کسان احتجاج: روہتک میں ہریانہ کے وزیر اعلی کے خلاف مظاہرے کے دوران ایک بزرگ کسان زخمی

نئی دہلی، اپریل 4: ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر کھٹر کے دورے کے موقع پر روہتک میں نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کی پولیس سے جھڑپ کے بعد ہفتے کے روز کم از کم دو افراد زخمی ہوگئے۔

کسانوں نے الزام لگایا کہ ایک کسان پولیس کے لاٹھی چارج کے سبب زخمی ہوا ہے، لیکن ہریانہ پولیس نے اس کی تردید کی۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین کی طرف سے پتھراؤ کے نتیجے میں ایک بوڑھا کسان زخمی ہوا۔

ہفتے کے روز کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب مظاہرین کے ایک گروپ نے کھٹر کو ایک نجی یونیورسٹی میں داخلے سے روکنے کی کوشش کی، جہاں روہتک کے رکن پارلیمنٹ اروند شرما کے والد کی یاد میں انھیں ایک تعزیتی اجلاس میں شریک ہونا تھا۔

کسان یونینوں کی مشترکہ تنظیم سمیکت کسان مورچہ نے بتایا کہ کسان وزیر اعلی کے دورے سے قبل بابا مست ناتھ یونیورسٹی کیمپس کے باہر پر امن طور پر جمع ہوگئے تھے، جب پولیس نے ’’بلا اشتعال‘‘ لاٹھی چارج کیا۔

کسان لیڈ درشن پال نے دی ہندو کو بتایا ’’ہریانہ بی جے پی رہنماؤں اور حکومت کی مسلسل کسان مخالفت تقریروں کے مد نظر ناراض کسانوں نے سیاہ جھنڈوں کے ساتھ پرامن طور پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا اور استھل بوہر میں بڑی تعداد میں جمع ہوئے، تاہم پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جس سے متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے۔‘‘

پال نے بتایا کہ اس واقعے میں بہت سے کسان زخمی ہوئے ہیں۔ ایک اور کسان لیڈر اندرجیت سنگھ نے بھی الزام لگایا کہ خواتین مظاہرین کو مرد پولیس اہلکاروں نے مارا اور کچھ مظاہرین کو ’’شدید چوٹیں‘‘ آئی ہیں۔

تاہم ہریانہ پولیس نے کسی قسم کی تصادم ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’احتجاج سے پرامن انداز میں نمٹا گیا۔‘‘

پولیس افسر راہل شرما نے دی ہندو کو بتایا کہ مظاہرین کی طرف سے پتھراؤ کے دوران ایک بزرگ کسان اور ایک پولیس افسر زخمی ہوئے۔ زخمی کسان کو فوراً طبی امداد فراہم کی گئی تھی۔

دریں اثنا دی انڈین ایکسپریس کے مطابق اس واقعہ سے مشتعل متعدد کسانوں نے ہفتہ کی شام ضلع جند کے کنڈیلہ گاؤں کے قریب قومی شاہراہ بند کردی۔

پولیس کو ٹریفک کو متبادل راستوں کی طرف موڑنا پڑا اور ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے پولیس اور کسانوں کے مابین ہفتے کی شام تک بات چیت جاری تھی۔

کسان، ہسار میں پولیس کے ذریعہ حراست میں لیے گئے ایک کسان رہنما روی آزاد کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔

انھوں نے کسان رہنما راکیش ٹکیت پر حالیہ حملے کی بھی مذمت کی۔ 2 اپریل کو لوگوں کے ایک گروپ نے راجستھان کے الور ضلع میں تکیٹ کے قافلے پر پتھراؤ کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ اس واقعے کے وقت ٹکیت کار میں نہیں تھا۔ کسان رہنما نے الزام لگایا تھا کہ یہ حملہ ’’بی جے پی کارکنوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کیا تھا۔‘‘

معلوم ہو کہ ہریانہ حکومت کے کئی دوسرے رہنماؤں کو، جن میں بی جے پی اور جنتا جن نائک پارٹی شامل ہیں، کو پچھلے کچھ مہینوں میں اسی طرح کے مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