اس باصلاحیت اور محنتی لڑکی کا بھارت کے اہم ترین ادارے انڈین اسپیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ( اسرو) میں بحیثیت سائنسداں تقرر ہوا۔ وہ چندر یان مشن 1 کی سب سے کم عمر ٹیم ممبر تھیں۔ وہ مشن 2 کابھی حصہ بنی۔ جب ان کے والد کا انتقاال ہوا وہ صرف سات سال کی تھیں۔ یہ ہے وسیما شیخ۔ مہاراشٹرا کے ضلع ناندیڑ کے ایک پسماندہ گائوں کی اس لڑکی نے انتہائی نامساعد اور نا گفتہ بہ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی۔ والد بیمار رہتے ہیں ماں ان پڑھ مزدور ہے اور بھائی رکشا چلانے کا کام کیا کرتے تھے گھر میں بجلی تک نہیں تھی ان سب کے باوجود اُس نے ایم پی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور آج ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز ہے۔ ( یہاں یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے والے پچاسوں غریب نوجوانوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے)۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جو مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر دستیاب ہیں۔ اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو آپ کو اس طرح کے کئی جگنو دکھائی دیں گے۔ ان کا بھی تذکرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حالات کے دبائو کے شکار ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں بددلی و مایوسی جگہ نہ بنا پائے۔ انہیںامید کی کرنیں نظر آئیں۔وہ بھی زمانے کی حوصلہ شکنی سے متاثر ہوئے بغیر اپنی آنکھوں میں خواب سجا سکیں، ہر فرد کے اندرایسی نظر پیدا ہو جو کیچڑ کے بجائے یا کیچڑ کے ساتھ ساتھ تاروں کوبھی دیکھتی رہے۔ موجودہ دشوار حالات میں ایسا متوازن نقطہِ نظر اور ایسی سوچ پیدا کرنے کی ا شد ضرورت ہے۔تاریکی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے۔ جب رات ہوتی ہے توتاریکی خود بخود بڑھنے لگتی ہے، لیکن جب پو پھوٹنے لگتی ہے تو اجالے کو پھیلنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا، ۔ وقت کا پہیہ صدیوں سے گھوم رہا ہے ، زمین مسلسل سورج کے گرد گردش کررہی ہے۔اگر دن ہمیشہ نہیں رہ سکتا تو رات کہاں مستقل ٹہرنے والی ہے؟ لہذا اس بات کا یقین رکھیے اور اس نغمے کو ،جس کی سچائی کو ملت کے جگنوئوں نے صحیح ثابت کر دیاہے،آپ بھی گنگناتے رہیے کہ :
دن بھی نکلے گا کبھی، رات کے آنے پہ نہ جا
مری نظروں کی طرف دیکھ، زمانے پہ نہ جا
(مضمون نگار انکوش رائو ٹوپے کالج ، جالنہ میں صدر شعبہ انگریزی ہیں)
فون:830821980
***
موجودہ دشوار حالات میں ایسا متوازن نقطہِ نظر اور ایسی سوچ پیدا کرنے کی ا شد ضرورت ہے۔تاریکی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے۔ جب رات ہوتی ہے توتاریکی خود بخود بڑھنے لگتی ہے، لیکن جب پو پھوٹنے لگتی ہے تو اجالے کو پھیلنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا، ۔ وقت کا پہیہ صدیوں سے گھوم رہا ہے ، زمین مسلسل سورج کے گرد گردش کررہی ہے۔اگر دن ہمیشہ نہیں رہ سکتا تو رات کہاں مستقل ٹہرنے والی ہے؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2022