بڑھتی ہوئی آبادی پر حکومتیں کیوں ہیں فکر مند ؟

یوپی میں اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے چھوڑا گیا ہےآبادی کا شوشہ

افروز عالم ساحل

اس وقت ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس پر کنٹرول موضوع بحث ہے۔ آسام اور اتر پردیش کے بعد اب بہار میں آبادی پر کنٹرول کے لیے نیا بل لانے کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے جس نے حال میں ہی اقوام متحدہ کے پاپولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ انٹرنیشنل کانفرنس کے منشور پر دستخط کیا ہے۔ یاد رہے کہ بارہ تا چودہ نومبر 2019 کو کینیا کے شہر نیروبی میں منعقدہ انٹرنیشنل کانفرنس آن پاپولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ میں ہندوستان نے بھی حصہ لیا اور خود کو اس کانفرنس کے منشور پر دستخط کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا۔

اس سے قبل سال 1994میں بھی ہندوستان ان 179ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے قاہرہ میں منعقدہ اسی انٹرنیشنل کانفرنس کے منشور پر دستخط کیے تھے۔ غورطلب ہے کہ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل کانفرنس کا یہ منشور ملک کے ہر شادی شدہ جوڑے کو اپنے بچوں کی تعداد، ان میں فاصلہ رکھنے کی آزادی اور ان کے تولیدی حقوق کی وکالت کرتا ہے۔ یہ منشور صاف طور پر فیملی پلاننگ میں زور و زبردستی کی مخالفت کرتا ہے۔

یہی نہیں ملک کی نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) IV کے اعداد وشمار کے مطابق 2015-16کے دوران ’فرٹیلیٹی ریٹ‘ میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ سال 2015-16میں ’فرٹیلیٹی ریٹ‘ 2.2ہوگیا ہے، جبکہ اس سے قبل سال 2005-06این ایف ایچ ایس III کے اعداد وشمار کے مطابق ’فرٹیلیٹی ریٹ‘ 2.7تھا۔ 1991میں یہ ’فرٹیلیٹی ریٹ‘ 3.6 تھا۔ جبکہ حکومت نے ’فرٹیلیٹی ریٹ‘ کا ہدف 2.1 فیصد مقرر کیا ہے۔ مرکزی حکومت کے مطابق ملک کی چھتیس ریاستوں / یونین ٹیریٹریز میں سے اٹھائیس ریاستوں/یونین ٹیریٹریز پہلے ہی 2.1 یا اس سے کم ’فرٹیلیٹی ریٹ‘ کی سطح حاصل کر چکی ہیں۔ واضح ہو کہ یہ تمام معلومات اکیس مارچ 2021کو لوک سبھا میں وزارت برائے صحت وخاندانی بہبود کے وزیر مملکت اشونی کمار چوبے نے ایک تحریری جواب میں فراہم کی ہے۔

پورے ملک میں آبادی پر کنٹرول کرنے کے قانون پر رکن پارلیمنٹ منوج تیواری اور پروفیسر سوگت رائے نے تیس جولائی 2021کو لوک سبھا میں سوال اٹھایا، جس کے تحریری جواب میں وزیر مملکت برائے صحت وخاندانی بہبود ڈاکٹر بھارتی پروین پوار نے کہا کہ اس سے متعلق فی الحال کوئی تجویز زیرغور نہیں ہے۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ آبادی کنٹرول آئین کی ہم آہنگ فہرست کے تحت آتی ہے، اس لیے ریاستی حکومتیں قانون سازی کر سکتی ہیں۔

غریبی ختم کیے بغیر آبادی کنٹرول نہیں کی جا سکتی

اس سلسلے میں ہفت روزہ دعوت نے کئی ماہرین سے بات کی اور سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ اس مجوزہ قانون کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

