غزہ کے لیے عرب فوج؟۔رفح پامال کرنے کی تیاریاں

مصر ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی فوج غزہ بھیجی جائے گی

مسعود ابدالی

غزہ اسرائیل کا افغانستان بننے کے قریب ہے: عسکری ماہرین
رمضان کے آغاز سے اسرائیلی فضائیہ اوسطاً 70 حملے یومیہ کر رہی ہے۔ اس کے باجود اہل غزہ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
غزہ میں عرب فوج اتارنے کی بازگشت کچھ عرصے سے سنائی دے رہی تھی۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوف گیلینٹ (Yoav Gallant) کے دورہ امریکہ سے واپسی پر تل ابیب اور ’ہمدرد‘ عرب ممالک کے درمیان راز و نیاز میں اضافے سے یہ افواہ اب حقیقت کا روپ دھارتی نظر آرہی ہے۔ اسی دوران اسرائیل نے بڑی فوجی مشق کا آغاز کر دیا ہے جس میں بری، بحری و فضائی فوج کے علاوہ چھاپہ مار اور بحریہ کے برآبی (Amphibious) دستے حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مشقوں کا مقصد شمال میں کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کی تیاری کو مضبوط کرنا ہے۔ گویا یہ لبنان کی سرحد پر ہونے والی کشیدگی سے نمٹنے کے لیے ہے لیکن مشق میں برآبی دستے کی شمولیت سے یہ رفح پامال کرنے کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔
غزہ کے نوحے سے پہلے غربِ اردن میں ڈکیتی کی ایک واردات کا ذکر۔ چند روز پہلے اسرائیلی حکومت نے وادی اردن (Jordan Valley) میں فلسطینیوں کی 1976 ایکڑ اراضی کو قومی ملکیت میں لے کر اسے State Land قرار دے دیا۔ اب یہاں مکانات بنا کر اسرائیلیوں کو آباد کیا جائے گا۔ امریکی اور فرانسیسی صدور نے اس قدم پر ‘گہری تشویش’ کا اظہار کرتے ہوئے اسے امن کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ اسرائیلی وزرا اب اسی ماڈل پر غزہ میں بھی بستیاں آباد کرنے کا باتیں کر رہے ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ کے داماد جیررڈ کشنر، غزہ کے خوبصورت و شفاف نیلگوں ساحل پر رال ٹپکاتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اگر یہاں آباد لوگوں کو کہیں اور منتقل کرکے اس کی صفائی اور تزئین و آرائش کرلی جائے تو غزہ کے Waterfront کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ جناب کشنر Real Estate King کے نام سے مشہور ہیں۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر جو خبریں شایع ہو رہی ہیں ان کے مطابق واشنگٹن کی حالیہ ملاقاتوں میں اسرائیلی وزیر دفاع کو اس خدشے سے آگاہ کر دیا گیا کہ رفح پر حملے کی صورت میں وہاں موجود پندرہ لاکھ فلسطینی بمباری و گولہ باری کا براہ راست نشانہ بنیں گے اور دھاوے کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس کارروائی میں کئی لاکھ شہریوں کی ہلاکت یقینی ہے۔ فلسطینیوں کی موت تو ایسی کوئی بات نہیں کہ جس پر امریکی قیادت اپنی نیندیں خراب کرے، لیکن صدر بائیڈن کو ڈر یہ ہے کہ اگر امریکی مسلمانوں کے ووٹ نہ ملے تو ان کے لیے نومبر میں انتخاب جیتنا مشکل ہوگا کہ جن ریاستوں میں کانٹے کا مقابلہ ہے وہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہیں۔
چنانچہ حملے سے قبل رفح سے شہریوں کی جبری منتقلی پر امریکہ اور اسرائیل رضا مند ہو چکے ہیں۔ غزہ حملے کے وقت اسرائیل کی حکمت عملی یہ تھی کہ شہریوں کو مصر ی سرحد کی جانب دھکیل کر انہیں سینائی ہجرت پر مجبور کردیا جائے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ چھ ماہ کی مسلسل بمباری، عمارتوں کی مسماری اور شدید غذائی قلت بلکہ قحط کے باوجود مزاحمت کار اکثر مقامات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ امریکی سیاروں، جاسوسی ڈرون اور دوسرے جدید ترین آلات اسرائیلی قیدیوں کا سراغ یا پتہ لگانے میں ناکام رہے اور اسرائیل اب تک غزہ میں کسی بھی جگہ اپنی مستقل چوکی نہیں بناسکا۔
