عالمی غذائی قلت کا بحران

کئی ممالک نے اپنی برآمدات روک دیں

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

سری لنکا جیسی صورتحال سے بچنے کے لیے بھارت محتاط رہے
آج ہم ایک تباہ کن عالمی غذائی قلت کے بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ کوویڈ وبائی مرض نے جہاں دنیا کے بہت سے ممالک کو غذائی قلت اور بھکمری میں مبتلا کردیا تھا وہیں روس اور یوکرین کی جنگ نے اسے مزید بدتر حالات سے دو چار کردیا ہے۔ خاص طور پر ایسے ممالک جو مختلف تنازعات اور جنگ کی مصیبت میں گھرے ہوئے ہیں اور جو موسمیاتی تبدیلی اور معاشی بدحالی سے نبرد آزما ہیں۔ آج دنیا میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو بھکمری کا شکار ہیں اور وہ غذائی قلت کے بدترین بحران کا سامنا کر رہے ہیں، ایسی غذائی قلت جسے دنیا نے پچھلے کئی دہائیوں میں نہیں دیکھا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ نے توانائی کے شعبے کو جس شدت کا جھٹکا پہنچایا تھا اسی شدت یا اس سے بھی شدید اور گہرے غذائی بحران میں دنیا کو دھکیل دیا ہے۔ اشیائے خورد ونوش جیسے گندم، مکئی اور جو کا ایک بہت بڑا حصہ جنگ کی وجہ سے روس اور یوکرین میں پھنسا ہوا ہے، اسی طرح کھاد کا اس سے بھی بڑا حصہ روس اور بیلاروس میں پھنسا ہوا ہے جو دنیا کے دوسرے ممالک کو پہنچنا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عالمی سطح پر خوراک اور کھاد کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا۔ جب سے ان دو ممالک کے درمیان جنگ شروع ہوئی ہے تب سے گندم کی قیمتوں میں 21 فیصد، جو کی قیمتوں میں 33 فیصد اور کچھ کھادوں کی قیمتوں میں 40 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
دنیا ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں، جیسے خشک سالی، سیلاب اور جنگلات میں لگنے والی آگ کے بڑے چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے، تو دوسری طرف وبائی مرض کوویڈ کی وجہ سے اشیاء خورد ونوش کی عدم سربراہی سے قیمتوں میں اضافے ہوا ہے۔ ان دونوں نے مل کر ساری دنیا کا برا حال کر رکھا ہے۔ ماہرین اقتصادیات، امدادی تنظیمیں اور حکومتیں اس کے ہیبت ناک اثرات سے خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ جنگ یوں ہی جاری رہی تو دنیا غذائی قلت کے بحران سے دوچار ہو جائے گی جبکہ بہت سے ممالک میں تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ یقینی طور پر عالمگیر تباہی کا باعث بنے گی، اس جنگ کے تباہ کن اثرات دنیا کے ہر ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ خوراک، کھاد، تیل، گیس اور یہاں تک کہ ایلومینیم، نکل اور پیلیڈیم جیسی دھاتوں کی قیمتیں بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ڈیوڈ ایم بیسلی، جو ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں جو ایک اقوام متحدہ کی ایجنسی ہے اور جو ایک دن میں 125 ملین لوگوں کو غذا پہنچاتی ہے، کا کہنا ہے کہ "یوکرین کی جنگ نے دنیا پر دوہری تباہی کو مسلط کر دیا ہے،” "دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تباہی کی ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔”
یوکرین کے کسانوں کے لیے یہی موسم ہوتا ہے جس میں وہ بویائی کرتے ہیں اور اب وہ اس سے محروم ہو رہے ہیں۔ جو یورپی ممالک کھاد کی پیداوار کرتے ہیں وہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیداوار میں نمایاں کمی کر رہے ہیں۔ برازیل سے ٹیکساس تک کے کسان کھاد کی کمی کی وجہ سے اناج کی پیداوار میں کمی کر رہے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اناج کی پیداوار کم ہو گی اور قیمتیں بڑھیں گی۔
چین شدید سیلاب سے تباہ ہونے والے گندم کی فصل کی بھرپائی کے لیے بڑے پیمانے پر گندم درآمد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ چین کے وزیر زراعت تانگ رینجیان نے کہا ہے کہ "اس سال گندم کی پیداوار کی صورت حال تاریخ کی بدترین صورت حال کہی جا سکتی ہے۔”
اس جنگ نے پوری دنیا کو مہنگائی کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، چھوٹے اور غریب ممالک ہی کیا امریکہ جیسے امیر اور طاقتور ملک کو بھی اس جنگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ امریکی حکومت کہ اعداد وشمار کے مطابق فروری میں اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 8.6 تک فیصد بڑھ چکی ہیں، جو کہ گزشتہ 40 سالوں میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ امریکی معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جنگ اسی طرح جاری رہی تو ان قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
