عید الفطر اور مسلمان

محمد عزیزالدین خالد

عید الفطر مسلمانوں کو ان کے رب کی جانب سے عطا کیا جانے والا عظیم تحفہ ہے جو ان کو پورا ایک مہینہ صبر و استقامت کے ساتھ روزے رکھنے کے صلے میں دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر رمضان کے روزے اس لیے فرض کیے گئے تاکہ وہ اپنے رب کے متقی و شکر گزار بندے بنیں۔ روزے دنیا میں گناہوں سے بچنے کی نہایت مؤثر ٹریننگ بھی ہیں اور آخرت میں عذاب سے بچنے کے لیے ڈھال بھی۔ روزوں سے گناہوں سے بچنے کی توفیق و صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ جب آدمی جائز اور حلال چیزوں کو مہینہ بھر کے لیے چھوڑ دیتا ہے تو حرام و ناجائز چیزوں کو سال بھر چھوڑ دینا بھی اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ ورنہ رسماً ایک آدھ دن یا کچھ دنوں کے لیے کھانا پینا چھوڑ دینے کا طریقہ تو تقریباً ہر قوم میں پایا جاتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ ان کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے نہ پرہیزگاری نہ خدا ترسی۔ لہٰذا مسلمان جب ایک مہینے پر مشتمل تقویٰ و پرہیزگاری کا یہ کورس مکمل کر لیتے ہیں تو انہیں خوشیوں کی نوید سنائی جاتی ہے اور تازہ دم ہو کر میدان عمل میں اترنے سے پہلے عید کی خوشیاں منانے کا انہیں موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ عید دیگر قوموں کے تہواروں کی طرح کا تہوار نہیں ہے جو خدا کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر کچھ روایات اور خواہشاتِ نفس کی پیروی میں منایا جاتا ہے بلکہ مسلمانوں کو اس روز بھی اپنے رب کے احکام کی پیروی کرنی پڑتی ہے اور عید گاہ روانہ ہونے سے پہلے کچھ غلہ یا رقم غرباء و مساکین تک پہنچانا ہوتا ہے تاکہ وہ بھی شکم سیر ہو کر عید کی نماز کی تیاری کر سکیں۔ اس کا نام فطرہ ہے اور اسی لیے رمضان کی عید کا نام عید الفطر رکھا گیا ہے۔ اسلام کے نزدیک عید ناچنے گانے، ہلڑ مچانے اور پی کھا کر بد مست ہو جانے کا نام نہیں ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں دیکھا جاتا ہے کہ بعض تہواروں کے موقعوں پر لوگ دہشت زدہ ہو کر گھروں کے دروازے بند کر کے تہوار کے گزر جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک عید رب کائنات کے نام کی بڑائی بیان کرنے اور اسلام کی شان و شوکت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں و مسکینوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے۔ اور ساتھ ہی دنیا کو یہ پیغام بھی دیا جاتا ہے کہ امن ہے تو اسلام میں ہے، عافیت ہے تو اسلام میں ہے، سکون ہے تو اسلام میں ہے، چین ہے تو اسلام میں ہے، ترقی ہے تو اسلام میں ہے، تکریم انسانیت ہے تو اسلام میں ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانوں کے رب کی رضا اسلام میں ہے۔
عید کو اب گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں۔ امید ہے کہ مسلمان، روزوں کی طاقت سے آنے والے سال میں گزشتہ سال سے بہتر انداز میں اللہ کی بندگی و عبادت کریں گے۔ اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کریں گے اور اس کے سوا کسی پر بھروسا نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کا بھروسا اللہ پر ہو اسے کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا اور نہ کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے، مگر اتنا ہی جتنا اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمان ڈر و خوف یا اندیشوں کے سایوں میں جینے کے بجائے مومنانہ شان کے ساتھ جئیں اور مومنانہ شان کے ساتھ ہی دنیا سے جائیں۔ دنیا ہم سے وہ سب کچھ تو چھین سکتی ہے جو بہرحال ایک دن چھن جانے والا ہے لیکن ہمارا ایمان نہیں چھین سکتی جسے ہمیں ہر حال میں بچا کر لے جانا ہے۔ کیوں کہ یہی ہمیں جہنم سے بچا سکتا ہے اور جنت میں داخل کروا سکتا ہے۔ دیکھیے غزہ کے مسلمانوں کو کہ کیسے وہ اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں۔ اپنا سب کچھ لٹا کر بھی وہ ایسے مطمئن ہیں جیسے وہی سب سے زیادہ دولت مند ہیں۔ ان کی جگہ اگر کوئی دوسری قوم ہوتی تو پہلے ہی وار میں اسرائیل کے قدموں میں گر جاتی لیکن وہ بھوکے پیٹ ہو کر بھی اسرائیل کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ ایمان کی طاقت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اللہ پر ایمان ہی سب کچھ ہے، اگر یہ نہیں تو ساری دنیا کا اقتدار مل جائے تب بھی بے کار ہے۔ لہٰذا نہ صرف ایمان پر مضبوطی سے جم جائیں بلکہ لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دینے والے بنیں۔ دعوت کے کام کو اتنی تن دہی کے ساتھ کریں اور اسے اتنا پھیلا دیں کہ مسلمان کی شناخت ہی دعوت دینے والے کی ہو جائے۔ مسلمانوں نے یہاں ہزار برس حکومت کی اور بہت کچھ اچھے کام بھی کیے لیکن یہی ایک کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں ان کو آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ اور اگر ابھی بھی وہ یہ کام نہیں کریں گے تو ہمارے بعد میں آنے والوں کو اس سے بھی برے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں، اس لیے اس کام سے غفلت نہ برتیں۔
آپ سب کو عید مبارک۔
***

 

***

 حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اللہ پر ایمان ہی سب کچھ ہے، اگر یہ نہیں تو ساری دنیا کا اقتدار مل جائے تب بھی بے کار ہے۔ لہٰذا نہ صرف ایمان پر مضبوطی سے جم جائیں بلکہ لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دینے والے بنیں۔ دعوت کے کام کو اتنی تن دہی کے ساتھ کریں اور اسے اتنا پھیلا دیں کہ مسلمان کی شناخت ہی دعوت دینے والے کی ہو جائے۔ مسلمانوں نے یہاں ہزار برس حکومت کی اور بہت کچھ اچھے کام بھی کیے لیکن یہی ایک کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں ان کو آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ اور اگر ابھی بھی وہ یہ کام نہیں کریں گے تو ہمارے بعد میں آنے والوں کو اس سے بھی برے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں، اس لیے اس کام سے غفلت نہ برتیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اپریل تا 13 اپریل 2024