ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں

احمد علی اختر

مولانا جلال الدین عمری ( 1935—- 2022 ) اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ ان منتخب روزگار ہستیوں میں ایک تھے جو روز روز نہیں پیدا ہوتی ہیں بلکہ فلک کی برسوں گردش کے بعد ظہور میں آتی ہیں۔ مولانا کم و بیش 87 سال اس فانی دنیا میں ہمارے درمیان رہے، پھر 26 اگست 2022 کو ہمیں غمزدہ چھوڑ کر دار لافانی اور عالم جاودانی کی طرف روانہ ہو گئے۔ خاموشی سے آئے تھے خاموشی سے چلے گئے، مگر کام ایسا کر گئے کہ ایک زمانہ تک انہیں یاد رکھا جائے گا۔ مولانا عمری کوئی ہنگامہ خیز، انقلاب انگیز، جاہ و حشم اور ہٹو بڑھو والی شخصیت نہیں تھے۔ نہایت سادہ مگر پرکار، دلکش اور دلنواز، علمی وجاہت اور اخلاقی شرافت کی شان، علم و تحقیق کی بلندی پر مسند نشین مگر عجز و انکسار کا پیکر، نہایت مصروف مگر مخلص ملنے والوں اور علم کے قدر دانوں کے لیے ہمیشہ فارغ، متین و سنجیدہ، ذہین و فطین اور باتوں کی تہ تک پہنچنے والے، حلیم و بردبار، نرم مزاج و نرم گفتار۔ علامہ اقبال نے مومن کی جو شان بیان کی ہے ہو بہو وہی:
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، رزم ہو کہ بزم ہو پاک دل و پاکباز۔ میدان عمل اور بزم دونوں میں مولانا کا حسن عمل اور حسن کلام دل کو لبھانے والا تھا۔ کم و بیش پچاس کتابوں کے مصنف۔ کتابیں بھی ایسی مستند جو علم و تحقیق کی بلندیوں میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ایسی کتابیں جن میں دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی روح سمائی ہوئی ہے۔ ایسی کتابیں جو مقبول خاص و عام ہیں۔ کئی کتابیں ایسی ہیں جن کا انگریزی، ترکی، ہندی اور ملک کی تمام علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ مولانا نے صرف کتابیں ہی نہیں لکھیں بلکہ مستند کتابیں لکھنے والوں کی ایک کھیپ بھی تیار کی۔ مولانا ایک جلیل القدر مصنف ہی نہیں ایک عمدہ مقرر بھی تھے اور ایک عمدہ مدرس قرآن بھی۔ ان کی گفتگو میں علم کی گہرائی کے ساتھ ایمان کی حلاوت ہوتی تھی، جمال بھی ہوتا تھا اور جلال بھی۔
کتابوں کی تصنیف کے ساتھ مولانا ادارہ تحقیق و تصنیف کے سہ ماہی مجلہ کے بانی مدیر تھے اور آغاز سے اپنی حیات تک مسلسل 40 سال تک مدیر رہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ زندگی کے بھی (1986 تا 1990) پانچ سال مدیر رہے۔
عام طور پر جو علم و تحقیق کا کام کرتے ہیں اور جو کتابیں تصنیف کرتے ہیں وہ گوشوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور نہیں چاہتے ہیں کہ انہیں disturb کیا جائے اور ان کی یکسوئی کو درہم برہم کیا جائے، اس لیے وہ دوروں سے اعراض برتتے ہیں۔ مگر مولانا تحریک اسلامی کے خادم تھے، ان کے اندر دعوتی و تحریکی جذبہ تھا، دورے کرنا اور اپنے رفقاء سے ملنا ملانا انہیں پسند تھا۔ وہ دورے کرتے، نہایت خلوص و محبت سے اپنے رفقاء سے ملتے اور ایسے افراد کی تلاش میں رہتے، خصوصاً ایسے ذہین نوجوانوں کی تلاش میں جو ان کے ساتھ وقت دے سکیں اور تحقیق و تصنیف کی تربیت حاصل کر سکیں۔ یہ بڑا کام تھا جو وہ کر رہے تھے اور بفضلہ تعالیٰ اس میں انہیں بڑی حد تک کامیابی بھی ملی۔
