برطانیہ:ملکہ کا انتقال، نئے فرمانروا، نئی وزیراعظم
مسعود ابدالی
گزشتہ ہفتے سلطنت اور حکومتِ برطانیہ میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ستر برس کی تخت نشینی کے بعد ملکہ برطانیہ 8 ستمبر کو اسکاٹ لینڈ کے شاہی بلمورل قلعے Balmoral Castle میں انتقال کر گئیں۔ ایک سال پہلے اپنے شوہر شہزادہ فلپ کے انتقال کے بعد سے وہ تنہائی اور دباو کا شکار تھیں اور کچھ دنوں سے اتنی زیادہ بیمار تھیں کہ نئے وزیر اعظم لز ٹرس کی وزارت عظمی کی توثیق کے لیے وہ لندن کے بکنگھم محل تک بھی سفر نہ کرسکیں اور ملکہ کی دست بوسی کے لیے نومنتخب وزیر اعظم کو بلمورل قلعہ آنا پڑا۔
اپریل 1926ء میں جنم لینے والی ایلزبیتھ الیکزنڈرا المعروف ایلزبیتھ دوم اپنے والد جارج ششم کے انتقال پر 6 فروری 1952 کو سلطنت برطانیہ کی فرمانروا مقرر ہوئیں۔تاہم برطانیہ کی شاہی روایت کے مطابق سوگ کے دن گزر جانے کے بعد ان کی تاج پوشی 2 جون 1953ء کو ہوئی۔
پیدائش کے وقت ایلزبیتھ کے دادا شاہ جارج پنجم نے انہیں اپنے بڑے بیٹے ایڈورڈ ہشتم اور ان کے بھائی جارج ششم (والد ملکہ ایلزبیتھ) کے بعد ولی عہد نامزد کیا تھا۔ اس وقت خیال یہی تھا کہ ایلزبیتھ صاحبہ کی تخت نشینی بہت مشکل ہے کہ شادی کے بعد اگر شاہ ایڈورڑ اولاد سے سرفراز ہوئے تو وہ اپنے بھائی کے بعد بیٹے یا بیٹی کو ولی عہد نامزد کر دیں گے لیکن شاہِ شاہاں کے فیصلے کو کون ٹال سکا ہے۔
دادا کے انتقال پر جب 1936 میں ان کے چچا ایڈورڈ ہشتم نے تخت سنبھالا تب وہ اپنے باپ کے بعد تاج برطانیہ کے لیے دوسرے نمبر پر آ گئیں۔ ایڈورڈ صاحب کا ایک امریکی خاتون ولس سمپسن سے معاشقہ چل رہا تھا۔ تاجپوشی کے ساتھ ہی انہوں نے اس خاتون سے شادی کرنے کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے وہ شاہی مراعات سے محروم کر دیے گئے اور جارج ششم کی تاج پوشی کے ساتھ ہی ملکہ صاحبہ ولی عہد نامزد ہو گئیں۔ شہزادی ایلزبیتھ جب 25 برس کی عمر میں تخت نشین ہوئیں تو وہ برطانیہ کی تاریخ کی تیسری ملکہ تھیں۔ اس سے پہلے ایلزبیتھ اول 1558 سے 1603 اور محترمہ وکٹوریہ 1837 سے 1901 تک تخت نشین رہ چکی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ ملکہ وکٹوریہ ہی کے دور میں ہندوستان سلطنت برطانیہ کا حصہ بنایا گیا اور 1876 سے 1901 تک انہیں ملکہ ہندوستان کا خطاب عطا ہوا۔ ملکہ وکٹوریہ کے انتقال پر علامہ اقبال نے ان کا مرثیہ لکھا تھا۔
حالیہ تبدیلی میں کچھ تاریخی اتفاقات بھی ہوئے کہ برطانوی تاریخ کی تیسری ملکہ نے انتقال سے دو دن پہلے ملکی تاریخ کی تیسری خاتون وزیر اعظم کی توثیق کی۔ اس سے پہلے مارگریٹ تھیچر اور تھریسامے کی توثیق بھی آنجہانی ملکہ نے کی تھی۔ برطانیہ میں وزیر اعظم کے حلف اٹھانے سے پہلے فرمانروا کی توثیق ضروری ہے۔
ملکہ کے انتقال پر ان کے صاحبزادے 73 سالہ چارلس فلپس آرتھر جارج المعروف چارلس سوم نے برطانیہ کی بادشاہت سنبھال لی ہے۔ بادشاہ سلامت کو چھ ماہ کی عمر میں ولی عہد نامزد کیا گیا تھا گویا شہزادہ گلفام نے بہت صبر اور سعادتمندی سے 73 برس اپنی باری کا انتظار کیا اور اس اعتبار سے وہ طو یل ترین عرصے تک ولی عہد کے منصب پر فائز رہے۔ اس کے مقابلے میں تینوں ملکائیں بڑی کم عمری میں تخت نشیں ہوئیں۔ تاج پوشی کے وقت ملکہ ایلزبیتھ اول و دوم دونوں کی عمریں 25 سال تھیں۔ جب ملکہ وکٹوریہ کے سر پر تاج سجایا گیا اس وقت ان کی عمر 18 برس تھی۔ ملکہ ایلزبیتھ کے انتقال پر پون صدی بعد سلطنتِ برطانیہ کا قومی و ملی نعرہ بھی تبدیل ہو گیا یعنی اب God saves the Queen کے بجائے God saves the King پکارا جائے گا۔
برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے لہذا تاج دار کی تبدیلی سے ملکی سیاست اور خارجہ امور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لیے اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی نئی وزیر اعظم کا تقرر۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا 6 ستمبر کو حلف اٹھانے والی میری ایلزبیٹھ ٹرس المعروف لز ٹرس برطانوی تاریخ کی 56ویں اور تیسر ی خاتون وزیر اعظم ہیں۔ سیینتالیس سالہ لز ٹرس ان تینوں میں سب سے کم سن ہیں۔ وزارت عظمیٰ سنبھالتے وقت مارگریٹ تھیچر 54 اور تھریسامے 60 برس کی تھیں۔ اتفاق سے ان تینوں خواتین کا تعلق قدامت پسند ٹوری پارٹی سے ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ٹوری سے تعلق رکھنے کے باوجود لز ٹرس خود کو نظریاتی طور پر لبرل بلکہ بائیں بازو کی طرف مائل قرار دیتی ہیں۔ لز صاحبہ نے ایک لبرل خاندان میں آنکھ کھولی ہے۔ ان کے والد ریاضی کے پروفیسر اور والدہ نرس تھیں اور یہ دونوں بائیں بازو کے حامی تھے۔ ان کی والدہ تخفیف اسلحہ مہم کی سرگرم کارکن تھیں۔ جامعہ آکسفورد میں تعلیم کے دوران لز طلبہ سیاست میں سرگرم تھیں اور اس دوران انہوں نے لبرل ڈیموکریٹس کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ لبرل ڈیموکریٹس کے جلسوں میں وہ شاہی نظام کے خاتمے کے بات کرتی تھیں۔ 1994 میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دورران انہوں نے کہا تھا ’سب کو موقع ملنا چاہے۔ میں یہ نہیں مانتی کہ کچھ لوگ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔‘
لز ٹرس پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور انہوں نے کچھ عرصہ آئل کمپنی شیل میں ملازمت کی ہے۔ عملی سیاست میں داخلے کے لیے لبرل اور بائیں بازو کی طرف مائل لز ٹرس نے قدامت پسند ٹوری پارٹی کا انتخاب کیا۔ سیاست کے ابتدائی ایام ان کے لیے مایوس کن ثابت ہوئے۔ 2001ء اور اس کے بعد 2005ء کے انتخابات میں انہیں شکست ہو گئی لیکن جواں سال وحوصلہ مند لز ٹرس نے ہمت نہیں ہاری۔ ایک سال بعد وہ Greenwich سے کونسلر اور 2010ء میں ٹوری پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمان منتخب ہو گئیں۔ انتخابی مہم کے دوران ایک رکن پارلیمان سے ان کے معاشقے کا انکشاف بھی ہوا لیکن ان کے شریک حیات ڈٹ کر ان کے دفاع میں آئے اور انہوں نے اپنے مخالف کو 13 ہزار ووٹوں سے شکست دے دی۔
اس کامیابی کے صرف دو سال بعد انہیں نائب وزیر تعلیم کی ذمہ داری سونپی گئی اور 2014ء میں وہ وزیر (سکریٹری) ماحولیات مقرر ہوئیں۔ دو سال بعد انہیں وزیر انصاف اور 2021ء میں انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان عطا ہوا۔ اسی دوران وزیر اعظم بورس جانسن کے خلاف کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کے کئی واقعات سامنے آئے اور ثبوت اس قدر واضح تھے کہ انہیں اعتراف کرنا پڑا۔ بورس جانسن ٹوری پارٹی میں عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن عوامی دباو نے انہیں سبکدوشی پر مجبور کر دیا۔
وزیر اعظم جانسن کے اس اعلان پر لز ٹرس نے وزارت عظمیٰ کے لیے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں انہیں سات دوسرے امیدواروں کا سامنا تھا۔ آخری مرحلے میں ان کا مقابلہ وزیر خزانہ رشی سونک سے ہوا۔ بیالیس برس کے رشی سونک ہند نژاد اور راسخ العقیدہ ہندو ہیں۔ ان کے والد کینیا سے انگلستان آئے تھے جبکہ والدہ تنزانیہ سے آئی تھیں۔
برطانیہ کی ٹوری پارٹی میں وزیر اعظم کے انتخاب کا حتمی فیصلہ جماعت کے اجتماع ارکان میں ہوتا ہے اور صرف انہیں ارکان کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے جو اپنے واجبات وقت پر ادا کر چکے ہیں۔ اس وقت پارٹی کے ایسے ارکان کی تعداد 18000 ہے۔ براہ راست مقابلے میں لزٹرس نے 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کی گدی اپنے نام کر لی۔ چناو میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 83 فیصد کے قریب تھا