رمضان کے آغاز سے اسرائیلی فضائیہ اوسطاً 70 حملے یومیہ کررہی ہے۔اس کے باجود اہل غزہ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں اور مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ غزہ سے آنے والے زخمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعرات 28؍ مارچ کو شفا ہسپتال کے قریب تصادم میں اسرائیلی کمانڈو یونٹ کا کمانڈر مارا گیا اور 16 فوجی شدید زخمی ہوئے۔غزہ سے معذور ہو کر واپس آنے والے جوانانِ رعنا کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ جمعہ امیدِ نو یا New Hope Party حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی۔ پارٹی کے سربراہ گِدون سعر نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ حکومت غزہ میں اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے ۔ میری جماعت اس معاملے میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت کھوچکی ہے لہذا امیدِ نو اب حکومت کا حصہ نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی انجمن Euro-Med Human Rights Monitorنے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل غزہ پر 25ہزار ٹن بارود برسا چکا ہے یا یوں کہیے کہ 41کلومیٹر لمبی اور 6کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر دو ایٹم بم گرا دیے گئے۔اس بربریت نے جو تباہی پھیلائی ہے اس کا اظہار امریکی ڈاکٹروں کے ایک وفد نے کیا ہے جو 28؍ مارچ کو غزہ پہنچا ۔ الاقصیٰ ہسپتال پہنچتے ہی وفد کی قائد، ڈاکٹر ثانیہ حسن نے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئےکہا ’سامنے ایک بچے کی لاش ہے جس کے سر کو میزائیل کا ٹکڑا پاش پاش کرگیا۔ لاش کے قریب اس کی ننھی بہن آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس بدنصیب کے چہرے کا بڑا حصہ اُڑ چکا ہے۔ ایک دس سال کا زخمی بچہ تکلیف کی شدت میں چیخ چیخ کر ماں باپ کو پکار رہا ہے۔ میں اس کو کیسے بتاوں کہ تمہارے ماں باپ تمہیں تڑپتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس جاچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کی بہن لیٹی ہے لیکن وہ اسے پہچان نہیں سکتا کہ اس بچی کا سارا جسم جلا ہوا ہے۔
اس دورے سے ایک دن پہلے الجزیرہ پر ایک بصری تراشا جاری ہوا۔ تراشے میں فلمایا منظر کچھ اس طرح ہے کہ غزہ میں دو نہتے فلسطینی جو غیر مسلح ہونے کی علامت کے طور پر سفید پرچم اٹھائے ہوئے تھے، چند گز کے فاصلے سے گولی مار کر ختم کردیے گئے۔ شاید اسے بھی Collateral Damage سمجھ کر برداشت کرلیا جاتا لیکن اس کے بعد ان کی لاشوں کو بلڈوزر سے کچرے کی طرح دھکیلتے ہوئے نشیب میں گراکر اس پر ملبہ ڈال دیا گیا۔یہ منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوا لیکن مذمت تو کجا تشویش کی کوئی خبر بھی سامنے نہ آئی۔
فلسطینی تو برباد ہوگئے لیکن غزہ حملہ آوروں کے لیے بھی ایک ڈراونا خواب بن گیا ہے۔ فوجی نقصانات پر اسرائیل کے شہری اب مایوسی کی حد تک پریشان ہیں۔ اسرائیل و امریکہ کے عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ اسرائیل کا افغانستان بننے کے قریب ہے۔ وزیر دفاع کے دورہ واشنگٹن میں امریکہ کے دفاعی حکام نے ‘ڈرتے ڈرتے’ جناب گیلینٹ کو یہ باور کرانے کی ‘ہمت’ کی کہ مزاحمت کاروں کو فنا کرنا اتنا آسان نہیں کہ اسرائیل اپنے ترکش کا ہر تیر استعمال کرچکا ہے۔ لیکن مستضعفین کے عزمِ مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
کچھ روز پہلے نتن یاہو نے کہا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو اسرائیل رفح حملہ موخر کرسکتا ہے۔ اس بات سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اسرائیل خونریزی کے بجائے تنازعے کو بات چیت کے ذریعے پرامن انداز میں طے کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ تاخیر کی اصل وجہ اسرائیلی فوج کی ہچکچاہٹ ہے۔ وزیر دفاع گیلینٹ کے دورہ واشنگٹن سے پہلے یہ خبر آئی تھی کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے وزیر اعظم نتن یاہو سے رفح پر حملے کو موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔ جرنل صاحب کا کہنا تھا کہ ر فح کے لیے انہیں مزید بموں اور بمبار طیاروں کی ضرورت ہے۔ مطلوبہ اسلحے کی شاپنگ لسٹ لے کر جناب گیلنٹ واشنٹگٹن گئے اور جس روز اسرائیلی و امریکی وزرائے دفاع کی ‘خوش گوار’ ملاقات اور ڈیموکریٹک ارکان کانگریس سے ‘خوش گپیوں’ کی تصاویر شائع ہوئیں اسی دن واشنگٹن پوسٹ میں انکشاف ہوا کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 2000 پونڈ کے 1800اور 500 پونڈ کے 500 بم فراہم کرنے منظوری دے دی۔ تازہ کھیپ میں F-35 بمبار طیارے بھی شامل ہیں جن کی تعداد 25 بتائی جارہی ہے۔ یہ اسلحہ اسرائیل پہنچنے میں تین سے چار ہفتے لگیں گے جس کی وجہ سے رفح حملہ موخر کرنا ضروری سمجھا گیاکیا۔
