بلڈوزر: مسلم دشمنی کی نئی سنگین علامت
باہمی اتفاق، محبت اور اخوت ہی بلڈوزر کو بے اثر بناسکتے ہیں
ناصر عزیز، ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کی نظر میں انہدامی کارروائی سراسر غیر قانونی اور ناقابل عمل
حق رہائش ،آرٹیکل 21کے تحت ایک بنیادی حق
16 مئی 2014 کو نریندر مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف ے کر بی جے پی کے اقتدار کی ایک ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال آزاد ہندوستان میں کم ہی ملتی ہے۔ بغور دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اس کامیابی کے حصول کے لیے جو ذرائع استعمال کیے گئے ان میں سب سے زیادہ موثر اور کارگر ذریعہ مسلم مخالف پالیسی اور بیانات کا رہا۔ مودی نے انتخابات کی تیاری کے دوران 2013 ہی سے مسلم دشمنی اور فرقہ واریت کی حکمت عملی اپنائی تھی اور وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے تھے۔ ظاہر ہے ان کی اس کامیاب حکمت عملی کی اتباع بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کے لیے بہت فطری بات تھی۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی جو ہندوتواد اور مسلم دشمنی میں مودی پر بھی سبقت لے گئے ہیں، انہوں نے اپنے صوبہ میں مسلم دشمنی کا کھلم کھلا کھیل کھیلا اور مسلم دشمنی اور اقتدار کے بے جا استعمال کی تمام حدیں پار کر دیں۔ دراصل شہریت ترمیم ایکٹ کے خلاف ہونے والے مظاہروں نے یوگی کو ایک سنہری موقع دے دیا۔ جب دلی میں شاہین باغ اس بل کی پرزور مخالفت کی علامت اختیار کر گیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ یہ احتجاج بی جے پی حکومت کو کمزور کردے گا، اسی وقت جیسے ہی لکھنو میں بھی اس طرح کا احتجاج شروع ہوا، یوگی نے فوری کارروائی کے طور پر نہ صرف احتجاجیوں کو گرفتار کیا بلکہ پہلی بار ایک ایسا حربہ استعمال کیا جسے مسلم دشمنی کا سب سے کارگر ہتھیار مانا گیا یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یوگی نے لکھنو کے احتجاجیوں پر نہ صرف کثیر جرمانہ عائد کیا بلکہ ان کی املاک کو بھی توڑنے کے احکام جاری کیے۔ جب کچھ فریق اس کے خلاف عدالت پہنچے تو عدالت عالیہ نے اتر پردیش نے ان احکامات کو کالعدم قرا ردیا۔ نتیجتاً عدالت کے اس فیصلہ کی نفی کے لیے یوگی حکومت نے فوراً ایک آرڈیننس جاری کر دیا جس کے تحت احتجاج کرنے والوں پر جرمانہ، ان کی املاک ضبط کرنا اور مسمار کرنا قانونی امر قرار دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ اس امر سے مسلمانوں میں بے چینی اور بے بسی بڑھ گئی لیکن ہندوتواد بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان فرقہ وارانہ تنظیموں نے جس طرح ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کا پرچم لہرایا تھا، اس کے نتیجہ میں ہندوتوا کے حامیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت طوفانی رخ اختیار کر چکی تھی اور ہر انتخاب میں بی جے پی کو اس کا بھرپور فائدہ مل رہا تھا۔ مسلمانوں پر پڑنے والی ہر چوٹ ان بھاجپاوں کے دلوں میں خوشی اور تسکین کے جذبات پیدا کر رہی تھی وہ اور شدت سے بی جے پی کو مضبوط کر رہے تھے۔
2020 میں کووڈ نے جو تباہی مچائی اور لاک ڈاون نے جس طرح معیشت کو نیست و نابود کیا اس میں سب سے زیادہ ناکارہ کارکردگی یوگی حکومت کی رہی۔ بات اس وقت اور بگڑی جب بے یار و مددگار مزدور دلی سے ہجرت کر کے اپنے اپنے گاوں واپس جا رہے تھے۔ یوگی حکومت نے ان کی مدد تو درکنار الٹا ان کی مشکلوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ حد تو تب ہو گئی جب کووڈ کے بدترین دور میں گنگا اور دوسری ندیوں میں بے شمار لاوارث لاشیں تیرتی ہوئی نظر آئیں۔ اس کے فوراً بعد ہی کسان مخالف قوانین کی کسانوں نے مخالفت شروع کی اور یہ احتجاج بھی مثالی بن گیا۔ اب یہ اندیشہ عام ہوا کہ بی جے پی کی ناکامیوں اور غلط رویوں کے سبب مودی، یوگی اور بی جے پی کی شبیہ کو زبردست نقصان پہنچا ہے اور آئندہ انتخاب میں بی جے پی کو بڑا خسارہ ہو سکتا ہے۔ یوپی میں صوبائی الیکشن کے دوران ایسی خبریں اور سروے عام ہوئے جن سے بی جے پی کی کشتی ڈوبی نظر آئی۔ آناً فاناً ایسے مسائل جو ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہے ہیں اس پر بی جے پی نے کام شروع کر دیا۔ کرناٹک میں حجاب کے ایشو کو اتنا اچھالا گیا کہ وہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا اور کرناٹک ہائی کورٹ نے اس پابندی عائد کرکے شرپسندوں کو مسلسل دشمنی کا کھلا موقع عطا کیا۔ اسی طرح پے درپے ایسے ایشوز کو زیر بحث لایا گیا جن سے مسلمانوں کو فضیحت اٹھانی پڑے۔ ’لو جہاد‘ اور اس سے متعلق قوانین بنائے گئے، مختلف ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین بنائے گئے، یونیفارم سول کوڈ پر وعدے کیے گئے۔ ایسے تمام قوانین کا مقصد تھا مسلمانوں کو دیوار سے لگا دینا اور مودی بھکتوں کو یہ احساس دلانا کہ ہم ان مسلمانوں کی پسپائی کرکے ہی رہیں گے، آپ ہم پر بھروسہ رکھیے۔
بی جے پی ہمیشہ کانگریس کو یہ کہہ کر نشانہ بناتی رہی کہ یہ مسلمانوں کی تسکین کی سیاست کرتی ہے جبکہ اب جو کچھ بی جے پی کر رہی ہے کیا اسے ہندووں کی تسکین کی سیاست نہیں کہا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ جس طرح تمام کمزوریوں کے باوجود، یوگی کو جب ’بلڈوزر بابا‘ کا خطاب ملا تو اس سے اسے بے پناہ فائدہ ہوا اور وہ تمام نامساعد حالات کے باوجود اتر پردیش کا انتخاب جیت گیا۔ اس سے تحریک پاکر سب سے پہلے شر پسندوں نے کرولی راجستھان میں رام نومی کے جلوس کے بہانے فساد کروایا اور پھر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا لیکن وہاں چونکہ حزب اختلاف کی حکومت ہے اس لیے یہی کام مدھیہ پردیش کے کھرگون میں وزیر اعلیٰ چوہان نے کر دکھایا۔ مسلمانوں کی املاک کو ناجائز کہہ کر ان پر بلڈوزر سے بھرپور وار کر کے نیست و نابود کر دیا گیا۔ جب اس پر احتجاج ہوا تو شیو راج چوہان نے کھلے عام یہ کہا کہ بلڈوزر نہیں رکے گا اور ہندووں سے کہا کہ تم فکر مت کرنا ’ماما‘ تمہارے ساتھ ہے گویا ایک طرف یوگی یعنی بلڈوزر بابا اور دوسری طرف چوہان ’بلڈوزر ماما‘ ۔ ابھی کھرگون کو لے کر بحث چل رہی تھی کہ اچانک 19 نومبر کو دلی کے ایک مسلم علاقہ جہانگیرپوری کے سی بلاک میں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے، میں اچانک رام نومی کے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ فساد بھڑک اٹھا۔ تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں ثبوت موجود ہیں کہ ہندو فسطائیوں کے ہاتھوں میں تلواریں اور دیگر ہتھیار تھے اور وہ مسلمانوں کے علاقہ میں انتہائی بھڑکاو نعرے لگا رہے تھے اور بات تب بگڑی جب انہوں نے مسجد پر بھگوا جھنڈا لگایا لیکن تادیبی کارروائی میں بیشتر مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا اور جیسا کہ اب عام بات ہے ان میں سے ایک آدھ پر UAPA بھی لگا دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد بی جے پی دلی کے صدر آدیش گپتا نے ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ اس فساد زدہ علاقے میں فوری طور پر املاک کی انہدامی کارروائی کی جائے اور اگلے ہی روز اس حکم کی تعمیل میں میونسپلٹی اور پولیس نے مل کر بیشتر مسلمانوں کی املاک کو نیست و نابود کرنے کا کام شروع کر دیا۔ کہا یہ گیا کہ یہ غیر قانونی قبضوں کو ہٹانے کی کارروائی ہے۔ کچھ تنظیموں نے بلا تاخیر اس کے خلاف عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں فوری طور پر اس کارروائی کے خلاف حکم امتناع جاری کیا گیا۔ ایک بات جو سب سے زیادہ قابل تشویش و اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ مقامی حکام نے اس حکم امتناعی کی اطلاع ملنے کے باوجود مزید دو گھنٹہ انہدامی کارروائی جاری رکھی اور وہاں مسجد کے دروازہ تک کو منہدم کرنے سے باز نہیں آئے۔ خدا بھلا کرے محترمہ برندا کرت کا جو بہ نفس نفیس وہاں موجود تھیں انہوں نے بڑی منت سماجت کر کے اس غیر قانونی عمل کو رکوایا۔ اس کے فوراً بعد ہی بی جے پی کے تمام بڑے لیڈروں کا بیان کسی نہ کسی صورت میں آتا رہا کہ بلڈوزر نہیں رکے گا۔ منوج تیواری نے پر زور الفاظ میں کہا کہ بلڈوزر کسی طور پر نہیں روکا جائے گا۔ اس دوران خبر آئی کہ گجرات میں بلڈوزر فیکٹری کا افتتاح برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کریں گے جبکہ معلوم ہے کہ بلڈوزر کا استعمال کس کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ بلڈوزر غریب مسلمانوں کے لیے دہشت گردی کی علامت اور حوصلہ شکنی اور دشمنی کا نشان بن گیا ہے۔ معروف وکیل دشنیت دوبے نے عدالت عظمیٰ میں بحث کے دوران کہا کہ غیر قانونی املاک کو منہدم کرنے کے لیے انہیں غریب مسلمانوں کی بستیاں ہی کیوں نظر آتی ہیں؟ بعض متمول لوگوں کے علاقوں سینک فارم اور گالف لنکس میں یہ کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جبکہ مبینہ طور پر وہ بھی غیر قانونی ہیں؟ ظاہر ہے کہ مسلم دشمن بی جے پی حکومت کے حامیوں اور اس کے بھکتوں کے لیے اس سے زیادہ اطمینان بخش اور قلبی سکون کا باعث اور کیا چیز ہو سکتی ہے کہ ماہ رمضان کے دوران مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جائے اور ان کی املاک کو تباہ و برباد کر دیا جائے؟ بلڈوزر کا استعمال مسلمانوں کے حوصلوں کو کچلنے اور ان دشمنوں کے حوصلوں کو بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس بلڈوزر سے مسلمان کمزور اور ان کے دشمن مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی الحاقی پارٹیوں کے لیے یہ کارروائی منافع کا سودا ہے لیکن جس طرح دارالحکومت دلی ایک بستی میں عدالت عظمی کے حکم امتناعی کے بعد بھی انہدامی کارروائی کو جاری رکھا گیا اس سے اس ملک کے عدالتی اور جمہوری نظام کو جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی۔
یہ ایسا وقت ہے کہ جس میں مسلمانوں اور سیکولر ذہن والے ہندووں کو مل جل کر محبت و اتفاق کے جذبے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ بعض غیر مسلموں نے برملا اس حرکت کی مذمت کی ہے اور حکومت کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا کام کیا ہے۔ باہمی اتفاق، محبت اور اخوت کی طاقت ہی بلڈوزر کو کچل سکتی ہے۔ ضرورت ہے ایک ایسے ہندوستان کی جہاں کوئی ’بلڈوزر بابا‘ ہو نہ ’بلڈوزر ماما‘ بلکہ سب ملک عزیز کو اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرنے والے ہوں۔
یہاں ایک ماہر قانون کی حیثیت سے میں یہ ضرور باور کرانا چاہوں گا کہ ہندوستانی اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے اس طرح کی انہدامی کارروائی سراسر غیر قانونی اور ناقابل عمل ہے۔ سپریم کورٹ نے 1985میں ایک فیصلے کے ذریعہ اس طرح کی انہدامی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا ہے جس میں لوگوں کے حق رہائش کوپامال کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے ایک اور فیصلے میں 2017میں اسی امر کو دوہرایا گیا اور جسٹس کورین جاسف کے فیصلے کے مطابق حق رہائش آرٹیکل 21آئین ہند کے مطابق ایک بنیادی حق ہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ ایسے تمام لوگ جن کے مکان یا دوکانیں غیر نوٹس کے منہدم کیے گئے وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور انصاف کی گہار لگائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسی تمام غیر قانونی کارروائیوں کو عدالتی کالعدم قرار دیں گی اور اس طرح کے فیصلوں سے عوام کا جمہوریت اور عدلیہ پر اعتماد بحال ہوگا اور شرپسندوں اور مسلم دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی!
***
بی جے پی ہمیشہ کانگریس کو یہ کہہ کر نشانہ بناتی رہی کہ یہ مسلمانوں کی تسکین کی سیاست کرتی ہے جبکہ اب جو کچھ بی جے پی کررہی ہے کیا اسے ہندووں کی تسکین کی سیاست نہیں کہا جائے گا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 08 تا 14 مئی 2022