شمال مشرقی دہلی میں اجازت کے بغیر ’’ہندو راشٹر پنچایت‘‘ منعقد کرنے پر پروگرام کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج

نئی دہلی، اپریل 10: دہلی پولیس نے پیر کے روز قومی دارالحکومت کے شمال مشرقی ضلع میں منعقدہ ’’ہندو راشٹر‘‘ پنچایت کے منتظمین کے خلاف میٹنگ منعقد کرنے کی اجازت نہ لینے پر مقدمہ درج کیا۔

یہ تقریب اتوار کو منعقد کی گئی تھی جہاں ایک ہندوتوا تنظیم یونائیٹڈ ہندو فرنٹ کے ارکان نے مطالبہ کیا تھا کہ ایک ’’ہندو راشٹر‘‘ بنایا جائے اور ’’لو جہاد‘‘ کو بڑھاوا دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ تقریب دہلی کے اسی علاقے میں منعقد کی گئی تھی جہاں 2020 میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جس میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور ہندو یونائیٹڈ فرنٹ کے سربراہ جے بھگوان گوئل اس تقریب کے منتظمین میں سے ایک تھے۔ اس تقریب میں بی جے پی پارلیمانی بورڈ کے رکن اور سابق مرکزی وزیر ستیہ نارائن جاٹیہ اور شمالی دہلی کے سابق میئر اوتار سنگھ نے بھی شرکت کی تھی۔

اتوار کی ہندو راشٹر پنچایت میں گوئل نے بھیڑ کو ترغیب دی تھی کہ کوئی بھی ہندو اپنے مکانات یا دکانیں دوسرے مذاہب کے افراد کو فروخت نہ کرے اور نہ ہی کرایہ پر دے۔

گوئل نے کہا تھا ’’ہم پہلے شمال مشرقی دہلی کو ہندو راشٹر ضلع بنائیں گے اور پھر پورے ملک کو ہندو راشٹر بنائیں گے۔ ہم ہندوؤں کے تحفظ کے لیے پنچایت اور ودھان سبھا کی سطح پر یونٹس تشکیل دے رہے ہیں۔‘‘

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق بی جے پی عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ پارٹی کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا مقصد 2025 میں اپنی صد سالہ سالگرہ منانے سے پہلے ملک کو ایک ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے خواب کو پورا کرنا ہے۔

سیاست دان نے 2020 کے دہلی فسادات کا حوالہ بھی دیا اور الزام لگایا کہ اس وقت اس علاقے کو ایک ’’منی پاکستان‘‘ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ تھا۔

دہلی پولیس نے پیر کو اس پروگرام کے منتظمین کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 188 (سرکاری ملازم کے ذریعہ جاری کردہ حکم کی نافرمانی) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ تاہم پولیس نے بی جے پی عہدیدار کے نفرت انگیز بیانات کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ایسٹ) جوئے ٹرکی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’یہ تحقیقات کا حصہ ہے۔ ابھی کے لیے ہم نے منتظمین کے خلاف اصولوں کی خلاف ورزی کے لیے مقدمہ درج کیا ہے۔‘‘