گیانواپی مسجد: ہندوتوا درخواست گزار کا کہنا ہے کہ مسجد کے حوض میں شیولنگ ملا ہے، مسجد کی نگراں کمیٹی کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ شیو لنگ نہیں بلکہ فاؤنٹین ہے

نئی دہلی، مئی 16: وارانسی کی ایک عدالت نے پیر کو ضلعی عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ گیانواپی مسجد کے ایک حصے کو سیل کریں جہاں مبینہ طور پر ایک ’شیولنگ‘ ایک ویڈیو سروے کے دوران پایا گیا ہے۔

تاہم مسجد کمیٹی کے وکیل نے نیوز چینل کو بتایا کہ وہ شیولنگ نہیں بلکہ مسجد کے وضو خانہ میں پتھر کے فاؤنٹین (چشمے) کا حصہ ہے۔

پانچ خواتین درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد کی مغربی دیوار کے پیچھے ہندو دیوتا شرنگر گوری کی تصویر موجود ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں اس جگہ پر روزانہ پوجا کرنے اور دیگر ہندو رسومات کی پابندی کی اجازت دی جائے۔

12 مئی کو عدالت نے سروے کمیشن کو کاشی وشوناتھ مندر کے ساتھ واقع گیانواپی مسجد کے اندر ویڈیو گرافی کرنے کی اجازت دی تھی۔ عدالت نے کمیشن کو 17 مئی کو سروے کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس معاملے میں ہندو خواتین کے ایک گروپ کی نمائندگی کرنے والے وکیل سبھاش نندن چترویدی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ شیولنگ اس تالاب سے پانی نکالنے کے بعد ملا ہے، جو مبینہ طور وضو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم مسجد کے نگراں انجمن انتفاضہ مسجد کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ محمد توحید خان نے چترویدی کے دعوؤں پر اعتراض کیا ہے۔

خان نے عدالت کے حکم کے بعد این ڈی ٹی وی کو بتایا ’’وہ یقینی طور پر شیولنگ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایسی چیز ہے جو فاؤنٹین میں ایک تکنیک کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ آپ اس کے اوپر ایک سوراخ اور اس کے چاروں طرف ٹونٹی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

وکیل نے مزید کہا کہ مسجد کے ایک حصے کو سیل کرنے کا حکم مسجد کے حکام کو فریقین کو پیش کرنے کا موقع دیے بغیر منظور کیا گیا۔ خان نے کہا ’’یہ حکم جانبدارانہ اور قانون کے عمل کے خلاف ہے۔‘‘

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق عدالت کی طرف سے مقرر کردہ آخری تاریخ سے ایک دن پہلے ویڈیو سروے آج پیر کو ختم ہوا۔ حکومت کے وکیل مہندر پرساد پانڈے نے کہا کہ کمیشن نے مسجد کے تمام مقامات کو تفصیل سے فلمایا ہے۔

انھوں نے کہا ’’تین گنبدوں، زیر زمین تہہ خانے، تالاب… سبھی کی ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ کمشنر کل عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے جو آج کمیشن کے تینوں ممبران تیار کریں گے۔ اگر رپورٹ وقت پر مکمل نہ ہوئی تو ہم عدالت سے مزید وقت مانگیں گے۔‘‘

دریں اثنا سپریم کورٹ منگل کو ایک درخواست کی سماعت کرے گی جس میں اس سروے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گی۔ لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق یہ درخواست انجمن انتفاضہ مسجد وارانسی کی انتظامی کمیٹی نے دائر کی ہے۔

یہ کمیٹی گیانواپی مسجد کی نگراں ہے۔

انتظامی کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ سروے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش ہے اور عبادت گاہوں کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ 1991 کا قانون ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام کو چھوڑ کر تمام عبادت گاہوں کو ایک مذہب کی جائے عبادت سے دوسرے مذہب کی جائے عبادت میں تبدیل کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔

دریں اثنا بی جے پی لیڈر اور اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کہا کہ یہ ان کے اور ملک میں شیو کے تمام پیروکاروں کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ مسجد میں ایک شیولنگ پایا گیا ہے۔

موریہ نے کہا ’’سچائی سامنے آ گئی ہے… ہم اس معاملے میں عدالت کے احکامات کا خیرمقدم کریں گے اور ان کی پیروی کریں گے۔‘‘

وہیں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے عدالت کے فیصلے کو ’’بابری مسجد میں دسمبر 1949 کی درسی کتاب کا اعادہ‘‘ قرار دیا۔

انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’’یہ حکم خود مسجد کی مذہبی نوعیت کو بدل دیتا ہے۔ یہ 1991 کے ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ میرا اندیشہ تھا اور یہ سچ ہو گیا ہے۔ گیانواپی مسجد، مسجد تھی اور ان شاء اللہ قیامت تک مسجد رہے گی۔‘‘

اتر پردیش کے ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992 کو منہدم کر دیا تھا، کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ یہ اس زمین پر کھڑی ہے جو دیوتا رام کی جائے پیدائش تھی۔ اس واقعے نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی تھی۔