اداریہ

اتحاد و یکجہتی کا مطلب یکسانیت نہیں

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے ہندی زبان کے متعلق ایک بیان نے ملک کے مختلف علاقوں اور دوسری زبان بولنے والوں میں ناراضی کی لہر پیدا کردی ہے۔امیت شاہ نے گزشتہ جمعرات کو پارلیمانی سرکاری زبان کمیشن کے اجلاس میں کہا تھا کہ مختلف ریاست کے شہریوں کو ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے کسی ایک ہندوستانی زبان کا استعمال کرنا چاہیے اور اس معاملے میں ہندی کو انگریزی کے متبادل کے طور پر قبول کرلینا چاہیے۔ امیت شاہ نے، جو اس کمیٹی کے چیرمین بھی ہیں، کمیٹی کے ارکان کو مطلع کیا کہ اس وقت مرکزی کابینہ کا ستر فیصد ایجنڈا ہندی ہی میں تیار کیا جاتا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے پریس ریلیز میں امیت شاہ کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ سرکاری زبان کو ملک کے اتحاد کے ایک اہم جزو کے طور پر اختیار کر لیا جائے۔ انہوں نے اس موقع پر ہندی زبان کی توسیع کے لیے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ہندی زبان کو دیگر علاقائی زبانوں کے الفاظ کے قبول کرنے میں لچک دار نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک اس کو پھیلایا نہیں جا سکتا۔ حزب اختلاف کے قائدین اور دوسری علاقائی زبانوں کے لوگوں نے ہندی کے متعلق وزیر داخلہ کے اس بیان کو ہندی کی استعماریت قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ کانگریس، شیو سینا، ڈی ایم کے، ٹی آر ایس اور ترنمول کانگریس کے قائدین نے اپنے اپنے طور پر امیت شاہ کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘سرکاری زبان اور ترسیل کے واسطے کے متعلق مزکزی وزیر داخلہ کے بیان کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ ہندی ہماری قومی زبان نہیں ہے اور ہم اسے کبھی یہ بننے نہیں دیں گے’۔ ٹی ایم سی کے کنال گھوش نے کہا کہ ‘ہم ہندی کا احترام کرتے ہیں لیکن ہندی کو لاگو کرنے کے مخالف ہیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں مختلف زبانیں استعمال کی جاتی ہیں اور امیت شاہ نے جو کہا ہے اس پر انہیں دوبارہ غور کرنا چاہیے’۔ شیو سینا کے لیڈر منیشا کائندے نے کہا ‘امیت شاہ کے بیان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سے وہ علاقائی زبانوں اور علاقائی جماعتوں کی اہمیت گھٹانا چاہتے ہیں’۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ’ ہندی زبان پر وزیر داخلہ کا زور دینا بھارت کی یکجہتی اور تکثیریت کے خلاف ہے اور یہ بھارت کے اتحاد کو نقصان ہی پہنچائے گا’ انہوں نے مزید کہا کہ’ بی جے پی کے قائدین بار بار وہی غلطی کر رہے ہیں جو پہلے کر چکے ہیں، وہ بھارت کے تنوع وتکثیریت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے’۔ ہندی خطے سے تعلق رکھنے والے آر جے ڈی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا کے رکن منوج کمار جھا کی بات بھی قابل غور ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کو بھارت کی جدید تاریخ اور زبان کے نام پر ہونے والے تنازعات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس مشکل موقع پر وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بیان بے وقت کی راگنی اور اہم مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہندی ہمارے ملک کی سرکاری زبان (راج بھاشا) ہے قومی زبان (راشٹربھاشا) نہیں۔ ملک کی دوسری علاقائی زبانیں بھی اسی طرح اہمیت کی حامل ہیں جس طرح ہندی ہے۔ آئین کی تشکیل کے وقت بھی اس موضوع پر آئین ساز اسمبلی میں گرما گرم مباحث ہوئے تھے اور ہندوستان کی مخصوص لسانی، تہذیبی اور مذہبی صورت حال کے پیش نظر مختلف علاقائی زبانوں کو دستور کے شیڈول میں شامل کیا گیا اور انہیں بھی ملک کی باقاعدہ سرکاری زبانوں کی حیثیت عطا کی گئی البتہ مرکزی سطح پر سرکاری کام کاج کے لیے ایک زبان کی حیثیت سے ہندی کو تسلیم کیا گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ انگریزی کے استعمال کی بھی گنجائش رکھی گئی۔کسی ایک زبان کے تسلط کا خواب ملک میں مسائل کا ایک نیا “پنڈور اباکس”کھول دے گا۔ جو لوگ اس طرح ایک زبان، ایک مذہب ، ایک تہذیب کا راگ الاپتے رہتے ہیں وہ اس ملک کی مخصوص نوعیت کا یا تو مکمل ادراک نہیں رکھتے یا جانتے بوجھتے کسی ایک زبان اور ایک تہذیب کو تمام دوسری زبانوں اور تہذیبوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کی یہی خصوصیت تو اسے دنیا کے دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے کہ یہاں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، کئی ثقافتیں پائی جاتی ہیں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر عمل اور اس کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ ملک کی ان تمام بڑی زبانوں کو یہاں کے آئین میں تسلیم بھی کیا گیا ہے اور یہی ہمارے ملک کے اتحاد اور یکجہتی کی سب سے اہم بنیاد ہے۔ اس تنوع کے برخلاف ہندی زبان کا زبردستی نفاذ دراصل ایک طرح سے اس کی استعماریت قائم کرنا یا دیگر زبانوں پر اس کو مسلط کرنا ہے اور اس کا یہ تسلط یقیناً ہندوستان کے موجودہ اتحاد کے لیے نہایت ہی مہلک ثابت ہو گا، کیوں کہ حکومت کی جانب سے کسی ایک زبان کو فروغ دینے کی ایسی کوشش جو بھارتیوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر برتری دلائے اور اس زبان کے بولنے والوں کو سہولتوں اور مواقع تک زیادہ رسائی فراہم کرے وہ یہاں تنوع کی برقراری کے بجائے ملک کے شہریوں میں مزید تقسیم وانتشار کو ہوا دے گی۔ وزیر داخلہ اور اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے افراد کو یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یکسانیت اور یکجہتی دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ اتحاد ویکجہتی کا مطلب ہر طرح کی یکسانیت نہیں ہے، سب لوگوں کو یک رنگ بنا دینے کی کوشش اتحاد ویکجہتی نہیں کہلائے گی۔ اس ملک کی بقا اور ترقی دراصل اسی تنوع کے ساتھ اتحاد ویکجہتی میں پوشیدہ ہے جب کہ زبر دستی یکسانیت کو لاگو کرنے کی ہر کوشش ملک کی یکجہتی اور اس کی سالمیت کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022