بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی: کس نے کیا کہا؟

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی یا یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی، یا یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا ’’ یہ فیصلہ غیر منصفانہ ہے اور ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں ملوث افراد کے لیے استثنیٰ کے نمونے کا حصہ ہے۔‘‘ یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا کہ مجرموں کی سزاؤں میں معافی انصاف کی دھوکہ دہی ہے۔
مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو‘انصاف کا مذاق‘
امریکی کمیشن کے نائب صدر ابراہم کا ردعمل
بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کے نائب صدر ابراہم کوپر نے کہا، ’’یو ایس سی آئی آر ایف گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون کا ریپ کرنے اور مسلمانوں کے قتل کا ارتکاب کرنے والے گیارہ افرادکی قبل از وقت اور غیر منصفانہ رہائی کی مذمت کرتا ہے۔‘‘مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو‘انصاف کا مذاق‘ قرار دیتے ہوئے یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا کہ یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کو سزا سے بچانے کے پیٹرن کا حصہ ہے۔ اسٹیفن شنیک نے ٹویٹ کیا، ’’سن 2002 کے گجرات فسادات میں جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہنا، انصاف کا مذاق ہے۔ یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کر کے سزا سے بچ جانے کے پیٹرن کا حصہ ہے۔‘‘
ایک بہت بری مثال قائم ہوگی:انسانی حقوق کے وکیل آنند یاگنک
احمد آباد میں مقیم انسانی حقوق کے وکیل آنند یاگنک نے کہا کہ سنگین جرائم کے مرتکبین کو صرف اس بنیاد پر رہا کردیا جانا کہ ان لوگوں نے14 سال کی قید کی سزا پوری کرلی ہےتشویش ناک ہے۔یہ لوگ اجتماعی عصمت دری، اجتماعی قتل، اور فرقہ وارانہ تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ بلقیس بانو کے خاندان کے گیارہ افراد کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی سزا کو معاف کرنا ایک بہت بری مثال قائم کرے گا۔امن و امان ریاست کا موضوع ہے۔ تاہم دہلی پولیس اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ادارہ سی بی آئی نے اس معاملے کی تحقیقات کی ہے تو حکومت ہند سے بھی مشورہ کیا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے ایسا کیا ہے یا نہیں ہم نہیں جانتے۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے تو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 2012 کے المناک نربھیا واقعے کے بعد بی جے پی نے کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو وہ عصمت دری کرنے والوں کو سزائے موت یقینی بنائے گی۔ بی جے پی کی آنجہانی لیڈر سشما سوراج نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ریپ کرنے والے کو پھانسی دی جانی چاہیے۔ جہاں کانگریس نے عصمت دری کے لیے سزائے موت کے سلسلے میں نرم رویہ اپنایا، وہیں نہ صرف بی جے پی بلکہ آر ایس ایس نے بھی بہت واضح موقف اپنایا۔ جب وہ برسراقتدار آئے تو بی جے پی نے قانون سازی میں ترمیم کی اور عصمت دری کے لیے سزائے موت متعین کی۔بلقیس بانو کیس صرف عصمت دری کا کیس نہیں تھا بلکہ یہ فرقہ وارانہ تشدد اور قتل تھا۔ انہوں نے کسی ایسی خاتون کو نشانہ بنایا جو کسی اشتعال انگیزی میں ملوث نہیں تھی۔ اسے اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ مسلمان تھی۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں کہ مجرموں کا بی جے پی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل سے تعلق ہے۔ ان کے دفاع کے لیے مالی امداد کس نے کی؟ مجھے ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سیاسی طور پر بدتمیزی ہے۔ جو کام پارٹی براہ راست نہیں کر سکتی وہ بالواسطہ کرچکی ہے۔ اگر سزا پانے والے مسلمان ہوتے اور عورت مسلمان نہ ہوتی تو کیا یہ صوابدید استعمال کی جاتی؟ معذرت کے ساتھ ہم کہتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔
ہم بہت ہی شرمندہ ہیں: صحافی لولینی سنگھ
بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ ناممکن ہے۔ حاملہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری ان میں سے ایک ہے۔ ایک ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کے تین سالہ بچے کا سر توڑ دینا اور بھی سنگین ہے۔ بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والوں کو پھولوں کے ہار پہنانا، مٹھائیاں بانٹنا، آرتی کرنا شرمناک واقعات ہیں۔ 20 سال پہلے ایسی ہی شرمندگی ہوئی تھی جب میں بلقیس بانو سے ملی تھی۔ بلقیس بھاگی پھر رہی تھی۔درندوں کی دھمکیاں ملتی رہیں۔ وہ درندے اجنبی نہیں تھے، پڑوسی تھے وہ بلقیس کے باپ سے دودھ لینے آتے تھے۔ ضمانت پر رہا ہونے والے درندوں سے جب پوچھا گیا کہ کیا کوئی پچھتاوا ہے؟ ان کی وجہ سے ملک کے ماتھے پر کلنک کا نشان ہے۔ ان کا جواب تھا کہ ملک کے ماتھے پر کلنک دیکھنے کے لیے کشمیر جا کر دیکھنا پڑے گا۔ بلقیس نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے انصاف کی طویل جنگ لڑی۔ اب وہی درندے جیل سے رہا ہو کر اپنے گاؤں واپس آ گئے ہیں۔ گودھرا سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے نے برکھا دت کی موجو کہانی پر کہا ہے کہ چونکہ یہ گیارہ لوگ برہمن ہیں، ان کی اقدار اچھی ہیں، اس لیے انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔بی جے پی کی ٹرول فوج کہہ رہی ہے کہ انہیں صرف تیستا سیتلواڑ کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے سزا دی گئی ہے۔
