کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کیا عوام کو کانگریس سے جوڑے گی؟
احتشام الحق آفاقی، رامپور
راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی کی بھارت جوڑو مہم بدھ کے روز کنیا کماری سے شروع ہوئی جو 3500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بارہ ریاستوں اور دو مرکزی زیر انتظام علاقوں سے ہوتی ہوئی تقریباً پانچ ماہ میں کشمیر پہنچے گی۔ اس سفر کے آغاز پر راہل گاندھی نے کہا کہ یہ مارچ تمام ہندوستانیوں کو قومی پرچم کے اقدار کے تحت متحد کرنے کی کوشش ہے، جس کا بنیادی اصول تنوع ہے۔ کانگریسی لیڈر نے کہا کہ موجودہ حکومت میں ہندوتوا نظریہ کے سائے میں یہ قدریں اب خطرے میں ہیں۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی کی بھارت جوڑو مہم کی غرض سے پانچ ماہ کے ملک گیر سفر کو ہندوستان میں مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات ایک اہم سیاسی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تمام تر اخبارات کے کالموں اور اداریوں میں برملا یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ بھارت جوڑو مہم کانگریس کے مستقبل کو طے کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو گی۔
انگریزی اخبار دی ہندو نے 9؍ ستمبر 2022کے شمارے میں کانگریس پارٹی کی بھارت جوڑو مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’یہ کوشش کانگریس کے مستقبل کو تابناک بنا سکتی ہے۔ اس کے مطابق اس طرح کے سیاسی سفروں نے نہ صرف تاریخ بلکہ ماضی قریب میں بھی بہت سے لیڈروں کی قسمت لکھنے اور زرخیز کرنے کا کام کیا ہے۔ مہاتما گاندھی سے لے کر ایل کے اڈوانی تک اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس لیے راہل گاندھی کو ان کے مداحوں، ناقدین اور برملا اظہار خیال کرنے والے اشخاص کے ذریعے ہر قدم پر قریب سے جانچا جائے گا۔ راہل گاندھی کو اس یاترا کے ذریعے کانگریس کارکن کی شناخت اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ مسٹر گاندھی کو لوگوں کو یہ باور کرانا ہو گا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں وہ ملک چلانے کے قابل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں پارٹی کے ان کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے جنہیں ایک طویل عرصے سے جڑوں سے محروم لوگوں کے گروہوں نے یکے بعد دیگرے دبا رکھا ہے۔ یہ ایک لمبا اور تنہا سفر ہے۔‘‘
ٹائمس آف انڈیا نے اپنے 8 ستمبر کے شمارے میں کانگریس کی بھارت جوڑو مہم پر لکھا ہے کہ اس مہم سے کانگریس کے مستقبل میں کوئی بھی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ملک گیر تحریک کے بجائے ریاستی اور مقامی سطح پر لیڈرشپ، افراد سازی اور عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ مقامی پارٹیاں برسوں سے کرتی آ رہی ہیں۔ کانگریس کو پہلے چار پانچ ریاستوں میں حقیقی طور پر تعمیر نو کی کوشش کرنی ہو گی ورنہ ملک شاید اس یاترا پر کوئی توجہ نہ دے۔
اردو کے کثیر الاشاعت روزنامہ راشٹریہ سہارا نے 7 ستمبر کے شمارے میں ’’امید کی دیا‘‘ کے عنوان سے کانگریس کی بھارت جوڑو مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’آج ملک کے موجودہ حالات میں مہنگائی کے خلاف ہلہ بول اور بھارت جوڑو یاترا جیسی سیاسی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں ایک طرف مہنگائی، بے روزگاری اور مستقبل کا خوف بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور خوف کے ماحول میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رام لیلا میدان میں مہنگائی کے خلاف ہلہ بول ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ان حقائق کی جانب عوام کو متوجہ کیا۔ آج خوردنی سامان، موٹے اناج اور دودھ جیسی بنیادی چیزوں کی قیمتیں بھی آسمان چھو رہی ہیں۔ یو پی اے دور میں دودھ 32 روپے فی لیٹر، خوردنی تیل 60 سے70 روپے، دال 50 تا 60 روپے فی کلو کی قیمت پر فروخت ہوتی تھی، ان سب کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔ 8 برسوں میں ان تمام روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ مہنگائی خوف ناک عفریت بن کر لوگوں کو نگل رہی ہے۔ اب دال، تیل اور پٹرول کی قیمتیں سو روپے سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ دودھ سو روپے فی لیٹر دستیاب ہے۔ آلو، پیاز اور سبزیوں کی قیمتیں بھی عوام کی رسائی سے دور ہوچکی ہیں۔‘‘
