اداریہ

بھارت مثالی معاشرہ کیسے بنے؟

بھارت کے ہر شہری کی یہ تمنا اور آرزو ہے کہ اس کا عزیز ملک زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرے۔ غربت، جہالت، بے روزگاری، بھکمری، عدم مساوات، کمزوروں پر ظلم اور مجبوروں کے استحصال کا ملک سے خاتمہ ہو اور تعلیم، خوشحالی، امن و سلامتی، عدل و انصاف اور سماجی مساوات کا بول بالا ہو اور پوری دنیا کے لیے ہمارا ملک مثالی بن جائے اور وشو گرو کے مقام پر فائز ہو۔
اتوار کے روز راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، دلی یونٹ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب کے موقع پر سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے خطاب کرتے ہوئے اسی آرزو کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس بھارت کے معاشرے کو بیدار اور متحد کرنے کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ بھارت ساری دنیا کے لیے ایک مثالی معاشرہ بن کر ابھرے۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اس ملک کو آزاد کروانے کے لیے سماج کے الگ الگ طبقات کی بے شمار شخصیتوں نے قربانیاں دی ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک سماج کی حیثیت سے ترقی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانیوں کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ ان کی سوچ انفرادی نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ ایک متحد سماج کے طور پر سوچتے ہیں اور ہمیں ان کی اس خصوصیت کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک سماج کی حیثیت سے معاشرے کی خدمت کے لیے آگے آئیں۔
یقیناً موہن بھاگوت کا یہ خطاب اس لحاظ سے تمام بھارتیوں کے دل کی آواز ہے کہ ملک کا ہر محب وطن شہری یہی چاہتا ہے۔ لیکن اس خطاب کے حوالے سے موہن بھاگوت جی کے سامنے کچھ بنیادی سوالات رکھنے کو جی چاہتا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ جب بھارت کے ایک متحدہ سماج کی بات کرتے ہیں تو کیا اس میں بھارت میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں یا صرف ایک مخصوص تہذیب کے حامل لوگ؟ کیوں کہ بھارت کا معاشرہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایک رنگی معاشرہ نہیں ہے جہاں کوئی ایک زبان بولی جاتی ہو، کسی ایک مذہب کے ماننے والے بستے ہوں اور تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے کسی ایک تہذیب کے حامل لوگ ہوں۔ یہ متنوع ثقافتی، لسانی اور مذہبی خصوصیات کا حامل ایک منفرد ملک ہے۔ دنیا بھر میں اس کی یہی پہچان اور یہی خصوصیت رہی ہے کہ اس قدر اختلاف رنگ و بو کے باوجود یہاں کے لوگ ہم آہنگی اور امن و محبت کے ساتھ صدیوں سے رہتے بستے آئے ہیں۔ اس خصوصیت کو ختم کر کے یہاں یک رنگی کو قائم کرنے کی ہر کوشش بلندی پر تو کیا الٹا اسے پستی کی طرف لے جائے گی اور اسے ایک مثالی معاشرے کے بجائے قابل افسوس معاشرہ بنادے گی۔ آر ایس ایس کے ذمہ داران زبانی طور پر ملک میں اتحاد اور اجتماعیت کی بات تو کرتے ہیں لیکن نظریاتی اور عملی طور پر ان کا رویہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھارت کو صرف ہندووں کا ملک سمجھتے ہیں اور اتحاد و یکجہتی سے مراد ان کے نزدیک بس انہی کے سماج کا اتحاد ہے۔ اپنے سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کے لیے نہ تو ان کے دل میں کوئی جگہ ہوتی ہے اور نہ وہ انہیں اپنے برابر کا درجہ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس تنگ دلی اور چھوٹے ظرف کے ساتھ بھارت کو مثالی معاشرہ بنانے کی خواہش ایک ایسا خواب ہے جس کا شرمندہ تعبیر ہونا کبھی ممکن نہیں ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ کیا خدو خال ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اس ملک کو ایک مثالی معاشرے کی حیثیت سے فروغ دینا چاہیے؟ کیا کوئی معاشرہ عدل و انصاف کے بغیر بھی مثالی بن سکتا ہے؟ ہمارا معاشرہ آخر مثالی معاشرہ کیسے بن سکتا ہے جہاں عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور وحشیانہ قتل کے مرتکب مجرموں کو نہ صرف حکومتی سطح پر معافی دے دی جاتی ہے بلکہ کچھ لوگ پھولوں کے ہار اور مٹھائیوں سے ان کا استقبال بھی کرتے ہیں اور حکومت میں شامل ذمہ دار افراد اس کے لیے بے شرمی کے ساتھ جواز بھی فراہم کرتے ہیں؟ ہمارا معاشرہ دنیا کے لیے ایک مثالی معاشرہ کیسے بن سکتا ہے جہاں ایک معصوم بچے کو محض اس لیے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے کہ اس نے اپنے استاد کے برتن سے اپنی پیاس بجھانے کی غلطی کر دی تھی؟ بھارت کو مثالی اور متحد معاشرہ بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ رویہ بھی قابل افسوس ہے کہ معاشرے میں اتحاد و ہم آہنگی کے خلاف کام کرنے والوں کو روکنے اور ان پر تنقید کے معاملے میں ان کی زبان مکمل سکوت اختیار کرلیتی ہے؟ آخر اس تضاد بیانی اور دہرے معیار کے ساتھ ہمارا معاشرہ دنیا کے لیے ایک مثالی معاشرہ کیسے بن سکتا ہے؟
یاد رکھیں کہ کوئی بھی معاشرہ اسی وقت ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے جب وہ ظلم و استحصال سے پاک ہو، جہاں سب کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی آسان ہو اور جو پاکیزہ اخلاق و اقدار کا حامل ہو۔ ان تین خصوصیات کے بغیر کوئی معاشرہ مثالی تو دور عام انسانی معاشرے کی حیثیت سے بھی باقی نہیں رہ سکتا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022