بہار: سیوان میں فرقہ وارانہ تصادم کے الزام میں گرفتار ہونے والوں میں ایک 8 سالہ لڑکا بھی شامل

نئی دہلی، ستمبر 12: مکتوب میڈیا کی خبر کے مطابق ایک آٹھ سالہ مسلم لڑکا بہار کے سیوان ضلع میں ایک مذہبی جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تصادم کے بعد گرفتار کیے گئے افراد میں شامل تھا۔

دی وائر کے مطابق تشدد اس وقت شروع ہوا جب مہاویر اکھاڑہ کے جلوس کے ارکان نے برہڑیا قصبے کی ایک مسجد سے گزرتے ہوئے مبینہ طور پر فرقہ وارانہ نعرے لگائے۔ مبینہ طور پر جلوس کے کچھ ارکان لاٹھیوں سے لیس تھے۔

تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار ہونے والوں میں ایک آٹھ سالہ لڑکا اور اس کے 70 سالہ دادا بھی شامل تھے۔ مبینہ طور پر لڑکے کے اہل خانہ نے پولیس کو اس کا پیدائشی سرٹیفکیٹ دکھایا، لیکن اہلکاروں نے مبینہ طور پر اس کی رہائی کے لیے رقم کا مطالبہ کیا۔

تعزیرات ہند کی دفعہ 83 میں کہا گیا ہے کہ سات سے بارہ سال کے درمیان کی عمر کے بچے کے ذریعہ کیے گئے ایسے فعل کو جرم نہیں سمجھا جانا چاہیے، اگر وہ بچہ اس فعل کی نوعیت اور اس کے نتائج کو سمجھنے کے قابل نہ ہو۔

آٹھ سالہ بچے کے بھائی نے بتایا کہ بچے کو پرائیویٹ وارڈ میں رکھا گیا تھا اور گھر والوں کو ابتدائی طور پر اس سے ملنے سے روک دیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب میری ماں نے اسے دیکھا تو اسے ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ وہ اتنا خوفزدہ تھا کہ وہ اپنی ماں کو پہچاننے سے قاصر تھا۔ بچہ گھر واپس جانے کے لیے رو رہا تھا۔‘‘

بچے اور اس کے دادا کو مبینہ طور پر کمر کے گرد رسی باندھ کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ حالاں کہ جووینائل جسٹس ایکٹ میں آٹھ سال کے بچے کو بالغ عدالت میں پیش کرنے کی اجازت دینے والی کوئی شق نہیں ہے۔

دی وائر کے مطابق پولیس نے تشدد کے سلسلے میں 35 افراد کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سے 25 مسلمان اور دس ہندو ہیں۔

بی بی سی ہندی نے رپورٹ کیا کہ بیس افراد بشمول دس مسلمانوں اور اتنی ہی تعداد میں ہندوؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس نے تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ پولیس افسران کو سزا ملنی چاہیے اور لڑکے کے خاندان کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے ٹویٹر پر ریمارکس دیے کہ ’’نئے آنے والے ‘سیکولر چچا’ نتیش کمار کی سربراہی میں حکومت میں بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ انھیں عدالت میں رسی سے باندھ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پولیس فسادیوں کو گرفتار کرنے کے بجائے مسلمان بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔‘‘