دی انڈین ایکسپریس نے 9 ستمبر کے شمارے میں وزیر اعظم مودی کے سنٹرل وسٹا پروجیکٹ سے متعلق کرتویہ پتھ کے افتتاحی تقریب پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ اخبار نے وزیر اعظم کے نظریے ’’راج پتھ غلامی کی نشانی‘‘ پر اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ اخبار کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے انہدامی اور تعمیراتی ذہنیت سے مستقبل کا ہندوستان خود اپنی شناخت کے سہارے ترقی کے منازل طے کرے گا اور نوآبادیاتی ذہنیت کو فروغ ملے گا۔ اخبار نے حکمراں جماعت کو اپوزیشن کو نظر انداز نہ کرنے کا مشورہ
Aziz Sahab Dawat, [10-09-2022 03:12 PM]
دیتے ہوئے کرتویہ پتھ کی افتتاحی تقریب میں ان کی غیر موجودگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
شیخ حسینہ کا دورہ ہند
انگریزی روزنامہ دی ٹیلی گراف نے اپنے 8 ستمبر کے شمارے میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان پانی کے معاہدے پر ہونے والے دستخط اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے ایک ایسے وقت میں جب کہ0 ہندوستان اپنے مشترکہ پڑوس میں اثر و رسوخ کے لیے چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، نئی دہلی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ڈھاکہ کی ترجیحات کے لیے حساسیت کا مظاہرہ کرے۔ محترمہ حسینہ واجد نے ہندوستان کو بنگلہ دیش کا ’’سب سے اہم اور قریبی پڑوسی‘‘ قرار دیا ہے۔ بھارت کو ان تعلقات کی برقراری کو یقینی بنانا چاہیے‘‘
ہندی روزنامہ جن ستا نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دورے سے دونوں ملکوں کے عوام کو مستقبل میں ہونے والے فوائد پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے ’’بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دورہ ہندوستان نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرما گرمی بڑھا دی ہے۔ اس بار بھی دونوں ممالک نے باہمی تعاون کے سات معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، ان میں سب سے اہم دریائے کشیارا کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے۔ اس سے جنوبی آسام اور سلہٹ کے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً 54 دریا بہتے ہیں جن سے آبی تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ دریائے کشیارا کے پانی کے معاہدے نے ان 54 دریاؤں کے پانی کے انتظام کے متعلق بھی امیدیں پیدا کی ہیں۔ بھارت نے تقریباً سینتالیس سال قبل دریائے فراکا پر ڈیم بنایا تھا تو بنگلہ دیش نے اس کی شدید مخالفت کی تھی لیکن پچیس سال قبل جب دونوں ممالک گنگا کا پانی تیس سال تک بانٹنے پر متفق ہوئے تو وہ احتجاج ختم ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود کبھی کبھی گنگا میں ملنے والی دریاؤں کے پانی پر احتجاج کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ دو ملکوں کے درمیان گزرنے والے دریاؤں کے پانی پر تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہے، ان کے پانی کے مناسب انتظام کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اگر عملی معاہدے ہو جائیں تو پانی کے تنازعات آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔ہندوستان اور بنگلہ دیش نے اس سمت میں ایک حوصلہ افزا قدم اٹھایا ہے۔‘‘
[email protected]
***
***
’’بھارت جوڑو مارچ کو اپنے اصولوں پر کھرا اترنا چاہیے نہ کہ اسے راہل گاندھی سے جوڑ کر دیکھا جائے؟ بھارت جوڑو یاترا ایک پرجوش سیاسی منصوبہ ہے۔ اس سے قائد کے طور پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی مقبولیت کا امتحان ہو گا اور ملک کا مزاج بھی ظاہر ہو گا۔‘‘ دی ہندو
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022