دیوار ناندیڑ: اقلیتوںکے ساتھ نظام حیدرآباد کےانصاف کی انوکھی یادگار

ڈاکٹر ضیا الحسن، ناندیڑ

میر عثمان علی خان بہادرکا عادلانہ کردارتاریخ دکن کا ایک سنہرا باب۔سیاسی مفاد کی خاطر انصاف کا قتل کرنے والے حکمرانوں کے لیے ایک سبق
17ستمبر :یوم انضمام حیدرآباد کے موقع پر خاص تحریر
ہندوستان کی تاریخ یہاں کے مسلم حکمرانوں کے انصاف، وسیع النظری، رواداری اور جودو کرم کے سچے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ تقریباً ان سبھی حکمرانوں نے اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ برابری کا برتاو کیا، انہیں اعلیٰ عہدے دیے۔ ان کے مذہبی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ جب کہ آج کا برسر اقتدار طبقہ اپنے عوام، خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتا۔ ان کے جان ومال، عزت و آبرو، عبادت گاہیں حتی کہ ان کے تعلیمی ادارے تک ان لوگوں کے نشانہ پر ہیں۔ اقلیتوں کی مذہبی اور لسانی شناخت ختم کردینے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔
ریاست حیدرآباد کے آخری نظام، میر عثمان علی خان بہادر (آصف جاہ سابع) دور حکومت 1911تا 1948عوام کے سچے ہمدرد اور ایک انصاف پسند بادشاہ تھے۔ انہوں نے ہندو منادر کو کئی قیمتی اراضیات بطور عطیہ دیں۔ منادر کی حفاظت کی اور ان کی مرمت بھی کروائی۔ پجاریوں کو انعامات سے نوازا۔ بعض ہندو آثار کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے۔ مذہبی کتاب ’مہا بھارت‘ کی اشاعت کے لیے سرکاری خزانہ سے رقم جاری کی۔ اقوام پست کردہ کی بہبود بھی ان کے پیش نظر تھی۔ ایک انتہائی حساس مسئلہ میں انہوں نے اپنے ہم مذہب مسلمانوں کے موقف کی تائید نہ کرتے ہوئے ریاست کی ایک بہت چھوٹی اقلیت یعنی سکھوں کے ساتھ انصاف کیا تھا جسے سکھ قوم آج بھی یاد کرتی ہے لیکن افسوس کہ دوسرے کئی مسلم بادشاہوں کی طرح انصاف پسند نظام حیدرآباد کی بھی کردار کشی کی جاتی ہے۔ ان کے دور حکومت کے خلاف تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ جھوٹے پروپگنڈے کئے جاتے ہیں تاکہ فرقہ اوارنہ ہم آہنگی پیدا ہونے کے بجائے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی رہے۔ 17ستمبر 1948چوں کہ سقوط حیدرآباد کا دن ہے اس لیے اس ماہ میں اس طرح کی منفی سرگرمیاں اپنے عروج پر رہتی ہیں۔
سکھوں کے آخری گرو، گرو گوبند سنگھ جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام ریاست حیدرآباد کے ایک شہر ناندیڑ میں گزارے تھے۔ انہوں نے اس مقام پر سکھوں کی مقدس کتاب ’’گرو گرنتھ صاحب‘‘ کو گیارہویں گرو کا درجہ دیا تھا۔ جس مقام پر گرو گوبند سنگھ کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں وہاں ایک بڑا گرودوارہ ہے۔ اسے گردوارہ سچ کھنڈ شری حضور صاحب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسے سکھوں کے چوتھے تخت کا مقام حاصل ہے۔ اس لیے ناندیڑ سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اسے احتراماً ابچل (افضل) نگر کہتے ہیں۔ 2008میں ناندیڑ ریلوے اسٹیشن کو ’حضور صاحب ناندیڑ‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔
یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ گرو گوبند سنگھ نے اپنی آخری رسومات کے لیے ناندیڑ کی جس جگہ کا انتخاب کیا تھا وہ زمین ایک مقامی مسلم انعام دار بھکو میاں کی ملکیت تھی۔ اس لیے آخری گرو کی ہدایت کے مطابق زمین کے معاوضہ کے طور پر اس مسلم انعام دار خاندان کو پشت بہ پشت سے چار خاص موقعوں (رمضان، بقر عید، محرم، شعبان) پر گرودوارے سے پانچ۔ پانچ کلو گیہوں، باسمتی چاول، چنے کی دال، شکر اور ایک کلو دیسی گھی، 25روپے نقد دیگر اشیا اور ایندھن کے لیے دیے جاتے ہیں۔ گردوارے میں حاضر ہونے پر انہیں ’’سروپا‘‘ (اعزازی جامہ) اڑھایا جاتا ہے۔ یہ اعزازات انہیں ان کی نسلوں تک ملتے رہیں گے۔ اس بڑے گرودوارے کے علاوہ شہر میں کئی چھوٹے گرودوارے بھی ہیں جن سے گرو گوبند سنگھ کی شخصیت سے جڑے بعض واقعات منسوب ہیں۔ اس لیے یہ مقامات بھی سکھوں کے لیے مقدس ہیں۔
گرو گوبند سنگھ 1708میں اورنگ زیب عالمگیر کے بڑے لڑکے محمد معظم (شہنشاہ بہادر شاہ اول) کے ہمراہ 300سکھوں کے ساتھ ناندیڑ آئے تھے۔ یہاں ان کا قیام تقریباً نو مہینوں تک رہا۔ شہر سے تین ساڑھے تین میل دور ایک ٹیکری/ٹیلا ہےجسے مال ٹیکری کہا جاتا ہے۔ سکھوں کا عقیدہ ہے کہ گرو گوبند سنگھ نے اس جگہ سے کھود کر ایک خزانہ نکالا تھا اور اسے بہادر شاہ کے سپاہیوں میں تقسیم کیا تھا۔ بعد میں سکھوں نے اس مقام پر ایک چبوترہ تعمیر کیا ہے جسے وہ ’’منجی صاحب‘‘ کہتے ہیں۔ عقیدت مند سکھ اس کے درشن کے لیے آتے رہتے ہیں۔ اس چبوترے سے چند قدم کے فاصلے پر ایک مسجد تھی۔ جسے پولیس ایکشن 1948کے دوران شہید کردیا گیا (مسجد کا ملبہ آج بھی وہاں پڑا ہے) مسجد سے تھوڑے فاصلے پر حضرت شاہ حسینؒ (لکڑ شاہ بابا) نامی ایک صوفی بزرگ کا مزار ہے۔ دسمبر 1926میں چند شرپسند عناصر نےجن کا تعلق مسلم فرقے سے تھا، سکھوں کے اس مقدس چبوترے کو منہدم کردیا اور وہاں حیات خاں ( جسے ایک صوفی شخصیت بتایا جارہا تھا) کی نعش لاکر دفن کردی۔ اس قبر کے آس پاس چند نقلی قبریں بنادی گئیں۔ ان اشرار نے وہاں پر موجود ایک سکھ بیر سنگھ سے کہا کہ یہاں کوئی چبوترہ نہیں ہے اور یہ زمین قبرستان کا حصہ ہے۔ انہوں نے اسے وارننگ دی کہ وہ دوبارہ یہاں نہ آئے۔ بیر سنگھ نے اس کی اطلاع گردوارہ انتظامیہ کو دی۔ اس غیر ذمہ دارانہ اور مذموم حرکت کی وجہ سے شہر کا پرامن اور بھائی چارگی کا ماحول ختم ہوگیا تھا۔ افواہیں گشت کررہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر ریذیڈنٹ، نظام آباد حیدرآباد اور وائسرائے تک پہنچ گئی۔ ملک کے سارے سکھوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس بدبختانہ واقعہ سے نظام حیدرآباد بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے کیوں کہ دو سو سال سے چلی آرہی ان کی خاندانی حکومت میں پہلی بار اس طرح کا کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آیا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی حکومت کی سیکولر شناخت پر کوئی آنچ آئے۔ اس لیے انہوں نے سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کی بھرپور کوشش کی مگر دونوں فریق اپنی اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ چبوترہ منہدم کیے جانے کے ردعمل کے طور پر سکھوں نے ٹیکری پر واقع مسجد پر اپنی ملکیت ہونے کا دعویٰ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسجد نہیں بلکہ دھرم شالہ۔ مسافر خانہ ہے۔ چند ہندووں نے اس کی تائید کی تھی۔