ملک کے مشہور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ اور ڈیولپمنٹ ورکر اور اتر پردیش کی ’پیپلز وجیلینس کمیٹی آن ہیومن رائٹس‘ نامی تنظیم کے بانی لینن رگھوونشی کہتے ہیں کہ جب تک ملک میں غریبی ختم نہیں ہوگی، لوگوں کامعیار زندگی بلندنہیں ہوگا تب تک کوئی بھی حکومت آبادی کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ملک میں غربت کو ختم کیے بغیر آبادی کنٹرول کی بات کرنا ایک طرح سے غریبوں اور محروموں کے اوپر حملہ ہے۔

رگھوونشی مزید بتاتے ہیں کہ دراصل حکومت اپنے فلاحی منصوبوں اور اسکیموں کو نافذ کرنے بلکہ اپنے فرائض سے بھاگ رہی ہے۔ اگر اس نے حقیقت میں کام کیا ہوتا، ملک میں فلاحی اسکیموں کو ایمانداری سے نافذ کیا ہوتا تو آج آبادی کنٹرول کی بات ہی نہیں ہوتی۔ لوگوں کی زندگی کے معیار میں بہتری آتی تو پڑھے لکھے لوگ خود بخود فیملی پلاننگ شروع کر دیتے۔ اس کے برعکس ایک غریب آدمی فیملی پلاننگ کی بات نہیں سوچتا۔ وہ سوچتا ہے کہ جتنے ہاتھ ہوں گے، اتنے کام ہوں گے اور اتنے ہی دام بھی ملیں گے۔ لیکن جب حکومت کی جانب سے لوگوں کو سہولتیں ملتی ہیں تو ان کی زندگی کے معیار بدلتے اور آبادی خود بخود کنٹرول میں ہوجاتی ہے۔

آئین کے خلاف ہے آبادی کنٹرول قانون

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے رحمان ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے آئین میں ’رائٹ ٹو لائف‘ کی بات کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی رولس آف نیچرل جسٹس کی روشنی میں ہر انسان کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ فطرت کی دی ہوئی قوتوں اور فطرت کی بنائے ہوئے قانون سے جس حد تک بھی فائدہ حاصل کرنا چاہے کر سکتا ہے، اس کو آپ روک نہیں سکتے۔ اور پھر بچہ پیدا کرنا کسی بھی شخص کا اتنا نجی معاملہ ہے کہ اسے رائٹ ٹو پرائیویسی میں سب سے اہم سمجھا جانا چاہیے۔ بچے کی پیدائش تو فطرت کا دیا ہوا تحفہ ہے، اس کو کنٹرول کرنے کا اختیار کسی حکومت کے پاس کیسے ہوسکتا ہے؟

وہ مزید کہتے ہیں کہ میں کسی عورت سے شادی کرتا ہوں تو اس کے بعد یہ فیصلہ ہمارا ہوگا کہ ہم بچہ پیدا کریں یا نہ کریں۔ قانون بناکر اس کو روکنے کی کوشش پوری طرح غیر آئینی اور رولس آف نیچرل جسٹس کے خلاف ہے۔

بچہ پیدا کرنے سے تو نہیں روکا جارہا ہے، بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ اگر دو سے زائد بچے ہوں گے تو آپ سرکاری نوکری سے محروم رہ جائیں گے۔ اس پر اے رحمان کہتے ہیں کہ یہ کنٹرول ہی تو ہے۔ بلکہ میں کہوں گا کہ یہ کنٹرول سے بھی دو قدم آگے ہے، یہ معاشی بلیک میل ہے۔ یہ ظالمانہ قانون ہے۔ ملک کے تمام شہریوں کو روزگار مہیا کرانا آئین کے تحت حکومت کا فرض ہے، لیکن آپ نوکری نہ دینے کی دھمکی دے کر یا آبادی کنٹرول کا بہانا بناکر بلیک میل کر رہے ہیں۔ اس طرح کا قانون نہ تو اخلاقی لحاظ سے جائز ہے اور نہ ہی اس ملک کے آئین کے لحاظ سے۔ حکومت اگر آبادی پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو وہ عوام کو سرکاری نوکریاں دے، انہیں تعلیم سے آراستہ کرے اور لوگوں میں آبادی سے متعلق بیداری لائے۔

