کورونا وبا کے بعد خودکشیوں میں اضافہ۔ تدارک ضروری
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
کورونا قہر کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتیں صرف کورونا وائرس سے نہیں ہوئیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو NCRB)2021)کی رپورٹ کے مطابق 2020 کے مقابلے 2021 میں شرح خود کشی 7.2 فیصد اضافے کے ساتھ 1.53 لاکھ سے بڑھ کر 1.64 لاکھ ہو گئی۔ 2019 میں یہ تعداد 1.39 لاکھ تھی۔ دی لانسیٹ میگزین کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق خود کشی کے واقعات دنیا میں سب سے زیادہ بھارت میں ہوئے۔ یہ ہندستانی پولیس کی جانب سے شائع کردہ این آر سی بی کی رپورٹ ہے کیونکہ پولیس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ناقص اور خامیوں سے پر ہوا کرتی ہے۔ وہ کسی حادثہ کی رپورٹنگ کرتی ہے اور کسی سے اغماض برت لیتی ہے۔ وہ محض اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیے رپورٹیں بناتی ہے۔ ویسے ہمارے ملک میں خود کشی کی شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ محض طلبا اور کسانوں کی خود کشی کی درجہ بندی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ 2020 اور 2021 میں خود کشی کی شرح مذکورہ دونوں طبقات کے علاوہ یومیہ مزدوروں میں بھی بڑی تیزی سے بڑھی ہے جبکہ کورونا قہر نے غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والے برسر روزگار یومیہ مزدوروں کو کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا۔ یوں تو خود کشیوں کا سلسلہ 2014 سے لگاتار بڑھ رہا ہے جس کی بڑی وجہ کورونا قہر کے دوران لوگوں کی بیروزگاری میں اضافہ کے ساتھ مالی طور سے قلاش ہوجانا بھی ہے۔ اس کیفیت سے یومیہ مزدور ابھی تک نہیں نکل پائے ہیں۔ اسے ہم بڑی آسانی سے قہر کے اثرات کو کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے ان کے گھریلو مسائل اور بیماریاں بڑے ناسور ثابت ہوئے ہیں جن سے ان کے دماغی الجھنوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے خاندانی مسائل کے ساتھ 2020 اور 2021 میں گھر کی خواتین میں بھی خود کشی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر حالات کی سب سے بڑی مار کنبے کے بزرگوں (Senior Citizen) پر پڑی ہے۔ ایسے سخت حالات میں جب گھر کے لوگ بھوک کے شکار ہوں تو ان کے اندر زندگی سے نا امیدی مزید بڑھ گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بے روزگاری سے نبرد آزما لوگوں کے اندر ڈرگس کا استعمال بھی خوب بڑھا۔ لوگوں کے لیے ان حالات میں خود کشی کرنا آسان ہو گیا۔ محض این آر سی بی کے اعداد وشمار سے ہم خود کشی کے وجوہات کو سمجھ سکتے ہیں۔ خود کشیوں کی بڑھتی ہوئی رفتار پر بریک لگانے کی کوشش تو ہر حال میں ہونی چاہیے لیکن ہماری بے حس اور انسانوں کے اندر نفرت کی آبیاری کرنے والی حکومت کو، جو ہمیشہ مندر-مسجد، ہندو۔مسلمان اور منتخب حکومتوں کو گرانے میں مصروف رہتی ہے، ان کاموں کو چھوڑ کر اپنے ملک کے عوام کی سلامتی فلاح و بہبود اور خود کشی کے ہر طرح کے محرکات پر روک لگانے کے لیے پالیسی سازی کرنی ہو گی۔
2021 میں کورونا قہر کے اثرات سب سے زیادہ جن لوگوں پر پڑے ہیں ان میں سر فہرست یومیہ مزدور ہیں۔ ان میں بے روزگار، زراعت سے منسلک افراد اور خود روزگار لوگوں نے حالات کی سختی کی تاب نہ لاکر اپنی زندگیوں کو ختم کر لیا ہے۔ این آر سی بی کی رپورٹ میں ان لوگوں کی تعداد 1.6 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے جس میں تقریباً 1.05 لاکھ لوگوں کی آمدنی ایک لاکھ روپے سے کم اور 51.8 ہزار لوگوں کی آمدنی ایک سے پانچ لاکھ روپیوں کے درمیان تھی۔ خود کشی کرنے والوں میں 45 ہزار خواتین بھی ہیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہروں سے لے کر دیہات و قصبوں تک غربت اور افلاس کا خوفناک دور دورہ رہا ہے۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ 2021 میں 15 تا20 کروڑ سے زائد لوگ غربت کی زد میں آ گئے ہیں۔ اگرچہ شہروں میں گزارے کے لیے کچھ نہ کچھ مواقع فراہم ہو جاتے ہیں لیکن بڑے شہروں کا حال بھی آجکل برا ہے۔ 2021 میں بیروزگاری کی وجہ سے ممبئی اور دلی میں 40 فیصد سے زائد خود کشی کے واقعات درج ہوئے۔ ہمارا ملک پہلے ہی سے دنیا میں خود کشیوں کے معاملے میں سب سے آگے ہے۔ 2018 سے 2021 کے درمیان ملک کے 55 سے زائد بڑے شہروں میں خود کشی کے تعداد میں کافی اضافہ درج کیا گیا ہے۔ خود کشی کی بڑی وجہ کورونا قہر کے دوران آسمان کو چھوتی ہوئی بے روزگاری کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں بے لگام بے روزگاری کو دور کرکے نوجوانوں کو روزگار مہیا کرائے جائیں۔ اس بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کے اندر جرائم کے ارتکاب کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ اگرچہ حکومت نے غریبوں کو ریوڑی کے طور پر پانچ کیلو مفت اناج بھی بانٹا ہے جو اتنی بڑی آبادی کے پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی ہے اور اس طرح کا راحت کاری پر انحصار ملک کی سماجی اور معاشی صحت کے لیے مناسب بھی نہیں ہے۔ اس لیے ضروری معیشت کی نمو میں اضافہ کرنا ہو گا اور یہ نمو جاب لیس نہ ہو جیسا کہ ہماری حکومت بڑی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے مگر نوجوانوں کے لیے روزگار ندارد۔ اس لیے نوجوانوںکو روزگار کی فراہمی کے لیے مستقل حل نکالے جائیں اور آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کو قابو میں رکھا جائے تا کہ غربا اور حاشیے پر پڑے لوگ مفلسی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی ضرورتیں پوری کر سکیں ورنہ:
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مردوں کا اعتبار کھوتی ہے
کے مصداق ان کے پاس خود کشی کا ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے۔ مفلسی کا اثر محض پیٹ پر ہی نہیں اس سے انسان کے پورا وجود متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے فقر و فاقہ سے پناہ مانگی ہے۔ ایک جمہوری فلاحی ریاست کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ضروریات زندگی بسہولت میسر کرانے کے علاوہ عوام الناس کی نفسیاتی اور دماغی صحت کی بہتری کے لیے ڈاکٹرس، اساتذہ اور جہد کاروں کو لے کر مہم چلائی جائے تاکہ مصیبت زدہ لوگوں کو خود کشی کرنے سے ہر وقت روکا جا سکے۔ مابعد کورونا سے روزگار چھن جانے پر تنہائی میں زندگی گزارنے والوں کی نفسیاتی صحت کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے مگر وسائل اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگ اس سے کم ہی استفادہ کر پاتے ہیں۔
2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق 12 افراد فی لاکھ کی شرح سے خود کشی کا اندراج ہوا ہے جو پانچ سالوں میں آبادی کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔ گھریلو مسائل 33.2 فیصد اور بیماری 18.6 فیصد کو ایسے اقدام کا سب سے بڑا متحرک بتایا جا رہا ہے۔ 25.6 فیصد یومیہ مزدور اور 14.1 فیصد شادی شدہ خواتین نے کورونا قہر کی سختی کو جھیلتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا ہے جبکہ ڈیلٹا ویرینٹ کی دہشت کافی عروج پر تھی، اس کے جو اندراجات سامنے آئے ہیں وہ پانچ گنا کم تھے۔ 2020 میں 5.9 فیصد سائبر کرائم کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیجیٹل آلات کا استعمال ملک اور یہاں کے شہریوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اب سائبر کرائم دیہی علاقوں میں بھی عام ہو رہے ہیں۔ ڈیجیٹل آلات کا استعمال دیہی علاقوں میں معاشی مقاصد کے لیے بھی ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست گیر پیمانے پر پرتشدد جرائم کے گراف میں بھی زبردست اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے۔ علاوہ ازیں ریاست گیر پیمانے پر پرتشدد جرائم کا گراف بھی بلند ہوا ہے۔ آسام میں پرتشدد جرائم 76.6 فی لاکھ دلی میں 57، مغربی بنگال میں 48 ہے، جبکہ گجرات، آندھرا پردیش اور تمل ناڈو میں یہ تعداد کچھ کم ہے۔
***
***
حکومت نے غریبوں کو ریوڑی کے طور پر پانچ کیلو مفت اناج بھی بانٹا ہے جو اتنی بڑی آبادی کے پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی ہے اور اس طرح کا راحت کاری پر انحصار ملک کی سماجی اور معاشی صحت کے لیے مناسب بھی نہیں ہے۔ اس لیے ضروری معیشت کی نمو میں اضافہ کرنا ہو گا اور یہ نمو جاب لیس نہ ہو جیسا کہ ہماری حکومت بڑی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے مگر نوجوانوں کے لیے روزگار ندارد۔ اس لیے نوجوانوںکو روزگار کی فراہمی کے لیے مستقل حل نکالے جائیں اور آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کو قابو میں رکھا جائے تا کہ غربا اور حاشیے پر پڑے لوگ مفلسی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی ضرورتیں پوری کر سکیں
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022