ہریانہ: ہندوتوا تنظیموں نے نوح کے قریب مہاپنچایت میں ہندوتوا لیڈروں نے انتظامیہ سے ’اپنے دفاع‘ کے لیے بندوقوں کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، اگست 14: ہریانہ کے نوح اور گروگرام اضلاع میں فرقہ وارانہ تشدد کے دو ہفتے بعد ہندوتوا گروپوں نے پڑوسی پلوال میں ایک مہاپنچایت کا انعقاد کیا اور برادری کے دفاع کے لیے بندوق کے لائسنس کا مطالبہ کیا۔ دی ٹریبیون کی خبر کے مطابق سرو ہندو سماج کے بینر تلے منعقدہ مہاپنچایت، پلول کے پونڈری گاؤں میں منعقد ہوا، جو نوح سے متصل ہے۔

نوح میں تقریب کی اجازت دینے سے انکار کے بعد پولیس نے اس شرط پر پلول میں پروگرام منعقد کرنے کی اجازت دی تھی کہ اس میں شرکت کرنے والے ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اور نفرت انگیز تقریر نہیں کریں گے۔ تاہم کچھ مقررین نے انتظامیہ کو ’’ان کو روکنے‘‘ کا چیلنج کیا اور بندوق کے لائسنس کا مطالبہ کیا۔

ہریانہ گئو رکھشک دل گروپ کے سربراہ آزاد سنگھ آریہ نے خطے میں ’’ہر ہندو گاؤں کے لیے 100 ہتھیار‘‘ کا مطالبہ کیا۔

ایک ویڈیو میں آریہ کو تقریر کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’’ہر ایک کو رائفل ملنی چاہیے، ریوالور نہیں، کیوں کہ ریوالور زیادہ دور تک گولی نہیں چلاتے۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنا خون گرم رکھیں۔ میں وزیر اعظم سے پوچھتا ہوں کہ آپ کھٹر کو ہٹا کر یوگی آدتیہ ناتھ جیسا وزیر اعلیٰ کیوں نہیں دے رہے ہیں؟‘‘

آریہ نے یہ بھی کہا کہ وہ ان گئو رکھشکوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنھیں فروری میں دو مسلمان مردوں جنید اور ناصر کو قتل کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔

آریہ نے کہا ’’جنید اور ناصر گائے کے قاتل تھے، اور جیسے ہی وہ مارے گئے راجستھان حکومت ان کے لیے کھڑی ہو گئی۔‘‘

ایک اور مقرر کو مسلمانوں کے بارے میں یہ کہتے سنا گیا کہ ’’اگر تم انگلی اٹھاؤ گے تو ہم تمہارے ہاتھ کاٹ دیں گے۔‘‘

مہاپنچایت نے نوح کی ضلعی حیثیت کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا، جو ہریانہ کا واحد مسلم اکثریتی ضلع ہے۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ ضلع کو گائے ذبیحہ فری بنایا جائے۔ کانفرنس کے مقررین نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی 31 جولائی کو نوح میں ہونے والے تشدد کی تحقیقات کرے۔

مہاپنچایت میں شرکت کرنے والی ہندوتوا تنظیموں نے اعلان کیا کہ وشو ہندو پریشد کا وہ جلوس، جو 31 جولائی کو تشدد کا سبب بنا تھا، 28 اگست کو دوبارہ شروع ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ جلوس اسی روٹ پر نکالا جائے گا۔