لیکن کانگریس کے زمانے میں بھی تو نس بندی کی گئی تھی؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ درست ہے کہ کانگریس نے جبری نس بندی کروائی تھی لیکن اس وقت اس طرح کا ظالمانہ قانون نہیں بنایا گیا تھا۔ اس وقت اس طرح کا قانون بنانے کی دھمکی بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس وقت پہلے لوگوں کو بیدار کیا گیا تھا ملک کے تمام اخباروں میں اشتہار دیے گئے تھے۔ اس وقت جو سوچ تھی، وہ انسانی سوچ تھی اور یہ غنڈہ گردی والی سوچ ہے۔

کیا جبری نس بندی غنڈہ گردی نہیں تھی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ بھی غنڈہ گردی ہی تھی لیکن اس کا جواب بھی انہیں فوراً مل گیا۔ اس کے باوجود میں کہوں گا کہ ان کا اپروچ بلیک میل کرنے والا نہیں تھا بلکہ ایک حد تک لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا تھا۔ فی الحال اس وقت جس قانون کی بات کی جارہی ہے وہ ہمارے ملک کے آئین کے مطابق نہیں ہے۔ اگر سپریم کورٹ اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے تو یہ قانون نہیں ٹک پائے گا۔

پرانی ہے خوف پھیلانے کی بیماری

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ڈاکٹر فردوس عظمت صدیقی کہتی ہیں کہ اس ملک میں بڑھتی آبادی اور اس کو کنٹرول کرنے کی پوری بحث کمیونل لائن پر شروع ہوئی۔ جب 1881میں مردم شماری ہوئی تھی تو اسی وقت یہ زہریلا بیج بو دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور اس میں مسلم عورتوں کو ایک ’سیکسول بم‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے بعد سے کٹر ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلسل یہ خوف پھیلایا گیا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اس ملک میں مسلمان اکثریت اور ہندو اقلیت میں آ جائیں گے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب یہ ہندوتوا لیڈر مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے قانون کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنے لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم دو ہمارے دو کی پالیسی کو مسلمانوں کے لیے چھوڑ دو اور خود ہم دو ہمارے پانچ کی پالیسی اپناو۔ یہ بات اس وقت سے لے کر آج تک کٹر ہندو لیڈر کھلے عام کہتے آئے ہیں۔ اتر پردیش میں اس طرح کے بیانات سب سے زیادہ دیکھے گئے ہیں۔

ڈاکٹر فردوس عظمت صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو صرف تعلیم کے ذریعہ ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ سائنسی جریدہ لانسیٹ میں سال 2020 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ’لڑکیوں کی مانع حمل کے جدید طریقوں تک رسائی اور تعلیم کی بنیاد پر دنیا بھر میں شرح پیدائش اور آبادی کم ہو رہی ہے۔’ وہیں این ایف ایچ ایس 2015-16کے مطابق ہندوستان میں اقتصادی طور پر بااختیار خواتین جو بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کر چکی ہیں، کم بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ ان پڑھ لڑکیوں کے مقابلے میں تعلیم یافتہ لڑکیاں پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر میں کم ہی مائیں بن رہی ہیں۔

ڈاکٹر فردوس عظمت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سروجنی نائیڈو سنٹر فار ویمن اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ سال 2014 میں ان کی ایک کتاب ‘A Struggle for Identity : Muslim Women in the United Provinces’ مشہور کیمبرج یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ اپنی اس کتاب میں انہوں نے اتر پردیش میں آبادی پر کنٹرول کرنے والی تمام تاریخی بحثوں کو شامل کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس کو لے کر ایک خاص نظریہ کے لوگوں کے ذریعہ مسلم خواتین کو کس کس طرح نشانے پر لیا گیا۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے بھی حال میں اس مسئلہ پر کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے اپنی اس نئی کتاب The Population Myth: Islam, Family Planning and Politics in India میں آبادی کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اگر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی رفتار یونہی رہی تو کل وہ ہندوؤں کی آبادی سے بڑھ جائیں گے اور وہ اقتدار پر قابض ہوجائیں گے۔ ان کی یہ کتاب اسی سال فروری مہینے میں HarperCollins نے شائع کی ہے۔

