مرکز نے ٹویٹر سے 2021 میں 2851 یو آر ایلز کو بلاک کرنے کو کہا، اس سال ایسے 1100 سے زیادہ احکامات جاری کیے، آئی ٹی وزیر نے لوک سبھا کو بتایا

نئی دہلی، جولائی 27: حکومت کی طرف سے لوک سبھا میں پیش کیے گئے ڈیٹا کے مطابق الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے ٹویٹر کو 2021 میں 2851 یو آر ایل یا یونیفارم ریسورس لوکیٹرس کو بلاک کرنے کا حکم دیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 200 کے سیکشن 69 اے کے تحت اس سال جون تک 1122 یو آر ایل کو بلاک کرنے کا حکم دیا۔

اس قانون کا سیکشن 69A حکومت کو قومی سلامتی کے مفاد میں کسی مواد تک عوام کی رسائی کو روکنے کی اجازت دیتا ہے۔

وزیر مملکت برائے الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی راجیو چندر شیکھر کے ذریعہ فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹویٹر یو آر ایل کو بلاک کرنے کی وزارت آئی ٹی کی ہدایات میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔

وزیر مملکت، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پردیوت بوردولوئی کے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جنھوں نے 2014 سے ٹویٹر اکاؤنٹس کی نمائش کو معطل یا کم کرنے کی حکومتی درخواستوں اور اس طرح کے احکامات کے پیچھے وجوہات کی سالانہ تفصیلات طلب کی تھیں۔

2014 میں آٹھ سے 2015 میں بلاک شدہ URLs کی تعداد بڑھ کر 15، 2016 میں 194 اور 2017 میں 588 ہو گئی اور 2018 میں یہ تعداد 225 ہو گئی۔ 2019 میں حکومت نے 1041 URLs کو بلاک کیا، وہیں 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 2731 اور 2021 میں 2851 ہوگئی۔

فروری 2021 میں حکومت نے ٹویٹر سے ایسے سیکڑوں اکاؤنٹس کو ہٹانے کو کہا، جنھوں نے نومبر 2020 میں شروع ہونے والے بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کو سنبھالنے پر مرکز پر تنقید کی تھی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ابتدا میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن آخر کار اس کے مقامی ملازمین کو جیل میں قید کی دھمکیاں ملنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گیا۔

پچھلے سال اپریل میں مرکز نے ٹویٹر سے ان اکاؤنٹس کو ختم کرنے کو کہا تھا جنھوں نے کووڈ19 کی دوسری لہر کے دوران حکومت پر تنقید کی تھی، جب لاکھوں لوگ مر گئے تھے۔

ٹویٹر کی عالمی شفافیت کی رپورٹس کے تجزیے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بھارتی حکومت اور عدالتوں کی جانب سے ٹویٹر سے مواد ہٹانے کے قانونی مطالبات میں 2014 اور 2020 کے درمیان 48000 فیصد اضافہ ہوا۔

دریں اثنا ٹویٹر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کچھ ٹویٹس اور اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کے حکومتی احکامات کو چیلنج کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔

کمپنی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’کئی یو آر ایل سیاسی اور صحافتی مواد پر مشتمل ہیں۔ اس طرح کی معلومات کو مسدود کرنا اس پلیٹ فارم کے استعمال کرنے والوں کے لیے بیان کی آزادی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘‘

منگل کو ہائی کورٹ نے اس کیس میں مرکز کو نوٹس جاری کیا اور ٹویٹر کو ہدایت دی کہ وہ تمام متعلقہ دستاویزات کو حکومت کے وکیل کے ساتھ سیل بند کور میں پیش کرے۔