اس حساس مسئلے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے 27اپریل 1927کو نظام حیدرآباد کے حکم سے ایک سہ رکنی اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی جو سعادت جنگ بہادر (ڈائرکٹر جنرل محکمہ ریونیو) حیدرآباد ہائی کورٹ کے نامزد جج گری راو اور کرافورڈ (ڈائرکٹر جنرل پولیس و محابس) پر مشتمل تھی۔ اس کمیٹی نے دونوں فریقوں اور سرکاری گواہوں کے بیانات قلمبند کیے ۔ ان میں اہم گواہ سہراب نواز جنگ (مذہباً پارسی) جو کئی سال تک ناندیڑ کے اول تعلقدار (ڈسٹرکٹ کلکٹر) رہے تھے۔ اے سی ہنکن (انگریز) ریٹائرڈ ڈائرکٹر جنرل پولیس و محابس (مدت ملازمت 11-2-1896تا 2-11-1919)موصوف بہ اعتبار عہدہ ناندیڑ گردو وارہ کمیٹی کے صدر بھی رہ چکے تھے ان کی شہادت بہ مقام ہل اسٹیشن کونور، نیلگری ہلز، مدراس کے مجسٹریٹ کی جانب سے قلمبند کی گئی۔
20فروری 1928کو اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی۔ سعادت جنگ بہادر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سکھ فریق چونکہ اس جگہ کی ملکیت کے بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کرسکا اس لیے ان کی درخواست مسترد کردینی چاہیے۔ البتہ وہ چاہیں تو عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں جبکہ جسٹس گری راو کی رپورٹ سکھوں کے حق میں تھی۔ برسر خدمت ڈائرکٹر جنرل پولیس و محابس جے ای آرم اسٹرانگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ’’مسلم حکمرانوں نے سکھوں کے ساتھ فراخدلی کا سلوک کیا یہ سلسلہ شہنشاہ بہادر شاہ (اول) کے دور سے جاری ہے۔ جن کے گرو گوبند کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ ایسے حالات میں سکھوں نے کئی اراضیات حاصل کیں لیکن وہ اس تعلق سے کوئی دستاویزی ثبوت سند یا پٹے کی شکل میں نہیں رکھتے۔ تاہم دیرینہ مراسم کی وجہ سے ان مقامات پر اپنا مالکانہ حق رکھتے ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ گزشتہ دو سوں برسوں سے یہ مقامات ان کی ملکیت ہیں‘‘۔ انہوں نے آگے لکھا کہ ’’بحیثیت صدر گردوارہ کمیٹی میں اس کیس کے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں تب بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ان کی ملکیت نہیں ہے۔ حق ملکیت کا حوالہ اس دستگیری سے ملتا ہے جو مسلم حکمرانوں نے سکھوں کے ساتھ کی تھی‘‘
