تلنگانہ سیاست کی دلی میں بازگشت

گورنر اور وزیراعلیٰ کے سی آر کے درمیان اختلافات

ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین

’’انتظامی امور میں مداخلت‘‘ اور ’’گورنر کے عہدہ کا احترام نہ کرنے‘‘ کے الزامات
ڈاکٹر ٹی سوندرا راجن نے 8 ستمبر 2019 کو تلنگانہ کے دوسرے گورنر کی حیثیت سے حلف لیا تھا۔ وہ تمل ناڈو میں بی جے پی نائب صدر اور جنرل سکریٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔ گورنر ریاست اور مرکز کے درمیان اہم کڑی کا کام کرتا ہے۔ مرکز اور ریاست میں اگر الگ الگ حکومتیں ہوں تو گورنر اور ریاستی انتظامیہ کے درمیان اختلافات پہلے بھی رہے ہیں لیکن مرکز میں بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد سے یہ اختلافات کچھ زیادہ ہی نظر آنے لگے ہیں۔ مہاراشٹر اور کیرالا کے بعد اب ریاست تلنگانہ میں گورنر اور ریاستی انتظامیہ کے درمیان بیان بازی سرخیوں میں ہے۔ بات اس قدر بڑھ چکی ہے کہ گورنر ٹی سوندرا راجن وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی ملاقاتیں کر چکی ہیں۔
وزیر اعلیٰ اور تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا کہنا ہے کہ گورنر ریاست کے انتظامی امور میں مداخلت کر رہی ہیں جبکہ گورنر سوندرا راجن کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس طرح گورنر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختلافات اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ گورنر تلنگانہ ٹی سوندرا راجن نے راج بھون کے باہر شکایات اور تجاویز کا باکس نصب کروایا ہے جہاں سے موصولہ عوامی نمائندگیوں کا وہ جائزہ لیتی ہیں اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بناتی ہیں۔
وزیر اعلیٰ تلنگانہ چندر شیکھر راؤ کی کابینہ نے کوشک ریڈی کو قانون ساز کونسل کے لیے نامزد کرنے کی منظورہ قرار داد گورنر کو روانہ کی تھی۔ اس وقت گورنر نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے گریز کیا تھا جس پر وزیر اعلیٰ ناراض ہو گئے اور انہوں نے اسے ریاستی انتظامات میں مداخلت قرار دیا۔
بجٹ اجلاس کے آغاز کے موقع پر گورنر کے خطبہ کی روایت تھی۔ لیکن اس مرتبہ بجٹ 2022 اجلاس میں گورنر کے خطبہ کے بغیر اسمبلی میں بجٹ بل پیش کیا گیا۔ یوں تلنگانہ حکومت نے اس مرتبہ گورنر کے خطبے سے بجٹ اجلاس شروع کرنے کی روایت ترک کر دی۔
وزیراعلیٰ نے گورنر کی کسی بھی تقریب میں شرکت نہیں کی حتیٰ کہ اُگادی تقاریب میں گورنر کے پرگتی بھون کے پروگرام میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ عموماً تلنگانہ کے اس بڑے تہوار اُگادی کے موقع پر راج بھون میں منعقدہ دعوت میں وزیر اعلیٰ شرکت کرتے رہے ہیں۔
گورنر سوندرا راجن نے وزیر اعظم کو ریاست کی سیاسی صورتحال اور کے سی آر حکومت کی جانب سے دستوری عہدہ کو نظر انداز کرنے کی تفصیلات سے واقف کروایا۔ گورنر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور چیف منسٹر یا ریاستی کابینہ گورنر کو رپورٹ پیش کرنے کی عملا ًپابند بھی ہوتی ہے۔ گورنر اس کا جائزہ لے کر اسے منظور کرتا ہے۔ اگر گورنر اور ریاست میں مختلف مسائل پر اختلافات ہوں تو پھر یہ مسئلہ مرکز تک چلا جاتا ہے۔ ایسا ہی گورنر تلنگانہ کے تعلق سے ہوا ہے۔
ان اختلافات کے درمیان سیاسی قائدین کے بیانات بھی سامنے آئے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر بنڈی سنجے نے الزام عائد کیا کہ ’’ٹی آر ایس حکومت نے اسمبلی سیشن کے آغاز میں گورنر کے خطاب کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے گورنر ٹی سوندرا راجن کی توہین کی ہے۔‘‘
جب کہ ٹی آر ایس کے قائد اور تلنگانہ کے وزیر برقی جگدیش ریڈی نے کہا کہ ٹی سوندرا راجن کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وزیر نے واضح کیا کہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وہ گورنر سے زیادہ بی جے پی لیڈر کی طرح رویہ اختیار کر رہی ہیں۔
سوندرا راجن نے کہا کہ گورنر کے عدم احترام کے معاملہ کو وہ عوام پر چھوڑ رہی ہیں۔ حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات بحال رکھنا میری عین خواہش ہے۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ میرے حدود کیا ہیں۔ آپ کے کہنے کے مطابق عمل نہ کرنے پر کیا گورنر کے عہدہ کی توہین کی جائے گی؟ ’’میں نے تلنگانہ میں اپنے اختیارات چلانے کی کوشش نہیں کی۔ میں ایک فرینڈلی شخصیت ہوں، کوئی متنازعہ شخصیت نہیں۔ میں نے حکومت کے کسی بھی اقدام کو نہیں روکا ہے۔ ‘‘ گورنر ٹی سوندرا راجن کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی سیاست نہیں کی، تلنگانہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ خاتون گورنر ہونے کے سبب میری توہین کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شخصی طور پر میری توہین پر اعتراض نہیں لیکن گورنر کے دستوری عہدہ اور دستور کا کم از کم احترام کیا جانا چاہیے۔