کیا بڑھتی آبادی ملک کے ہیلتھ سسٹم کو خراب کررہی ہے؟

کوویڈ کے اس دور میں سوشل میڈیا میں یہ خوف بھی پھیلایا گیا کہ ملک کے ہیلتھ سسٹم میں خرابی یا کمی کے لیے بڑھتی آبادی ذمہ دار ہے۔ چنانچہ اس مسئلے پر ایک رکن پارلیمنٹ نے لوک سبھا میں سوال کیا، جس کے تحریری جواب میں تیئیس جولائی 2021 کو وزیر مملکت برائے صحت وخاندانی بہبود ڈاکٹر بھارتی پروین پوار نے بتایا کہ ملک کے ہیلتھ سسٹم میں خرابی یا کمی کو ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی سے جوڑنے والے اعداد وشمار حکومت کے پاس نہیں ہیں۔

ایوان میں کی جا چکی ہے آبادی کنٹرول قانون کی سفارش

آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ آئین (79واں ترمیمی بل 1992) بائیس دسمبر 1992 کو راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا تھا۔ اس بل میں آبادی پر قابو پانے اور چھوٹے خاندان کے اصول کو شامل کرنے کے لیے ریاستی پالیسی کی ہدایات کے اصولوں میں ترمیم کی بات کہی گئی تھی۔ اس بل میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ اگر کسی شخص کے دو سے زیادہ بچے ہوں تو اس کو پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان یا کسی بھی ریاست کے قانون ساز اسمبلی کے رکن کے طور پر منتخب ہونے کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا۔ تاہم یہ بھی کہا گیا تھا کہ مجوزہ ترمیم کا اثر موجودہ کسی رکن پر نہیں پڑے گا۔

اس بل پر پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی وسائل وترقی نے غور کیا اور یہ سفارش کی کہ حکومت بل پر مزید مشاورت کے لیے پارلیمنٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس بلانے پر غور کرے تاکہ اس بل کے لیے راستہ ہموار کرکے اسے منظور کیا جا سکے۔ پارلیمنٹ نے اس سفارش پر عمل کرتے ہوئے چودہ اگست 1997 اور تیرہ دسمبر 1999 کو مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی میٹنگیں کیں، لیکن بل کے حق میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ غور طلب ہے کہ یہ بل پی وی نرسمہا راؤ کے دور میں پیش کیا گیا تھا اور دونوں میٹنگیں اٹل بہاری واجپئی کے دور میں ہوئی تھیں۔

یہی نہیں بی جے پی کے راجیہ سبھا کے رکن راکیش سنہا نے سال 2019 میں ’ٹو چائلڈ پالیسی‘ کے حوالے سے ایک پرائیویٹ ممبر بل ایوان میں پیش کیا تھا۔ اس بل میں بلدیاتی اداروں سے لے کر غریبوں کو سستے سرکاری راشن دینے کے ساتھ دو بچہ پالیسی نافذ کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ لیکن یہ بل منظور نہیں ہوسکا۔ وہیں بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے چین کے طرز پر ہی بھارت میں ٹو چائلڈ پالیسی نافذ کرنے کی درخواست کی تھی۔لیکن جب اس پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے اس کا موقف مانگا تو مرکزی حکومت نے صاف طور پر کہا تھا کہ وہ اسے نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بھارت کی وزارت صحت اور خاندانی بہبود نے گزشتہ دسمبر میں عدالت میں دائر کردہ حلف نامے میں کہا تھا کہ بھارت میں فیملی پلاننگ کی نوعیت رضاکارانہ ہے۔

