برادران اسلام! رمضان المبارک کی آخری ساعتیں گزر رہی ہیں اور جس وقت یہ تحریر آپ تک پہنچے گی آپ عیدالفطر کی خوشیاں منا رہے ہوں گے۔ رمضان کا یہ مہینہ دراصل نزول قرآن کا سالانہ جشن ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کا سامان کیا اور انہیں کامیابی کے راستے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ ایک مہینے کے روزے دراصل اہل ایمان کو کتاب ہدایت سے مکمل استفادہ کرنے کی استعداد بخشنے کی غرض سے فرض کیے گئے ہیں۔ قرآن نے تقویٰ کو اس کتاب سے استفادہ کی پہلی شرط قرار دیا ہے چنانچہ روزوں کا مقصد ہی تقویٰ کا حصول قرار دیا ہے۔ رمضان، قران اور روزوں کے آپسی تعلق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ روزے کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو تقویٰ کا حصول اور نفس کا تزکیہ ہے جبکہ دوسرا پہلو سماجی نوعیت کا ہے۔ روزوں سے روزہ دار کے اندر سماج میں بسنے والے غریبوں اور بھوکوں کی تکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ ان کی اس تکلیف کو دور کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ رمضان کے روزوں سے متعلق اکثر امور میں بھی ان غریبوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ روزوں کی قدرت نہ ہو تو فدیہ لازمی قرار دیا گیا ہے اور ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانا ہے۔ اسی طرح روزے کا کفارہ بھی غلام کو آزاد کرنا یا مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ اسلامی نظام میں انسانوں کے نفوس کے تزکیہ کے ساتھ ساتھ ان کی فلاح و بہبود کے یہ دونوں مقاصد بہت ہی واضح اور نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ زکوٰۃ کا نظام جہاں انسانوں کے دلوں کو مال کی محبت سے پاک کر کے ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے وہیں وہ انسانوں کے معاشی مسائل کے حل کا ایک زبردست پروگرام بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ قرآن کی بے شمار آیات میں اس پہلو کو نہایت ہی زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔ کہیں آخرت کے دن کو جھٹلانے والوں کا تذکرہ کر کے فرمایا گیا کہ ‘وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا’۔ ایک جگہ جہنمی لوگوں کی گفتگو کا حوالہ دیا گیا ہے ‘وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز تمہیں یہاں لے آئی تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے’۔
اسلام کے نظام عبادات کی طرح اس کی عید بھی اپنے اندر سماجی پہلو رکھتی ہے۔ عید نزول قرآن کے جشن اور ایک ماہ کے روزوں کی تکمیل پر خوشی منانے کا دن ہے لیکن اس خوشی کے دن کو بھی اللہ نے سماج کے ضرورت مند انسانوں کی فکر اور ان کی خبر گیری کے ساتھ مربوط کر دیا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہماری خوشیاں اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتیں جب تک کہ ہمارے اطراف و اکناف میں رہنے والے مجبور و بے کس افراد بھی ہمارے ساتھ خوشیوں میں شریک نہ ہو جائیں۔
کسی بھی سماج کے خوشی و مسرت کے اوج کمال تک پہنچنے کے لیے اس میں تین چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ تین چیزیں ہیں عدل و انصاف، پاکیزگی و صفائی اور انسانوں کے درمیان امن و محبت۔ جس سماج میں ناانصافی ہو، سماج کے طاقت ور طبقات کمزور طبقات پر ظلم و استحصال کا بازار گرم کرتے ہوں، ملک کے وسائل پر چند گنے چنے لوگ ہی قابض ہوں اور غریب و بے کس لوگ اپنی ضروریات زندگی کے لیے ترستے ہوں،، وہ سماج کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ کسی سماج کے خوشی و مسرت سے ہمکنار ہونے کے لیے دوسری ضرورت یہ ہے کہ وہ سماج پاکیزہ اقدار کا حامل ہو، فحاشی و بے حیائی سے پاک ہو۔ جو ملک شراب، جوا اور زنا جیسی بے شمار خباثتوں میں مبتلا ہو وہ کبھی بھی حقیقی خوشیون سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ وہ ہر دم نفسیانی عدم تسکینی اور بے چینی میں مبتلا رہے گا۔ دیکھنے میں وہ آسودہ حال دکھائی دے گا لیکن اندر سے پوری طرح کھوکھلا ہو گا۔ سماج کو خوشی و مسرت عطا کرنے والی تیسری خصوصیت سماج میں رہنے والوں کے درمیان امن اور محبت کا پایا جانا ہے۔ جس سماج میں لوگ امن و محبت سے رہتے ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ اور یگانگت کے ساتھ زندگی گزارتے ہوں وہیں حقیقی خوشیاں بھی اپنا بسیرا کرتی ہیں۔ جہاں امن نہ ہو وہاں نہ خوشی ہو گی اور نہ چین و سکون۔ چنانچہ ایک اچھے اور خوشحال سماج کے لیے اللہ تعالٰی نے جن امور کو لازم کیا ہے اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں بیان کر دیا ہے جس کی یاد دہانی ہمیں ہر جمعہ کے خطبے میں کرائی جاتی ہے:
إِنَّ ٱللَهَ يَأۡمُرُ بِٱلۡعَدۡلِ وَٱلۡإِحۡسَٰنِ وَإِيتَآيِٕ ذِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَيَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِ وَٱلۡبَغۡيِۚ
بے شک اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔
عید الفطر کا یہ دن ہمیں ہر سال اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے سماج کی انہی بنیادوں پر تعمیر کریں۔ ایسا سماج بنانے کی کوشش کریں جہاں عدل و انصاف قائم ہو، جہاں باکیزگی و شرافت کا دور دورہ ہو، جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ امن اور محبت کے ساتھ زندگی گزارنے والے ہوں۔
ملک عزیز کے حالیہ واقعات کے بعد بعض احباب نے مشورہ دیا ہے کہ ملک میں مسلمانوں پر جس طرح کا ظلم ہو رہا ہے اس کے خلاف بطور احتجاج ہم عید نہ منائیں، یا عید کے دن کالی پٹیاں پہن کر غم کا اظہار کریں۔ یہ تمام باتیں اگرچہ ہمارے غم و غصے کے اظہار کے لیے تجویز کی گئی ہیں لیکن عید بہر حال اسلام کا ایک اہم شعار ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں پر اس سے بھی بڑے غم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں، اس سے بھی زیادہ سنگین و مشکل حالات سے امت گزری ہے لیکن اس نے پورے عزم و حوصلے کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کیا ہے اور سرخرو ہو کر نکلی ہے۔ احتجاجاً عید نہ منانا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہم عید منائیں اور ضرور منائیں، لیکن جو لوگ ظلم کا شکار ہوئے ہیں ان سب لوگوں کا خیال رکھیں، ان کو دوبارہ اٹھا کر کھڑا کرنے میں ان کی بھر پور مدد کریں، ان کو حوصلہ دیں اور ان کو اپنی دعاوں میں یاد رکھیں۔ اس عزم و حوصلے کے ساتھ عید منائیں کہ ہم اس ملک میں اس مثالی سماج کی تشکیل کے لیے بھر پور جد و جہد کریں گے جہاں انسانوں کو ظلم و استحصال سے پاک، عدل و انصاف پر مبنی زندگی حاصل ہو گی، جہاں پاکیزگی و شرافت ہو گی جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ امن و محبت کے ساتھ زندگی گزارتے ہوں گے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 08 تا 14 مئی 2022