صدر بائیڈن کی اس دو رخی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سینٹر برنی سینڈرز نے کہا ‘بم باری بند کرنے کی التجا اور دوسری جانب اسرائیل کو بموں کی مسلسل فراہمی، بائیڈن انتظامیہ کس کو بے وقوف بنا رہی ہے؟ واضح رہے کہ سینڈرز صاحب خود بھی ایک یہودی ہیں لیکن ان کے خیال میں اسرائیل تیزی سے ایک بنیاد پرست ملک بنتا جا رہا ہے۔ یورپ کے ایک موقر مرکز دانش Stockholm International Peace Research Institute (SPIRI) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ میں استعمال ہونے والا 69 فیصد اسلحہ امریکی اور 30 فیصد جرمن ساختہ ہے۔
اسلحے کے انتظار کے ساتھ رفح سے انخلا کے منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم نے اس جانب اشارہ کیا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیرِ امورِ تزویرات (Strategic Affairs) ران ڈرمر کے حوالے سے خبر شائع ہوئی کہ غزہ آنے والی انسانی امداد کی تقسیم کے لیے تین عرب ممالک اپنی فوج بھیجنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ ڈرمر صاحب نے ان ملکوں کے نام نہیں بتائے لیکن تاثر دیا کہ اس فہرست میں سعودی عرب اور قطر شامل نہیں۔ ساتھ ہی یہ اشارہ بھی ملا کہ مصر اور متحدہ عرب امارات کے دستے غزہ اترنے کی تیاری کر رہے ہیں اور تیسرے ملک کے بارے میں کہا کیا کہ وہ اسرائیل کا دوست ہے لیکن پڑوسی نہیں، جس سے ایسا لگا کہ بحرین کے فوجی بھی غزہ آئیں گے۔
ڈرمر صاحب کے مطابق امدادی سامان سے لدے بحری جہازوں کے لیے غزہ کے ساحل پر امریکہ جو گھاٹ یا Pier تعمیر کر رہا ہے، اس کی نگرانی عرب فوج کرے گی جس کے لیے ان ملکوں سے حمل و نقل اور امور بندرگاہ کے ماہرین بھی غزہ آئیں گے۔ امدادی تقسیم کے لیے ‘غیر عسکری’ اہل غزہ کو بطور امدادی کارکن بھرتی کیا جائے گا۔ اہل غزہ کو بھرتی کرنے کا بنیادی مقصد مزاحمت کاروں کی جاسوسی اور ان کے خلاف رائے عامہ کو بھڑکانا ہے کہ جو ہاتھ رزق تقسیم کریں گے ان کے لیے در اندازی اور دست درازی آسان ہوگی۔ اسی کے ساتھ عرب فوج اہل رفح کو محفوظ و آرام دہ جگہ منتقل کرنے کے کام کی نگرانی بھی کرے گی۔ جب کسی نے ڈرمر صاحب سے پوچھا کہ یہ محفوظ مقام کونسا ہوگا تو انہوں نے ’ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے‘کہہ کر بات ٹال دی لیکن باتوں ہی باتوں میں یہ کہہ گئے کہ غزہ کا بڑا علاقہ تو اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔
اسی بنا پر خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امدادی سامان کی تقسیم کے دوران جب عرب فوجی اور غزہ کے رضا کار عوام کا اعتماد حاصل کرلیں گے تب سینائی کی طرف ہجرت کا ڈول ڈالا جائے گا۔ مصر کے جنرل السیسی پُر امید ہیں کہ جیسے انہوں نے اخوان المسلون کو مصر میں کچلا اسی طرح وہ اخوانی فکر سے وابستہ غزہ مزاحمت کاروں کو لگام دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ السیسی کا یہ اعتماد تکبر کے ساتھ زمینی حقائق سے ان کی لاعلمی ظاہر کر رہا ہے۔ مصری فوج نے 1973 کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی ۔اخوان المسلمون ایک پرامن و غیر مسلح دعوتی و سیاسی تحریک ہے جسے انہوں نے آہنی بوٹوں سے مسل دیا۔ اس کے برعکس، غزہ کے ٓمزاحمت کار نہ صرف مسلح ہیں بلکہ اسرائیلی فوج سے لڑنے کا ان کا تجربہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
اس تناظر میں غزہ اترنے والی عرب فوج اور اسرائیل کے مقامی گماشتوں کے لیے مستضعفین کو کچلنا اتنا آسان نہیں لیکن بھائی کا ہاتھ اپنے ہی بھائی کے لہو سے سرخ ضرور ہو جائے گا ۔ شاید یہی Strategic Minister صاحب کی اسڑیٹیجی ہے ۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اپریل تا 13 اپریل 2024