نتیش کمار کررہے تھے مخالفت، اب کررہے ہیں حمایت

گزشتہ دنوں بہار میں بی جے پی نے جب اس قانون کا مطالبہ کیا تو برسراقتدار این ڈی اے میں شامل جنتا دل یو کے لیڈروں نے نااتفاقی ظاہر کی تھی۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے آبادی کنٹرول پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے لیے قانون لانا ضروری نہیں۔ آبادی کنٹرول کے لیے قانون لانے سے بہت زیادہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے اس کے لیے خواتین کو خواندہ اور بیدار کرنا ضروری ہے۔

یہی نہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’الگ الگ ریاستوں کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ جو وہ کرنا چاہیں کریں، لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ صرف قانون بنانے سے آبادی کنٹرول نہیں ہوگی۔ ہماری سوچ سبھی طبقات پر کام کرے گی۔‘‘ لیکن گزشتہ اٹھائیس جولائی کو جب یہ معاملہ بہار قانون ساز اسمبلی کے مانسون اجلاس میں لایا گیا تو وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور ان کی پارٹی آبادی کنٹرول قانون کی حمایت میں نظر آئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی میں اس قانون کا مطالبہ کرنے والوں میں نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کے رکن اسمبلی میں برابر شریک تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس قانون کی حمایت میں بہار کے کانگریسی رکن اسمبلی بھی شامل ہیں۔

اتر پردیش میں کانگریس کررہی ہے مخالفت

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بہار میں کانگریسی رکن اسمبلی آبادی کنٹرول قانون کی حمایت میں ہیں، لیکن اتر پردیش میں کانگریس پوری طرح سے مخالفت کرتی نظر آرہی ہے۔ کانگریس پارٹی نے صاف طور پر کہا ہے کہ اسمبلی انتخابات سے قبل حکومت نے ایک متنازعہ شوشہ اس لیے چھوڑا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ کانگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ سماجوادی پارٹی نے بھی اس پر ریاستی اسمبلی میں بحث کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ آبادی پر کنٹرول کے لیے اتر پردیش میں نئے بل کا جو مسودہ تیار کیا گیا ہے اس کے مطابق اگر کسی کے دو سے زیادہ بچے ہوئے تو اسے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی اور ساتھ ہی ایسے افراد کو سرکاری ملازمت بھی نہیں مل سکے گی۔ یہی نہیں، دو سے زائد بچے ہونے پر حکومتی ملازمین کی ترقی روک دی جائے گی اور ایسے افراد کو حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد بھی ختم کر دی جائے گی۔

بل کے مسودہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت تمام بنیادی صحت کے مراکز میں زچگی مراکز قائم کرے گی۔ یہ مراکز اور غیر سرکاری تنظیمیں مانع حمل کی گولیاں اور دیگر اشیاءوغیرہ تقسیم کریں گی۔ اس کے ساتھ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے بارے میں بیداری مہم بھی شروع کی جائے گی اور ریاست بھر میں حمل، پیدائش اور اموات کی لازمی اندراج کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اس قانون کے تحت ریاست میں مختلف برادریوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی بھی کوشش کرے گی اور جس برادری میں شرح پیدائش زیادہ ہو گی وہاں بیداری مہم شدت سے چلائی جائے گی۔ اتر پردیش کے زیادہ تر سماجی وسیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ذریعے اس توازن کا اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے، جس کے بارے میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہمیشہ یہ الزام تراشی کرتی رہی ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے حکومت کو اس پر سختی سے کنٹرول کی ضرورت ہے۔ وہیں زیادہ تر لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اس قانون کو نافذ کیا گيا تو سب سے زیادہ غریب طبقے کے لوگ متاثر ہوں گے۔