سہ رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی جب کسی متفقہ فیصلہ پر پہنچ نہیں پائی تو نظام حیدرآباد نے ایک عادل بادشاہ کی طرح جو فرمان جاری کیا وہ آج کے نام نہاد سیکولر حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اپنے اس فرمان میں ریاست کے فرمانروا میر عثمان علی خاں بہادر نے لکھا کہ وہ اس مقدمے کے تصفیے کے لیے کسی یوروپین جج کی خدمات برٹش انڈیا کے کسی علاقے بتوسط گورنمنٹ آف انڈیا مستعار لیں گے۔جو کچھ فیصلہ جج کرے گا اس کا مرافعہ کوئی فریق نہیں کرسکے گا۔ فرمان میں آگے ہے کہ ’’میری گورنمنٹ پر لازم ہوگا کہ بغیر دست اندازی فیصلہ کی تعمیل کرائے اور تعمیل فیصلہ میں کسی فریق کی طرف سے شورش برپا ہوتو میری گورنمنٹ کا فرض ہوگا کہ اسے بزور قوت دفع کرے تاکہ نقض امن کی صورت پیش نہ آئے۔ یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اپنے زیر سایہ جس قدر مذاہب کے لوگ بودو باش اختیارکرتے ہیں ان کے معابد اور جان و مال کی حفاظت کرے۔ چنانچہ یہی وطیرہ میرے بزرگ سلف کا تھا۔ چونکہ اس میں اسی کا خوشہ چیں ہوں لہذا میرا بھی طریقہ کار وہی ہے جو ان کا تھا‘‘۔ عوام میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ اس لیے یہ فرمان معتبر اردو، انگریزی اخبارات میں شائع کروایا گیا (مجلہ یادگار سلور جوبلی آصف سابق صفحہ 110تا112)
چنانچہ مال ٹیکری قضیہ حل کرنے کے لیے کلکتہ ہائی کورٹ میں برسر خدمت ایک سینئر ترین قابل جج سر اے ایچ کیومنگ کی خدمات ایک نفری کمیشن کے طور پر حاصل کی گئیں۔ مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی جو ان دنوں سیشن جج /رجسٹرار ہائی کورٹ تھے، کمیشن کے سکریٹری نامزد کیے گئے۔ سکھوں کی پیروی کے لیے پنجاب سے کوئی وکیل آئے تھے۔ جب کہ مسٹر اپل وکیل سرکار تھے۔ کمیشن پر آنے والے تمام اخراجات حکومت حیدرآباد نے برداشت کیے۔
سرکیومنگ نے حیدرآباد آکر دو تین دنوں تک اس مقدمے کی فائلیں پڑھیں پھر وہ سکریٹری اور فریقین کے وکلا کے ساتھ متنازعہ مقام کا معائنہ کرنے ناندیڑ آئے۔
کمیشن کے سکریٹری مرزا فرحت اللہ بیگ نے دونوں فریقوں کے سامنے تجویز رکھی کہ قبروں کو کھود کر دیکھا جائے۔ اگران میں پرانی لاشیں نکلیں تو یہ زمین قبرستان ہے ورنہ سکھوں کا چبوترہ۔ سکھ تو اس تجویز کو مان گئے لیکن مسلمانوں نے اسے قبروں کی توہین قرار دیا اور کہا کہ کسی نے قبر کو ہاتھ بھی لگایا تو خون خرابہ ہوجائے گا۔ (بحوالہ’ میری داستان‘ مرزا فرحت اللہ بیگ صفحہ 235)
چنانچہ مایوس ہوکر کمیشن نے مسجد اور چبوترہ دونوں معاملوں کی تحقیقات بیک وقت شروع کردیں۔ ساری کارروائی شہر حیدرآباد میں چلی۔ سرکاری گواہوں میں سابق کلکٹر ناندیڑ نواب منظور جنگ کا بیان بھی قلمبند کیا گیا۔ سکھوں کے بعض گواہ پنجاب سے آئے۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی چبوترے کے درشن کیے تھے۔ سکھوں نے بعض تاریخی کتابوں سے اقتباسات حوالے کے طور پر پیش کیے۔ مسلمانوں کے بھی کمیشن کے روبرو اپنے گواہوں کو پیش کیا۔ کئی مہینوں تک کمیشن بڑی محنت سے اپنا کام کرتا رہا۔ جسٹس کیومنگ نے اس مقدمے کے تمام پہلووں پر کافی غور وخوض کیا اور ہر ایک نکتہ کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ناندیڑ شہر سے مال ٹیکری کی سمت آتے ہوئے ایک ریلوے کراسنگ پار کرنا پڑتا تھا۔ (آج یہاں لوکل ریلوے اسٹیشن مال ٹیکری ہے اور ایک پل بھی بنادیا گیا ہے) جسٹس کیومنگ نے وہاں جاکر اس راستے کو بچشم خود دیکھا۔ ڈیوٹی پر موجود ریلوے گیٹ میں دیوی داس سے کچھ سوالات پوچھے۔ اسے کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا۔ دیوی اس نے اپنے بیان میں کہا کہ جس رات یہ واقعہ ہوا تھا تب رات تقریباً گیارہ بجے کچھ لوگ ایک مسلم حیثیت لے کر مال ٹیکری کی طرف گئے تھے اور رات تین بجے کے قریب ایک بیل گاڑی میں اینٹ، پتھر کا ملبہ لاد کر وہ اسی راستہ سے ناندیڑ لوٹے۔ گاڑی بان گنگا رام سے بھی اس کی تصدیق ہوگئی۔ سرکیومنگ نے تمام ثبوت اور شواہد کی روشنی میں فیصلہ دیا کہ چبوترہ سکھوں کی ملکیت ہے۔ اس پر مسلمانوں کا حق نہیں۔ اس لیے اندرون ایک ماہ حیات خاں کی نعش منتقل کرکے یہ جگہ سکھوں کے حوالے کردی جائے۔ اس دوران نظام آباد حیدرآباد علما حضرات سے رائے لے چکے تھے کہ کسی مسلم شخص کی نعش کو بلا اجازت کسی اور کی زمین میں دفنائے جانے کی صورت میں اس نعش کو ازروئے شریعت قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔
چبوترے پر بنائی گئی دوسری قبریں جب کھودی گئیں تو پتہ چلا کہ بعض تعویذ بنے ہوئے ہیں بعض میں کچھ ہڈیاں تھیں مگر وہ اس طرح رکھی ہوئی تھیں کہ کسی کے سینے پر کھوپڑی ہے تو کسی کی ٹانگ کی ہڈیاں کھوپڑی کے اوپر رکھی ہوئی تھیں (بحوالہ میری داستان، مرزا فرحت اللہ بیگ صفحہ 239)
دوسرا مسئلہ مال ٹیکری پر واقع مسجد کا تھا جسے سکھ اپنی ملکیت بتارہے تھے۔ اس عمارت کا بھی جسٹس کیومنگ نے باریک بینی سے معائنہ کیا تھا۔ مسجد کا رخ قبلے کی طرف تھا، جانب مغرب تین محراب تھے۔ بیچ کا محراب جہاں امام کھڑا رہتا ہے اس کے بیرونی حصے کو حیدرآبادی اصطلاح میں شملہ یا شمعہ کہتے ہیں۔ کسی عمارت کے مسجد ہونے کا یہ ایک پختہ ثبوت ہوتا ہے۔ سرکیومنگ نے ناندیڑ اور حیدرآباد کی کئی مساجد کے طرز تعمیر کا موازنہ اس مسجد سے کیا۔ محکمہ آثار قدیمہ سے مساجد کے سینکڑوں نقشے منگوا کر دیکھے۔ حتی کہ مکہ مسجد حیدرآباد کا بنیادی نقشے(Plan) منگوا کر دیکھا گیا۔ مسلمانوں نے مسجد کی مرمت کے لیے حکومت سے ملنے والی مالی اور امداد وغیرہ کے علاوہ دوسرے کئی وثائق اور دستاویزی ثبوت کمیشن کے سامنے پیش کیے۔ بالآخر تمام ثبوتوں اور شہادتوں سے مطمئن ہونے کے بعد جسٹس سر اے ایچ کیومنگ نے مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں صادر کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مسجد کو کبھی کبھار کسی دوسری غرض کے لیے استعمال کرنے (وہاں کھانا تیار کرنا یا بارش سے بچنے کے لیے پناہ لینا)سے اس کی حیثیت بدل نہیں جاتی۔ یہ عمارت دھرم شالہ یا مسافر خانہ نہیں بلکہ مسجد ہے اور ہمیشہ مسجد ہی رہے گی۔ اسے مسلمانوں کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔
سرکیومنگ نے 7دسمبر 1929کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ ہز اگزالٹیڈ ہائی نیس نظام حیدرآباد کی خدمت میں پیش کی اور ان سے درخواست کی کہ اسے ان کے ریاست حیدرآباد سے رخصت ہونے کے بعد ہی عام کریں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