گورنر ٹی سوندرا راجن نے 6 اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور حکومت کی جانب سے انہیں نظر انداز کرنے کی شکایت کی۔ یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی جبکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نئی دہلی میں قیام پذیر تھے جو ان دنوں مرکز میں بی جے پی کے خلاف غیر کانگریسی اتحاد کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں۔ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر سوندرا راجن نے کہا کہ میڈیا حکومت سے سوال کرے کہ گورنر کے ساتھ توہین آمیز رویہ کیوں اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہر چیز سے واقف ہیں۔ انہیں خاص طور پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں قانون کے مطابق ہی اپنا کام انجام دوں گی۔ خیال رہے کہ حضورآباد ضمنی چناؤ میں پارٹی کے باغی لیڈر ای راجندر کی بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیابی کے بعد سے ہی راج بھون اور پرگتی بھون کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
اس دوران کانگریس رکن کونسل جیون ریڈی نے ریاست کی خاتون گورنر کے ساتھ تلنگانہ حکومت کے توہین آمیز رویہ کی مذمت کی ہے۔ جیون ریڈی نے کہا کہ حکومت کو کم از کم دستوری عہدہ کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔ خاتون ہونے کی حیثیت سے گورنر زیادہ احترام کی مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر کسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستوری عہدوں کا احترام کریں۔ گورنر نے اپنے دستوری فرائض انجام دیتے ہوئے حکومت کو بعض تجاویز پیش کی تھیں جس پر کے سی آر ناراض ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سمکا سارلماں جاترا میں شرکت کے لیے گورنر یادادری بھونگیر پہنچیں تو ان کا پروٹوکول کے مطابق استقبال نہیں کیا گیا۔ گورنر کے خطبہ کے بغیر پہلی مرتبہ اسمبلی کے بجٹ اجلاس کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اُگادی تقاریب میں چیف منسٹر اور کسی بھی وزیر کے علاوہ اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت نہیں کی۔ یہ پہلا موقع ہے جب اگادی تقاریب کا حکومت کی جانب سے بائیکاٹ کیا گیا۔ راج بھون کی تقاریب میں چیف منسٹر کی عدم شرکت دراصل دستوری عہدہ کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کو گورنر کے عہدہ کا احترام کرتے ہوئے راج بھون سے کشیدگی کو ختم کرنا چاہیے۔
تلنگانہ میں حزب اختلاف بی جے پی نے گورنر کے خطاب کے بغیر ریاستی اسمبلی کا بجٹ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کرنے پر ٹی آر ایس حکومت پر تنقید کی ہے جبکہ حکمراں جماعت نے اپنے اقدام کا دفاع کیا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر بنڈی سنجے نے الزام لگایا کہ ٹی آر ایس حکومت نے سیشن کے آغاز میں ان کے خطاب کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے گورنر ٹی سندرا راجن کی توہین کی ہے۔ بنڈی سنجے نے کہا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے آئینی عہدہ پر فائز خاتون کی توہین کی ہے۔ یہ ریاست کی تمام خواتین کی توہین کے مترادف ہے بنڈی سنجے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں، انہوں نے کے سی آر کے فیصلے کو غیر جمہوری قرار دیا ہے اور کہا کہ ’’میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ اس حکومت کو گورنر کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟
مہاراشٹرا، کیرالا اور مغربی بنگال میں بھی گورنر اور ریاستی انتظامیہ کے درمیان تلخیاں پائی جاتی ہیں۔ اس طرح کے اختلافات ریاست اور ملک کی ترقی کے لیے رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اور ریاستی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ گورنر کے آئینی عہدے کالحاظ رکھیں۔ آپسی بات چیت کے ذریعے اختلافات کو دور کریں۔ گورنر بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ اب وہ کسی جماعت کے نمائندے نہیں بلکہ ریاست کے سربراہ ہیں۔ مرکزی حکومت بھی گورنروں کا انتخاب کرتے وقت سرکاری کمیشن کی سفارشات کو ملحوظ رکھے جس میں غیر جانب دار شخص کو گورنر مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022