جو ممالک پہلے ہی سے غذائی قلت سے دوچار ہیں اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والے قیمتوں میں اضافے نے انہیں مزید بد تر صورت حال میں پہنچا دیا ہے، قیمتوں میں اضافہ نے بہت سے لوگوں کو افلاس کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں وبائی مرض کے دوران بھکمری میں تقریباً 18 فیصد کا اضافہ ہوا تھا اور تعداد تعداد 720 ملین تھی جو اب بڑھ کر 811 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ اس جنگ سے عالمی غذائی منڈی پر منفی اثرات پڑے ہیں اور بھکمری میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں 7.6 ملین افراد بھکمری کا شکار تھے اب ان کی تعداد 13.1 ملین تک پہنچ گئی ہے یعنی اس جنگ کے نتیجے میں 13.1 ملین افراد بھوک سے مر سکتے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے اخراجات ایک ماہ کی جنگ میں 71 ملین ڈالر بڑھ چکے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ 3.8 ملین لوگوں کو روزانہ غذا فراہم نہیں کی جاسکے گی۔ مسٹر بیسلے نے کہا کہ قیمتوں میں اضافہ سے ایساہو گا کہ "ہم بھوکے لوگوں سے کھانا چھین کر دوسرے بھوکوں کو دیں گے”۔ اگرچہ کہ عملی طور پر ہر ملک کو قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن چند ممالک تو ایسے ہیں انہیں اپنے لیے غذا یا خوراک حاصل کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ مثال کے طور پر آرمینیا، منگولیا، قازقستان اور اریٹیریا جیسے ممالک تو سارا گندم روس اور یوکرین سے ہی درآمد کرتے تھے، اب انہیں نئے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ انہیں عالمی منڈی میں ترکی، مصر، بنگلہ دیش اور ایران جیسے گندم کے بہت بڑے خریداروں سے سخت مقابلہ ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو 60 فیصد سے بھی زیادہ گندم ان دو متحارب ممالک سے خریدتے ہیں۔
تیونس اس جنگ سے پہلے ہی غذائی قلت کا شکار تھا اسے اپنی درآمدات کی ادائیگی کرنی تھی، وہ اسے ادا کرنے کے لیے بڑی تگ ودو کر رہا تھا، اس جنگ کے بعد اسے اپنے آپ کو معاشی تباہی سے روکنے کے لیے بڑی جد وجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ یہی صورت حال مراقش کی بھی ہے، مہنگائی پر عوام نے پورے ملک میں مظاہروں کا آغاز کر دیا ہے، اسی طرح سوڈان کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے، ملک میں نئی بدامنی اور پرتشدد مظاہروں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، لوگ مہنگائی سے بد حال ہیں اور اس سے بھی دگر گوں صورت حال جنوبی سوڈان کی بنی ہوئی ہے۔
کئی ممالک جو مختلف زرعی پیداوار کو برآمد کرتے ہیں انہوں نے اپنی برآمدات روک دی ہیں اس خوف سے کہ ملک میں کہیں غذائی قلت نہ ہو جائے۔ یقینی طور پر دنیا کو اس وقت ایک خطرناک غذائی قلت کے بحران کا سامنا ہے۔ آئے دن ہمیں یہ خبریں اخبارات وجرائد کے ذریعے ملتی رہتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی ملک معاشی دیوالیہ پن اور غذائی قلت کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ ہمارا ملک انڈیا بھی اسی دنیا کا حصہ ہے اور ہر روز بڑھتی مہنگائی سے ہم پریشان ہو رہے ہیں۔ اتنا بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اشیاء ضروریہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، آج ہمارا ملک بھکمری کے اشاریہ میں 101 ویں مقام پر ہے اور ہر سال اس میں ترقی ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں لوگ بھوک وافلاس کا شکار ہیں وہیں ملک کا ایک طبقہ ایسا بھی یے جو اناج کو ضائع کر رہا ہے، اسے کھاتا کم ہے اور ضائع زیادہ کرتا ہے، آپ اپنے اطراف واکناف نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ ہوٹلوں میں، شادی بیاہ کے موقعوں پر ہم یہ صاف دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ غذا کا کتنا ضیاع کرتے ہیں۔
اگر یہی صورت حال رہی تو ہمارے ملک کی حالت بھی جنوبی سوڈان یا سری لنکا جیسی ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ایسے حالات میں ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی طرزِ زندگی کو بدلنا ہو گا،سیدھی سادی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی چاہیے، پرتعیش طرزِ زندگی کو ترک کرنا ہو گا، ہوٹلنگ یا غیر ضروری اخراجات سے اپنے آپ کو روکیں۔ جتنا ہوسکے اشیاء خورد ونوش کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے، جتنی ضرورت ہو اتنا ہی خریدیں اور جمع خوری سے پرہیز کریں،اشیاء جات کی خریدی کے لیے بڑے تجارتی مراکز کی بجائے چھوٹے کاروباریوں کو ترجیح دیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں ہو سکتی ہیں جن کو اختیار کر کے کم از کم اپنے آپ کو اس بحران سے بچایا جا سکتا ہے۔
***

 

***

 عوام کو اپنی طرزِ زندگی بدلنا ہو گا، سیدھی سادی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی چاہیے، پرتعیش طرزِ زندگی کو ترک کرنا ہو گا، ہوٹلنگ یا غیر ضروری اخراجات سے اپنے آپ کو روکیں۔ جتنا ہوسکے اشیاء خورد ونوش کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے، جتنی ضرورت ہو اتنا ہی خریدیں اور جمع خوری سے پرہیز کریں،اشیاء جات کی خریدی کے لیے بڑے تجارتی مراکز کی بجائے چھوٹے کاروباریوں کو ترجیح دیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں ہو سکتی ہیں جن کو اختیار کر کے کم از کم اپنے آپ کو اس بحران سے بچایا جا سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022