بھارت میں بڑھتی ہوئی نفرت کی سیاست سے خوف کا ماحول

آسام کے بوڈو لینڈ یونیورسیٹی کے پروگرام میں مسلمانوں کو مجرم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش

شبانہ جاوید ،کولکاتا

غیرمسلم طبقے میں بھی ناراضگی۔ یونیورسیٹی انتظامیہ معذرت خواہی پر مجبور
بھارت ایک ایسا ملک ہے جو اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے لیے جانا جاتا ہے جس کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کی جڑیں آج بھی یہاں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی وجہ سے مضبوط ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ الگ الگ مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود مل جل کر رہتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دس برسوں میں اسی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کمزور کیا گیا ہے۔ آج حال یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دور کھڑے نظر آتے ہیں اور ان سب کے بیچ اگر کوئی طبقہ سب سے زیادہ پریشان حال نظر آ رہا ہے تو وہ ہے ملک کا مسلم طبقہ۔
بٹوارے نے ملک کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ بٹوارے کے درد اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان سے ملک کا مسلم طبقہ اب تک ابھر نہیں پایا ہے۔ ایک بڑی آبادی مسلمانوں کی ایسی ہے جو آج بھی کسم پرسی کی زندگی گزارتی ہے جن کے لیے دو وقت کی روٹی اور اچھی تعلیم محال ہے۔ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بھی اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ ملک کا مسلم طبقہ حیرت انگیز طور پر دلتوں سے بھی زیادہ ہر محاذ پر پچھڑا ہوا ہے۔ ملک کے مسلمانوں کی حالت سب سے زیادہ پس ماندہ ہے لیکن پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے جہاں مسلمانوں کی ترقی کے لیے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے الٹا ان کو ایک الگ تھلگ کر کے دوسرے درجے شہری کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں بھگوا پارٹی نے سیاسی طور پر خود کو مضبوط بنانے کے لیے نفرت کی سیاست کو ہوا دی جو اس تیزی سے پھیلی کے کہ آج ملک کے دو طبقوں میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ مسلم طبقہ جو پہلے سے ہی کم زور تھا وہ اس نفرت کی سیاست کی وجہ سے پوری طرح حاشیے پر پہنچا دیا گیا ہے جسے آج روزی روٹی سے زیادہ تحفظ کا مسئلہ در پیش ہے۔
اس ماحول نے مسلم طبقہ کو خوف زدہ کرنے کا کام کیا ہے۔ چناں چہ اب وہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے فکر مند نظر آتا ہے۔ ملک بھر میں آئے دن ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جو مسلمانوں میں خوف کے احساس کو بڑھاتے ہیں۔ جیسے حالیہ دنوں میں دلی میں نماز پڑھتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ایک پولیس والے کی زیادتی، ٹرین میں سفر کرنے کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی واردات اور گجرات میں طلباء کو تراویح کی نماز کے دوران نشانہ بنائے جانے کی کوشش۔ اسی طرح مساجد پر جبراً قبضے کی کوششیں، یو پی، اترا کھنڈ اور آسام میں مزاروں پر بلڈوزر اور مدرسوں کو مقفل کیے جانے کے واقعات نے اس تشویش میں اضافہ ہی کیا ہے۔ حال یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں آسام کے کوکرا جھار کے بوڈولینڈ یونیورسٹی کے جغرافیہ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے منعقدہ ثقافتی پروگرام میں مسلمانوں کو مجرموں کے طور پر پیش کیے جانے کے واقعے نے نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم طبقے میں بھی بے چینی پیدا کر ہے۔ ملک کی سول سوسائٹی کا سوال یہ ہے کہ آخر بھارت کے لوگوں میں اپنے ہی ملک کے ایک طبقے کے خلاف اس قدر نفرت و بدگمانی کیسے سرایت کر گئی ہے۔ اس واقعے کے خلاف مسلم سمیت غیر مسلم طبقے نے بھی احتجاج کیا ہے جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو معافی مانگنی پڑی۔ بوڈولینڈ یونیورسٹی میں طلبا کی ایک ثقافتی ریلی میں مسلمانوں کے لباس میں ملبوس چند افراد کو پولیس کے ذریعہ گرفتار کرکے لے جاتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ واقعہ 16؍ مارچ کو پیش آیا جہاں یونیورسٹی کے 23 ویں اجلاس اور تھولنگا فیسٹیول کے دوران بوڈو لیجنڈری ہیروز کے جشن کے طور پر ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے وائرل ویڈیو میں ایک اسٹیج پروگرام دکھایا گیا ہے جس میں دو افراد مسلم لباس میں ہیں ان کے چہرے پر داڑھی اور سرپر ٹوپیاں ہیں اور ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہے جو پولیس کے لباس میں ملبوس ایک شخص کے پیچھے ریلی میں چل رہے تھے۔ وردی میں ملبوس پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں مسلم لباس پہنے دو افراد کو مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد آل بی ٹی ار مايناریٹی اسٹوڈنٹس یونین، آل آسام اقلیتی اسٹوڈنٹس یونین اور نارتھ ایسٹ اقلیتی اسٹوڈنٹس یونین نے اس معاملے میں بوڈو لینڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر بابو لال اہوجا کو میمورنڈم پیش کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل تحقیقات اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ آسام کے پروفیسر رت راج کلیتا نے اس واقعے کو افسوس ناک بتاتے ہوئے کہا کہ بوڈو لینڈ یونیورسٹی کے پروگرام میں مسلمانوں کو مجرم کے طور پر پیش کیا گیا جو قابل مذمت ہے۔ ایک اعلی تعلیمی ادارے میں یہ نہیں ہونا چاہیے۔انہوں ہے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے تعاون کے بغیر یونیورسٹی کیمپس میں اس طرح کا پروگرام پیش کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس کی ریہرسل بھی کی گئی ہوگی اور انتظامیہ کو تمام پروگرامس کے بارے میں جان کاری بھی دی گئی ہوگی لیکن یونیورسٹی کے ماہرین انتظامیہ کو یہ پروگرام قابل اعتراض نہیں لگا اور اسکی اجازت دی گئی جو کہ افسوس ناک ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یونیورسٹی کیمپس میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کیا جائے اور یونیورسٹی کو فکر اور اظہار کی ازادی کے ساتھ تعلیمی نصاب پر توجہ دینی چاہیے۔ یونیورسٹی کی طلبا یونین نے واقعے کے بعد معافی مانگ لی ہے۔ طلبا یونین کے رکن ہیرک جیوتی نے کہا کہ ’’ہم اور ہمارا معاشرہ‘‘ کے تھیم کے تحت پروگرام پیش کرنا تھا۔ اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں تھا کسی بھی کمیونٹی کو پس ماندہ کرنے یا اس کی تذلیل کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہمارا بنیادی مقصد موجودہ سماجی منظر نامے کی عکاسی کرنا تھا۔ آسام اقلیتی اسٹوڈنٹس یونین کے رکن زیڈ احمد نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ طالب علم ہو یا اس سے وابستہ پروفیسر، ان کے خلاف تفتیش ضروری ہے۔ ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے ملاقات کی اور ایک میمورنڈم پیش کیا اور معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد آسام کے مختلف علاقوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ سماجی کارکن محمد ازاد نے کہا کہ ویڈیو افسوس ناک ہے۔ یہ پروگرام اسی نفرت کا حصہ ہے جو پورے ہندوستان میں پھیل رہی ہے۔ الزام یہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سیاسی سازش ہے۔ بہرحال یونیورسٹی انتظامیہ نے کارروائی کا یقین دلایا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نماز کے دوران پولیس افسر کی بد سلوکی گجرات میں غیر ملکی مسلم طلبا کے ساتھ نماز کے دوران پیش آنے واقعے سمیت مسلمانوں کے خلاف چلائے جانے والی نفرتی مہم کے خلاف ملک کا غیر مسلم طبقہ بھی پریشان ہے اور اس کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ کئی معاملوں میں ہونے والی کارروائی کو اس احتجاج کا نتیجہ بھی مانا جاتا ہے۔سماجی کارکن محمد ریاض جن کا تعلق کولکاتا سے ہے، انہوں نے کہا کہ نفرت کے اس ماحول میں لوگ سہمے ہوئے ہیں لیکن ہمیں آواز اٹھانی ہوگی کیونکہ اس آواز میں سماج کا ہر طبقہ شامل ہوگا جو ہماری فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کے لیے کافی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اپریل تا 13 اپریل 2024