مولانا تصنیف کی دنیا کے آدمی تھے مگر دیکھیے کہ تنظیمی و ملی ذمہ داریاں بھی کتنی تھیں اور کس حسن و خوبی سے انجام دیں۔ مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کی رکنیت کے علاوہ چار میقات ( 1990 تا 2007 ) یعنی سولہ سال جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر رہے اور تین میقات ( 2007 تا 20019 ) یعنی بارہ سال امیر جماعت اسلامی ہند رہے اور اس کے بعد سے تا دم مرگ جماعت اسلامی ہند کی آل انڈیا شریعہ کونسل کے صدر رہے۔ اس کے علاوہ مولانا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، ملک کی معروف دینی درس گاہ جامعة الفلاح بلریا گنج کے شیخ الجامعہ، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ اور جامعۃ الصفہ ورنگل کے سرپرست تھے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے ذی وقار ارکان مولانا جلال الدین عمری کی بصیرت، سوجھ بوجھ، علمیت اور لیاقت کے قائل تھے اور دل سے ان کی قدر کرتے تھے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اتنی مصروفیات کے باوجود مولانا نے تحریک اسلامی کے لیے اتنی گراں قدر کتابیں اتنی بڑی تعداد میں کیسے تصنیف کردیں جبکہ اندرون ملک اور بیرون ملک کانفرنسوں اور اجتماعات میں شرکت کے لیے دورے بھی کرتے رہے۔ اتنی بڑی تعداد میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ تقسیم ملک کے بعد شاید مولانا جلال الدین عمری سے زیادہ کسی نے جماعت اسلامی ہند کو تحریکی لٹریچر فراہم نہیں کیا ہے۔
جو لوگ علم والے ہوتے ہیں ان کے اندر عموماً ایک بیماری پیدا ہو جاتی ہے جو بڑی خطرناک ہوتی ہے، اور وہ ہے کبر و غرور۔ یہ بیماری جس کے اندر پیدا ہوتی ہے اس کی آخرت برباد ہو جاتی ہے۔ اچھا مقرر و واعظ، اچھا مصنف اور بڑا عالم دین، دولت والا اور طاقت والا عموماً اس بیماری کی زد میں رہتا ہے۔ دو چار مقبول عام کتابیں جو لکھ لیتا ہے اس کے قدم زمین پر جلدی ٹکتے نہیں ہیں اور جس نے دس بیس مقبول عام کتابیں لکھ لیں وہ فضاء میں اڑنے لگتا ہے۔ مولانا کا مقام علم کی بلندیوں پر ضرور تھا مگر مولانا ہمیشہ زمین پر رہے، ہمارے ساتھ رہے، ہمارے درمیان رہے۔ خوش دلی، خوش مزاجی، خوش کلامی کے ساتھ رہے، عجز و انکسار کے ساتھ رہے۔ جس کے اندر کبر پیدا ہوتا ہے اس کی چال میں بھی فرق آجاتا ہے اور گفتار میں بھی، مگر مولانا کی میانہ روی اور اعتدال پسندی میں کوئی فرق نہ تحریک کے بڑوں نے محسوس کیا نہ ہم جیسے چھوٹوں نے۔ وضع دار طبیعت اور انکسار مزاج ہی مولانا کی سب سے بڑی خصوصیت تھی جو عام طور پر علماء بالخصوص بڑے علماء میں مفقود ہوتی ہے۔ بلا شبہ مولانا ایک شجر سایہ دار تھے۔ اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، انہیں غریق رحمت کرے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین۔ مولانا اپنا سرمایہ علمی چھوڑ کر ہم سے بہت دور جا چکے، ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو چکے، اب انہیں پانا ناممکن ہے۔بقول شاد عظیم آبادی :
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسوں وہ خواب ہیں ہم
فون :983506191
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022