جنرل کیٹیگری سے تعلق رکھنے والے ملازمین ہندوستانی میڈیا میں 90 فیصد قائدانہ عہدوں پر فائز ہیں: آکسفیم-نیوز لانڈری کی رپورٹ

نئی دہلی، اکتوبر 15: آکسفیم انڈیا نیوز لانڈری کی جمعہ کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پرنٹ، ٹیلی ویژن اور ڈیجیٹل میڈیا میں تقریباً 90فیصد قائدانہ عہدوں پر جنرل کیٹیگری کے ملازمین کا قبضہ ہے۔

’’ہماری کہانیاں کون بتاتا ہے یہ اہم ہے: ہندوستانی میڈیا میں پس ماندہ ذات کے گروہوں کی نمائندگی‘‘ کے نام سے جاری کردہ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ذرائع ابلاغ میں بہت کم نمائندگی دی گئی ہے۔

محققین نے اپریل 2021 سے مارچ 2022 کے درمیان 20,000 میگزین اور اخباری مضامین، 76 اینکرز اور 3,318 پینلسٹس کے ساتھ 2,075 پرائم ٹائم مباحثوں اور 12 ماہ کی آن لائن نیوز رپورٹس کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔

اس تحقیق میں ہندی اور انگریزی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کے 190 نمونوں کو دیکھا گیا تاکہ قائدانہ کرداروں میں مختلف کمیونٹیز کی نمائندگی کو دیکھا جا سکے اور پتہ چلا کہ تقریباً 91 فیصد عہدوں پر جنرل کیٹیگری کے لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے، اس کے بعد 2.65 فیصد دیگر پسماندہ طبقات نے اور 1.59فیصد درج فہرست ذات کی موجودگی رہی ہے۔ شیڈولڈ ٹرائب کے زمرے میں سے کوئی بھی نیوز چینلز، اخبارات اور میگزین میں قائدانہ عہدوں پر فائز نہیں تھا۔

آٹھ انگریزی اخبارات کے 35 قائدانہ عہدوں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اونچے ذاتوں کی تقریباً 100 فیصد موجودگی ہے۔

رپورٹ میں پتہ چلا کہ ہندی اخبارات میں قائدانہ کردار میں درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کے افراد کی بہتر نمائندگی ہوتی ہے۔ جانچ کی گئی 31 پوزیشنوں میں سے 80 فیصد سے زیادہ پر عام زمرے کے لوگوں تھے، اس کے بعد 6.45 فیصد دیگر پسماندہ طبقات اور 3.23 فیصد درج فہرست ذات کے تھے۔

رپورٹ کے لیے تجزیہ کیے گئے آٹھ نیوز چینلوں کے آدھے سے زیادہ اینکر اعلیٰ ذات کے گروہ سے ہیں جب کہ کسی بھی چینل کے پاس مباحثوں کی میزبانی کے لیے دلت یا آدیواسی برادری سے کوئی اینکر نہیں تھا۔

Oxfam-Newslaundry رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے بڑی تبدیلی درج فہرست ذات کے زمرے کی نمائندگی میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں 2022 میں 3.17 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 2019 میں صفر تھا۔

ڈیجیٹل میڈیا میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے اراکین کی نمائندگی میں بالترتیب صفر سے 11% اور تقریباً 3% کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ دیگر پسماندہ طبقات کے زمرے میں بہت کم اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا میں عام زمرے کی نمائندگی اب بھی 77 فیصد کے قریب ہے۔

رپورٹ میں پتا چلا کہ خبروں کی ویب سائٹس پر مصنف کے نام کے ساتھ تقریباً 72 فیصد مضامین اعلیٰ ذات کے لوگوں کے لکھے ہوئے ہیں اور 12 میگزینوں کے کور پیجز پر شامل 972 مضامین میں سے صرف دس ہی ذات پات سے متعلق مسائل سے متعلق ہیں۔

آکسفیم انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر امیتابھ بہار نے کہا کہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے نیوز روم پسماندہ کمیونٹیز کے لیے ایک جامع جگہ نہیں ہیں۔

بہار نے کہا ’’تمام پلیٹ فارمز پر میڈیا تنظیموں کے لیڈر دلتوں، آدیواسیوں اور بہوجنوں کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ ملک میں میڈیا کو نہ صرف اپنی کوریج میں بلکہ اپنی خدمات حاصل کرنے کے طریقوں میں بھی برابری کے آئینی اصول کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’یہ بہت اہم ہے کہ میڈیا تنظیمیں فوری طور پر ہائرنگ پریکٹس کا ایک اہم جائزہ لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک بھر میں نیوز رومز زیادہ متنوع اور جامع بن جائیں۔‘‘