9جنوری 1930کو سکھوں نے مال ٹیکری کا گردوارہ اپنی تحویل میں لیا۔ اس طرح نظام ہفتم میر عثمان علی خاں بہادر کی انصاف پسندی، مذہبی رواداری اور دور اندیشی نے ایک انتہائی حساس مسئلہ کو بغیر کسی خون خرابے کے پرامن طریقے سے حل کردیا۔ مستقبل میں دونوں فرقوں کے درمیان کوئی تنازعہ جنم نہ لے اس خیال سے نظام حیدرآباد نے گردوارہ : مال ٹیکری کے عقبی حصہ اور مسجد کے درمیان 35فٹ بلند اور 79فٹ لمبی دیوار تعمیرکروائی جو آج بھی عہد عثمانی کے انصاف کی یاد دلاتی ہے۔ حیدرآباد کے ایک بزرگ سکھ اسکالر نانک سنگھ نشتر اپنی کتابSikh Muslim Relations میں رقم طراز ہیں ’’مسجد اور گرودوارے کو بانٹنے والے حصہ پر دیوار ناندیڑ، کھڑی ہے۔ جسے کارسیوک کمپاونڈ وال کے طور پر استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت گھٹتی جارہی ہے اور اس متنازعہ مقام کو تقسیم کرنے نیز فیصلے کی نوعیت کا خوبصورت اضافہ بھی فراموش ہوتا جارہا ہے‘‘۔ انہوں نے ناندیڑ کے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ مقامی سیاسی قیادت اور حکومت مہاراشٹرا کی توجہ اس تاریخی آثار (دیوار ناندیڑ) کے تحفظ کی طرف مبذول کرائیں۔ انہوں نے آگے لکھا کہ ’’قومی سلامتی کے مفاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے وقت کی یہ اولین ضرورت ہے کہ اس مقام کو ایک تاریخی آثار قدیمہ کے طور پر محفوظ کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ علاوہ ازیں محکمہ سیاحت کو چاہیے کہ ناندیڑ آنے والے سیاحوں کو اس بات سے واقف کرایاجائے کہ یہ تاریخی مقام سیاحت کے لیے موزوں ہے‘‘۔ بزرگ مصنف کا مشورہ صائب ہے۔ اس کے لیے سبھی فرقوں کے سیکولر ذہن رکھنے والے سنجیدہ افراد کو آگے آنا ہوگا۔ کیوں کہ اس یادگار دیوار کے تحفظ اور اس کی تشہیر سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو یقیناً فروغ مل سکتا ہے۔ ہمارے انٹلکچولس تلنگانہ حکومت پر بھی دباو ڈالیں کہ ریاست تلنگانہ کی زیر ترتیب تاریخ میں نظام کے دور حکومت اور ان کے کارناموں کو مثبت انداز میں پیش کیا جائے تاکہ سادہ لوح عوام کےذہنوں میں نظام حیدرآباد کے دور حکومت کے تعلق سے پنپنے والی غلط فہمیاں دور ہوں۔
حوالہ جات
(1) یادگار سلور جوبلی آصف سابق (مجلہ) مرتب محمد فاضل 1354
(2)میری داستان۔ مزا فرحت اللہ بیگ 1977
(3)پولیس ایکشن: ایم اے عزیز انجینئر 2006
(4) تاریخ ناندیڑ دکن۔ مرزا احمد بیگ چغتائی 1961
(5) مثنوی افشائے راز امیر رفیع شاہ 1349
(6) ریاست حیدرآباد کے آخری حکمراں کی وسیع النظر
(7) Sikh Muslim Relations-Nanak Singh Nishter 2015
***

 

***

 ’’میری گورنمنٹ پر لازم ہوگا کہ بغیر دست اندازی فیصلہ کی تعمیل کرائے اور تعمیل فیصلہ میں کسی فریق کی طرف سے شورش برپا ہوتو میری گورنمنٹ کا فرض ہوگا کہ اسے بزور قوت دفع کرے تاکہ نقض امن کی صورت پیش نہ آئے۔ یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اپنے زیر سایہ جس قدر مذاہب کے لوگ بودو باش اختیارکرتے ہیں ان کے معابد اور جان و مال کی حفاظت کرے۔ چنانچہ یہی وطیرہ میرے بزرگ سلف کا تھا۔ چونکہ اس میں اسی کا خوشہ چیں ہوں لہذا میرا بھی طریقہ کار وہی ہے جو ان کا تھا‘‘۔
(مجلہ یادگار سلور جوبلی آصف سابق صفحہ 110تا112)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022