جب ملک کے وزیر داخلہ تیستا پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے 2002 کے فسادات میں نریندر مودی کو ذاتی ملزم بنانے کے لیے کئی دہائیوں تک جھوٹا پروپیگنڈہ کیا اور اگلے ہی دن تیستا گرفتار ہو جاتی ہے جسے آج تک ضمانت نہیں ملی، تو لوگ یقیناً ایسا ہی کہیں گے۔ دنیا کے میڈیا میں ہمارے قانونی نظام پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت سے توقع رکھنا فضول ہے لیکن پھر بھی سپریم کورٹ سے مداخلت کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ریپ کرنے والوں کا پرتپاک استقبال دیکھتی ہوں تو خون کھولتا ہے:نربھیا کی ماں
عصمت دری کی شکار نربھیا کی ماں آشا دیوی نے کہا کہ ’’جب میں دیکھتی ہوں کہ ریپ کرنے والوں کا پرتپاک استقبال کیا جا رہا ہے تو خون کھولتا ہے۔جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بالکل غلط اور شرمناک ہے۔کچھ لوگوں کا ریپ کرنے والوں کے ساتھ ایسا رویہ خواتین کی عصمت دری کی وجہ ہے۔
تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے دفتر میں سیکریٹری کے عہدہ پر فائز سینئر آئی اے ایس افسر سمیتا سبھروال نے سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے بلقیس بانو عصمت دری کے مجرموںکی رہائی پرٹویٹ کرکے سخت رد عمل ظاہر کیا ۔اس ٹویٹ نے بیوروکریٹک اور سیاسی حلقوں میں ایک بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا ایک آئی اے ایس آفیسر کو ملازمت کے دوران اس طرح کا تبصرہ کرنا چاہیے ؟
سمیتا سبھروال نے ٹویٹ کیا کہ ایک خاتون اور ایک سرکاری ملازم کے طور پر، میں #BilkisBanoCase کی خبر پڑھ کر بے اعتمادی میں بیٹھی ہوں۔)انہوں نے اپنے ٹویٹ میں بلقیس بانو کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان بھی منسلک کیا، جس میں متاثرہ نے گجرات حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس نقصان کو دور کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے خاندان کو محفوظ رکھا جائے۔آئی اے ایس آفیسر کے رد عمل کی جہاں تنقید ہورہی ہے وہیں چند سینئر اہلکاروںنے گجرات حکومت کے غلط کاموں پر سوال کرنے والی واحد سرکاری ملازم کے طور پر ان کی ہمت کی تعریف کی ہے۔
ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ایس بالاسبرامنیم، جنہوں نے غیر منقسم آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی کے حکومت کے دوران سی ایم او میں کام کیا تھا، انہوںنے رائے دی کہ آئی اے ایس افسران کے حکومتی فیصلوں کے خلاف عوام میں اپنی رائے کا اظہار کرنے میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔؎؎یہ آزادی اظہار اور اظہار رائے کے تحت آتا ہے۔ آئی اے ایس افسران حکومت کے غلط فیصلوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ انہیں صرف ایسے بیانات دینے پر پابندی ہے جس سے امن و امان کے مسائل پیدا ہوں یا مختلف برادریوں یا مذاہب کے درمیان دشمنی پیدا ہو۔‘‘
6 ہزارسرکرہ شخصیات کا مجرموں کی معافی کو رد کرنے کا مطالبہ
بلقیس بانو کی عمر 21 سال اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھی جب گودھرا ٹرین جلانے کے بعد پھوٹنے والے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ ہلاک ہونے والوں میں اس کی 3 سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔ سماجی کارکنان اور خواتین و انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت 6,000 سے زائد شہریوں نے سپریم کورٹ پر زور دیا ہے کہ وہ 2002 کے بلقیس بانو کیس میں عصمت دری اور قتل کے 11مجرموں کی سزاؤں میں معافی کو منسوخ کرے۔جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اجتماعی عصمت دری اور اجتماعی قتل کے جرم میں مجرم ٹھہرائے گئے 11 افراد کی سزاؤں میں معافی کا اثر ہر اس عصمت دری کے متاثرین پر پڑے گا جسے کہا جاتا ہے کہ ‘نظام پر بھروسہ کریں’، ‘انصاف تلاش کریں اور ملک کے نظام پر بھروسہ رکھیں۔
یہ بیان سیدہ حمید، ظفرالاسلام خان، روپ ریکھا، دیوکی جین، اوما چکرورتی، سبھاشنی علی، کویتا کرشنن، میمونہ مولا، حسینہ خان، رچنا مدرابوینہ، شبنم ہاشمی اور دیگر نے جاری کیا ہے۔
شہری حقوق کے گروپوں میں سہیلی ویمن ریسورس سینٹر، گمنا مہیلا سموہ، بیباک کلیکٹو، آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن، اتراکھنڈ مہیلا منچ، خواتین کے ظلم کے خلاف فورم، پرگتیشیل مہیلا منچ، پرچم کلیکٹو، جاگرت آدیواسی دلت سنگٹھن، امومت سوسائٹی، امومت سوسائٹی شامل ہیں۔ مرکز برائے جدوجہد خواتین جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انصاف پر خواتین کا اعتماد بحال کیا جائے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان 11 مجرموں کی سزاؤں میں معافی کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور انہیں ان کی بقیہ عمر قید کی سزا کے لیے واپس جیل بھیج دیا جائے۔
ممبئی میں ایک خصوصی مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو بلقیس بانو کی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے الزام میں 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں بمبئی ہائی کورٹ نے ان کی سزا کو برقرار رکھا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022