آسام میں بھی آبادی کنٹرول قانون کے نام پر خوب ہورہی ہے سیاست

آسام اسمبلی نے ستمبر2017ء میں ’ٹوچائلڈ پالیسی‘ کی منظوری دی تھی۔ اس پالیسی میں چھوٹے خاندانوں کی حوصلہ افزائی کی بات کی گئی۔ اکتوبر 2019 میں آسام میں اس وقت کی بی جے پی حکومت نے یہ فیصلہ لیا تھا کہ یکم جنوری سنہ 2021کے بعد دو سے زیادہ بچوں والے افراد کو سرکاری نوکری نہیں دی جائے گی۔

یہ معاملہ وہاں اسمبلی الیکشن کے دوران پوری طرح سے چھایا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جے پی دوبارہ منتخب ہو کر حکومت میں آئی۔ اس کے بعد دس جولائی 2021 کو آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے ایک بیان دیا کہ حکومت آبادی کنٹرول پالیسی پر جلد فیصلہ لے سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ آبادی کنٹرول پالیسی پر نوٹیفکیشن اگست کے مہینے میں جاری کر دیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ آئندہ اسمبلی اجلاس میں پاپولیشن کنٹرول بل لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حکومت اقلیتی برادری سے گہری مشاورت کے بعد ہی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔

لیکن اسی درمیان اسمبلی میں ہیمنت بسوا سرما نے آبادی پر کنٹرول کے لیے اب ’پاپولیشن کنٹرول آرمی‘ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بسوا سرما نے کہا کہ ’’جن سنکھیا نینترن سینا‘‘ یعنی پاپولیشن کنٹرول آرمی میں فی الحال ایک ہزار افراد پر مشتمل ’فورس‘ کی تقرری کی جائے گی۔ یہ افراد نشیبی آسام کے مسلم اکثریتی علاقے میں گھر گھر جائیں گے اور انہیں آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کے حوالے سے بیدار کریں گے اور مانع حمل اشیاء تقسیم کریں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر آسام میں مسلم کمیونیٹی غربت اور ناخواندگی جیسی سماجی برائیوں پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے خاندانی منصوبہ بندی کا مناسب طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘ اس سے قبل بسوا سرما نے کہا تھا کہ اگر مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا سلسلہ یونہی جاری رہا، تو ایک دن ہندوؤں کے مقدس ترین مندروں میں سے ایک، آسام کے کامکھیا مندر کی زمینوں پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا۔

لیکن یہاں زیادہ بچے پیدا کرنے پر ملے گا انعام

ایک جانب آبادی کنٹرول کے لیے قانون کی بات کی جارہی ہے تو دوسری جانب میزورم حکومت میں نوجوانوں کے امور، اسپورٹس اور سیاحت کے وزیر رابرٹ روماویا روئٹے نے گزشتہ جون مہینے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنے انتخابی حلقے میں سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو فی کس ایک لاکھ روپے نقد انعام دیں گے۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ سب سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے مرد یا عورت کو ایک سند اور ٹرافی بھی دی جائے گی۔

خیال رہے کہ اس وقت راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے دو بچوں کا قانون موجود ہے جب کہ تلنگانہ، آندھرا پردیش، اتراکھنڈ، کرناٹک اور اوڈیشا میں تو دو سے زائد بچوں والے شہریوں کے لیے مقامی اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد ہے۔

***

بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو صرف تعلیم کے ذریعہ ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ سائنسی جریدہ لانسیٹ میں سال 2020 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ’لڑکیوں کی مانع حمل کے جدید طریقوں تک رسائی اور تعلیم کی بنیاد پر دنیا بھر میں شرح پیدائش اور آبادی کم ہو رہی ہے۔’ وہیں این ایف ایچ ایس 2015-16کےمطابق ہندوستان میں اقتصادی طور پر بااختیار خواتین جو بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کر چکی ہیں، کم بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ ان پڑھ لڑکیوں کے مقابلے میں تعلیم یافتہ لڑکیاں پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر میں کم ہی مائیں بن رہی ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14  اگست 2021