بھارتی مسلمانوں کا مستقبل کیسا۔۔۔۔؟

سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

پروفیسرایاز احمد اصلاحی، لکھنو

انیسویں صدی کے نصف آخر سے تعلق رکھنے والے جرمنی کے عظیم ماہر لسانیات اور فلسفی فریڈرچ، ویلہم نیزشے نےبڑے پتے کی بات لکھی ہے کہ ’’ایک صاحب علم و فہم انسان کو اس لائق ہونا چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے دشمنوں سے پیار کرے بلکہ وہ اپنے دوستوں سے نفرت بھی کرنا جانے‘‘۔ دشمنوں سے پیار کرنا یا دشمنوں کا دل جیتنا تو ہم سب جانتے ہیں لیکن ’’دوستوں سے نفرت‘‘ کا مشورہ بادی النظر میں چونکانے والا لگتا ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب اپنوں کے برے کاموں سے نفرت و لاتعلقی اور ان سے ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ یہ در اصل انسانی سلوک کا اتنا عظیم مرتبہ ہے کہ اس تک پہنچنا کسی معاشرہ کے بس چند اور چنندہ خوش نصیبوں کے ہی حصے میں آتا ہے اور وہی اس زمین کا نمک ہوتے ہیں، کسی فرد میں یہ عظیم کردار پیدا کرنے میں ایک عظیم نظریہ حیات کا بڑا کلیدی حصہ ہوتا ہے۔ اپنے دشمنوں سے پیار کرنا ایک ایسا انسانی رویہ ہے جس کا تجربہ اس دنیا میں کبھی کبھی ہم سب کرتے ہیں؛ اس انسانی رویہ کی مثالوں سے اگر انسانی تاریخ بھری نہیں ہے تو بالکل خالی بھی نہیں ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں انبیاء و رسل کی تاریخ میں ملتی ہے اور اس کی سب سے شاندار اور منفرد مثال نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے دشمنوں کے ساتھ رحم کا برتاؤ کیا اور ان سے پیار کیا بلکہ ان کے حق میں ہمیشہ کلمہ خیر کہا۔ فریڈرچ کا یہ اخلاقی اصول بظاہر قرآن مجید کے اس تصور سے مستعار معلوم ہوتا ہے کہ’’ تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر ہر گز مجبور نہ کرے کہ تم عدل کرنا چھوڑ دو، عدل کرو کہ یہی تقوی سے قریب تر ہے‘‘۔ اس قول کے دوسرے حصے کی معنویت اسی عدل پر منحصر ہے جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے اور جس کے تحفظ کی ضمانت اسلام کے سول اور فوج داری دونوں قسم کے قوانین میں فراہم کی گئی ہے۔ عدل پر اس تاکید کی وجہ یہ ہے کہ جس سماج، یا ملک اور ریاست میں اس عدل کا میزان قائم رہتا ہے وہاں انسانیت زندہ رہتی ہے اور جہاں یہ مرتا ہے وہاں انسانیت کا ترازو بھی ڈگمگا اٹھتا ہے، جہاں عدل قائم ہوتا ہے وہاں آسمان یہ منظر بھی دیکھتا ہے جرم کرنے پر اپنے ہم مشربوں یا ہم مذہبوں کو سزا ملتی ہے اور غیر مذہب والوں کو نرمی اور رعایت کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس نظام کی بنیاد ظلم و نا انصافی ہو وہاں تمام رعایتیں ہم مشربوں کے لیے اور تمام نفرتیں غیر مذہب یا غیر مسلک والوں کے لیے خاص کرلی جاتی ہیں اور عدالتیں انصاف کے وقت آنکھوں پر غیر جانب داری کی پٹی باندھنے کی بجائے جانب داری کا چشمہ چڑھا لیتی ہیں جس سے انہیں مظلوم گنہ گار اور ظالم بے قصور دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں یہ بے عدلی اور اس کے بھیانک نتائج سے لاپروائی عام ہوتی ہے وہاں ہر سطح پر ظلم و طغیان اور عام سماجی بگاڑ پھوٹ پڑتا ہے اور اسی کے ساتھ منافقت و دو رنگی بھی تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ ایسے سماج میں نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک ہی دین کے ماننے والے محض مسلکی و فقہی اختلافات کی بناپر اپنے ہم مذہب لیکن مسلکی حریفوں کے لیے صلیب و دار کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور باطل کو انہیں برباد کرنے کا ابلیسی مشورہ بھی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ آج ملت اسلامیہ ہند میں بھی اس قماش کے لوگ پیدا ہوگئے ہیں اور ان کے تعلق سے رعایت یا غفلت برتنا اس ملت کے مستقبل کے لیے کافی مہلک ثابت ہوگا۔ یہی وہ گروہ اور اس کے مریدین و متوسلین ہیں جو باطل کی خوشنودی میں اسے اپنے ہی لوگوں پر وار کرنے کی صلاح دیتے ہیں تو کبھی مختلف مسلم تنظیموں پر بندشیں لگانے پر اکساتے ہیں۔ دہلی میں 30 جولائی 2022 کو بین المذاہب کانفرنس یا ’’انٹر نیشنل انٹر فیتھ کانفرنس‘‘ کے بینر کے ساتھ ‘آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل’ نامی گروہ کی ایک ایسی ہی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں باطل کے لیے میٹھی میٹھی بولیاں بولی گئیں لیکن اپنے ہی ہم مذہبوں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ کچھ نام نہاد مذہبی پیشواوں نے اپنے ضمیر کا سودا پہلے بھی کیا تھا اور وہ اب بھی کر رہے ہیں البتہ آج کل اس ملک میں اسلاموفوبیا کی تیز ہوتی لہر نے ان کی قیمت بازار بھاؤ سے بھی زیادہ بڑھادی ہے اور اب وہ نہ صرف کھلے عام بک رہے ہیں بلکہ سرکاری و غیر سرکاری گلیاروں میں ان کے استعمال کی بھی نئی نئی حکمت عملیاں بن رہی ہیں۔مسلم دشمنی کی اس مکرگاہ میں یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ اس بکے ہوئے مال کا استعمال کب کب اور کہاں کہاں کرنا ہے۔ صوفیوں کی اس کانفرنس کو بھی ہمیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یاد رہے اس کانفرنس میں اس کے اصل منتظمین اور اس گروہ کے ذمہ داروں کی طرف سے ملک کی ایک سیاسی و سماجی جماعت پر کھلے عام پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ وہ قانونی اور عدالتی چارہ جوئی کی بات کنہے کی بجائے اس پر اچانک پابندی کا مطالبہ کیوں کرنے لگے ہیں؟ اگر کوئی تنظیم غیر قانونی اور سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوتو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں ثبوت و شواہد د کی بنیاد پر قانون کے مطابق کارروائی کرےاس سے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ یہ کمزور اور بزدل مسلمان کس کے آلہ کار ہیں اور وہ ایسا کرکے در اصل مستقبل کے ان اندیشوں سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جس کا سامنا ایک سچے مسلمان کی حیثیت میں یہاں انہیں کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ان کم فہموں نے بہتری اسی میں سمجھی کہ ضمیر فروشی کرکے وہ بات کہی جائے اور وہ کام کیا جائے جو مسلم دشمنوں کو خوب پسند آئے اور وہ سرکاری و غیر سرکاری اسلاموفوبیائی عناصر کی نوازشوں کے سہارے آرام و سکون کی زندگی کے مزے لوٹتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ، چاہے خانقاہوں میں یا یونیورسٹیوں میں ہوں انہیں خوش کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہیں اس سے کیا غرض کہ قلیل مفادات کے لیے ان کی ان حرکتوں سے امت مسلمہ کو کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اس خاص ذہنیت کے ساتھ جینے والے مسلمانوں کی سرگرمیوں میں سے ایک ہے اپنوں سے دوری بنانا اور امت مسلمہ کے ازلی بدخواہوں سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کرنا۔ ہندوستان کے موجودہ حالات ضمیر کا سودا کرنے والے ایسے لوگوں کے لیے نہایت سازگار ہیں اور انہیں خوب معلوم ہے کہ ان دنوں وہ تمام اشخاص یا گروہ حکمراں جماعت اور اس کے ہم نواوں سے بھاری صلہ ہی نہیں بلکہ مستقبل کی بہت سی خصوصی مراعات اور تقرب خاص پاسکتے ہیں جو موقع دیکھ کر ان کی خواہش کے مطابق اپنی ہی ملت کو نشانہ بنائیں گے اور اپنی ہی جماعتوں، اداروں، مفکرین و مصنفین کے خلاف زبان درازی کرنے میں پیش پیش رہیں گے۔ آج جس طرح مسلمانوں میں ہی سے کچھ لوگوں کی زبانی مخصوص مطالبے کھلے عام کروائے جا رہے ہیں، کل امت کے ایسے ہی کچھ اور غیرت فروش لوگ آگے آکر ان سرکاری گرگوں کی ہاں میں ہاں ملائیں گے جو ایک خاص منصوبے کے تحت مولانا موددودی کی کتابوں اور اقبال کی شاعری پر پابندی کا مطالبہ کریں گے، بلکہ اب تو وہ یہ سب کھلے عام کرنے لگے ہیں اور بعید نہیں کہ وہ اسی قسم کی کانفرنسوں میں باقاعدہ قراردادیں پاس کرکے مفکر اسلام کی کتابوں پر عام پابندی کا مطالبہ کریں۔ مجھے تو اسکرین پر مستقبل کے یہ تمام دلخراش مناظر صاف صاف نظر آرہے ہیں البتہ اس اسکرین پر ان مناظر کی ہلکی سی جھلکیاں بھی نظر نہیں آرہی ہیں جو ان کے برعکس ہوں اور جو باطل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف بیداری و پیش بندی کا نظارہ پیش کر رہی ہوں۔ دلی کی اس کانفرنس کا قومی سیکوریٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال کی سرپرستی میں منعقد ہونا اور کانفرنس کے اختتام پر اعلامیہ جاری کر کے خود مسلم مذہبی پیشواوں کی طرف سے کسی بھی نتظیم یا ادارے پر پابندی کا مطالبہ کرنا ، حالانکہ ملکی قانون کے تحت ان کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق بھی دیا جانا ہے، اپنے آپ یہ واضح کر دیتا ہے کہ اس کانفرنس کی اصل غرض و غایت کیا تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عام طور سے بین المذاہب ڈائیلاگ کے ذریعہ مختلف فرقوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ان کے درمیان باہمی اعتماد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ ایک مستحسن کام ہے لیکن اس کانفرنس میں ایسا کچھ دور دور تک نظر نہیں آیا بلکہ بین المذاہب ڈائیلاگ کے نام سے یہ سرگرمیاں ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ محسوس ہوئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند بے نام صوفیوں اور سجادہ نشینوں کی اس کانفرنس میں بعض وہ حضرات بھی شریک ہوئے جو ملت اسلامیہ کی مظلوم و مقہور کیفیت پر رات دن اشک بار رہتے ہیں۔ کانفرنس کے شرکاء میں مولانا سلمان ندوی، پروفیسر محسن عثمانی، مولانا عامر رشادی اور جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا اصغر مہدی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ مجھے علم ہے کہ مذکورہ سیاسی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کانفرنس کے ذمہ دار سجادہ نشینوں کی طرف سے کانفرنس کے اختتام پر کیا گیا جس میں یہ ’غیر صوفی‘ ۔ ’سنی‘ افراد شریک نہیں تھے، لیکن ایک ایسی کانفرنس میں جو خود میں ایک خفیہ منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے اس میں بے سمجھے بوجھے ان حضرات کا شرکت کرنا حیرت انگیز بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ اتنی سادہ لوحی اور اس قدر غفلت؟ اس ’’سادگی‘‘ و غفلت کے ساتھ کسی سطح پر کسی معقول رہنمائی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ۔ ہمارے بعض بھائیوں نے اس پورے واقعے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے ان میں سے ایک صاحب کے بعد از کانفرنس دیے گئے اس بیان پر اطمینان ظاہر کیا ہے جس میں انہوں نے اس جلسہ کے اصل داعی سجادہ نشین نصیر الدین چشتی کی جانب سے پابندی کے مطالبے والے بیان سے علیحدگی ظاہر کرتے ہوئے اس جماعت پر پابندی کے مطالبات کی مخالفت کی ہے۔ ان کے اطمینان کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کانفرنس کے دیگر غیر صوفی شرکاء نے تو اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن میرے نزدیک یہ مسئلہ صرف پابندی کی حمایت میں نصیر الدین چشتی کے بیان کے خلاف رائے کے اظہار کا نہیں ہے اور کسی قسم کی پابندی کی مخالفت میں بیان دے دینا ہی کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ نصیر الدین کے بیان کی شدید مذمت کرکےاس سازشی کانفرنس میں اپنی شرکت پر نہ صرف یہ کہ افسوس ظاہر کرتے بلکہ کانفرنس کے منتظمین کی اس منافقانہ روش کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت بھی کرتے ۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر بھی ہمیں امید ہے کہ کم سے کم ملت اور اندیشوں سے گھرے اس کے مستقبل پر رحم کرتے ہوئے وہ ایسی غلطیاں دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔
ایک ایسی صورت حال جس میں ماہرین کے مطابق بھارت کی زمین کو مسلمانوں کے لیے دن بہ دن تنگ کیا جارہا ہے اور ایک ایسا ماحول جس میں ہندوتوا کے ارادے اور سرگرمیاں نیز نئے نئے سرکاری اقدامات میں مسلمانوں کے خلاف تعصب و نا انصافی کو صاف طور سے محسوس کیا جاسکتا ہے، اور جس میں مسلمانوں کے مستقبل کے اندیشوں نے اب تقریبا خطرناک حقیقت کی شکل اختیار کر لی ہے، کم سے کم اندرون ملت ایسی حرکتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اگر کوئی فرد یا گروہ ایسی کوئی حرکت کرتا ہے جس سے منفی قوتوں اور ان کے خفیہ ہم نواوں کو تقویت پہنچتی ہے تو ان کی شناخت اور ان کے سماجی مقاطعہ میں کسی رعایت سے کام لینا یا جانے انجانے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا اس خطرے کو مزید گہرا کرنے کا کام کرے گا۔ معروف صحافی سی جے ورلمین (C J Werleman) ان عالمی دانشوروں اور صحافیوں میں سے ایک ہیں جو دنیا کو برابر اس خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں. چنانچہ ان کے مضامین اور ٹویٹر کے پیغامات سے ڈر کر ہی ملک میں ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سی جے ورلمین نے ’مڈل ایسٹ آئی‘ میں چھپنے والے اپنے تازہ مضمون میں صاف طور سے لکھا ہے کہ ’’انڈیا، روانڈا کے خطرناک راستے پر گامزن ہے‘‘۔ واقعات کی تفصیل اور لفظوں کے انتخاب میں ممکن ہے ان سے ہمارا اختلاف ہو لیکن ان کے تجزیہ میں جس خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ایسا مہلک طوفان ہے جس کے آنے سے پہلے اہل عالم اور اہل ہند دونوں کا بیدار ہوجانا ضروری ہے۔ ہند میں مسلمانوں کے مخدوش مستقبل میں روانڈا کی تصویر نظر آرہی ہے یا 1992 سے 1995 کے درمیان کے خوں آلود بوسنیا کی؟ اس سوال سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ یقینا بھارتی مسلمانوں کو درپیش خطرہ ایک کھلی حقیقت ہے اور اس حقیقت سے صرف نظر کرنے کی بجائے اس کے تعلق سے اہل ملک کو بیدار و باخبر کرنا اس صحافی سے زیادہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کیا ان حالات سے بھی زیادہ پرخطر حالات ہو سکتے ہیں جس میں ہندوستان میں 30 کروڑ کی آبادی والی ایک قوم کی شہریت اور شریعت دونوں کو ایک ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہو؟ کیا اب اس سے بھی زیادہ دھماکہ خیز کوئی ماحول ہو سکتا ہے جس میں مسلم عورتوں کو حجاب کے ساتھ پڑھنا اور نکلنا مشکل کردیا گیا ہو اور مسلم مردوں سے نکاح و طلاق کے اپنے اسلامی احکام پر عمل کرنے کی آزادی چھین لی گئی ہو؟ کیا کسی قوم کے لیے اس سے بھی زیادہ توہین آمیز اور ذلت ناک نوبت آسکتی ہے جس میں انہیں عام حالت میں بھی وہ بنیادی شہری حق حاصل نہ ہو جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہے؟ یہاں وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں تو جیل جائیں، یا جان گنوائیں یا پھر ان کے گھروں پر بے رحمی سے بلڈوزر چلادیے جائیں اور دوسری قوم کے لوگ ہوں تو اربوں کھربوں کے ملکی املاک تباہ کرکے بھی ملک کی چہیتی سنتان بنے رہیں۔ اس کو جمہوریت نہیں فسطائیت کہا جاتا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عالمی سطح کے مقبول مسلم مصنفین و ادباء کی کتابیں پڑھنے یا انہیں تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے پر بھی پابندیوں کا سلسلہ تقریباً شروع کردیا گیا ہے۔ چونکہ اس پوری مہم کی روح رواں آر ایس ایس ہے جو بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی اصل سرپرست ہے اس لیے اس کی منفی منصوبہ بندیوں کا اولین نشانہ اصل اسلام پر عمل کرنے والوں، اس کی دعوت دینے والوں، اسلامی فکر و عمل کے فروغ کے لیے بنے ہوئے تمام اہم ادارے، مدارس، جماعتیں، مسلم مفکرین جیسے ، ابن تیمیہ، محمد بن عبد الوہاب، سید قطب ، مولانا مودودی، مرتضی مظہری وغیرہ ہیں۔ آج مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتابوں کومنفی پروپیگنڈے کا ہدف بنا کر ان پر پابندی لگانے اور بطور نتیجہ تحریک اسلامی کو کنارے لگانے کی بات سرکاری و غیر سرکاری ہندوتوا نے جس گہری منصوبہ بندی اور شدت کے ساتھ اٹھائی ہے اب بعید نہیں کہ جلد ہی اقبال کی شاعری پر بھی پابندی عائد کرنے اور اسے تمام یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں رائج اردو ادب کے نصاب تعلیم سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا جائے اور حکومت اسے تسلیم کرکے ایک اور فسطائیت مخالف، ہندتو مخالف اور طاغوت مخالف فکر کا گلا گھونٹنے میں کامیابی حاصل کرے۔ اسی طریقے پر چل کر ہندوتوا عناصر ملک میں مسلمانوں کے اندر خوف کا ایک ایسا ماحول بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں کہ انہیں خود اس ملت سے اپنے کارندے آسانی سے ملنے لگے جس کی عداوت ان کی گھٹی میں موجود ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ حکومت یا اس کے ایجنٹ ابھی جو باتیں محض زبان پر لا تے ہیں اور جو ابھی باقاعدہ قانون نہیں خطرے کے اس پہلو سے سب سے زیادہ بیدار رہنا پڑے گا۔ یہ طرز عمل بیداری ہی نہیں زندگی کی علامت ہے اور یہی زندگی قوموں کو روح عمل کے ساتھ زندہ رہنے کے لائق رکھتی ہے۔
(پروفیسر ایاز احمد اصلاحی لکھنؤ یونیورسٹی کے معروف محقق، صحافی اور ادیب ہیں۔ قرآنیات اور جدید و قدیم مشرق وسطیٰ کے امور پر مہارت رکھتے ہیں)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 اگست تا 20 اگست 2022