لز ٹرس کا سیاسی ماضی یو ٹرن U-Turns سے عبارت ہے۔ دور طالب علمی میں وہ مزدور انجمنوں کی حامی اور شہنشاہیت کی سخت مخالف تھیں لیکن عملی سیاست کے لیے انہوں نے قدامت پسند ٹوری پارٹی کا انتخاب کیا۔ جامعہ میں ’سرخ سویرا‘ کا نعرہ لگانے والی لز ٹرس نے ٹوری کے ٹکٹ پر رکن پارلیمان منتخب ہونے کے بعد اپنے چار قدامت پسند ارکانِ پارلیمان کے ساتھ مل کر Britannia Unchained کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں دیگر باتوں کے علاوہ برطانوی مزدوروں کو ’دنیا کے بدترین کاہلوں میں سے ایک‘ بیان کیا گیا تھا۔ مزدور انجمنوں کے احتجاج پر لز ٹرس نے اس سطر سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے الفاظ نہیں ہیں۔
بریگزیٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر لز ٹرس کی قلابازی بڑی دلچسپ تھی۔ لز ٹرس نے یورپی یونین میں رہنے یعنی بریکزٹ کے خلاف مہم چلائی۔ مشہور اخبار روزنامہ ’سن‘ میں انہوں نے لکھا کہ ’بریگزٹ برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں یورپ کو اشیاء فروخت کرتے وقت مزید قواعد، مزید مشکلات اور تاخیر کا سامنا ہو گا‘ لیکن جب ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے بریکزٹ قبول کرلیا تو لز ٹرس نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر کہا ’بریگزیٹ نے ہمارے انداز فکر کو تبدیل کر دیا ہے اور اب ہم معاملات کو نئے انداز میں دیکھ رہے ہیں۔‘
لز ٹرس کے ناقدین کا خیال ہے کہ محترمہ کو اپنی زبان پر قابو نہیں ہے اور وہ حساس موضوعات پر باتیں کرتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں بے احتیاطی کر جاتی ہیں۔ فرانسیسی صدر کی ان پر تنقید کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ ’صدر میکراں ہمارے دوست ہیں یا دشمن‘ تو انہوں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا کہ ’وقت فیصلہ کرے گا‘ ۔ اسکاٹ لینڈ کی وزیرِ اول (وزیر اعلیٰ) محترمہ نکولا سٹرجن Nicola Sturgeon اپنے صوبے کی برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کی خواہشمند ہیں۔ ایک صحافی نے جب لز ٹرس سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے نخوت سے کہا ’اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر توجہ کی بھوکی فرد ہیں، جنہیں نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔‘
نئی برطانوی وزیر اعظم کی تلون مزاجی اور غیر محتاط گفتگو اپنی جگہ لیکن ان کی اصل آزمائش دباو کا شکار برطانوی معیشت ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ کساد بازاری کا یہی حال رہا تو حجم کے اعتبار سے برطانوی معیشت ہندوستان سے پیچھے ہو جائے گی۔
بریکزٹ کی وجہ سے برطانوی برآمد کنندگان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور معاملہ صرف یورپی یونین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک سے تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش ہے۔ اس لیے کہ تجارت یورپی یونین معاہدے کے تحت ہو رہی تھی اور یہ معاہدات اب عملاً غیر موثر ہو گئے ہیں۔ کورونا سے پہنچنے والے نقصان کاماتم ابھی جاری تھا کہ روس-یوکرین جنگ نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق توانائی چھ گنا مہنگی ہو چکی ہے۔ تجارتی معاہدوں کی پریشانی اپنی جگہ، توانائی مہنگی ہونے کی وجہ سے مصنوعات کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے، نتیجے کے طور پر برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
وزارت عظمیٰ کی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے مہنگائی کو اپنا اولین ہدف قرار دیا تھا۔ اس کے حل کے لیے انہوں نے ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے وعدے کے ساتھ بہت سختی کے ساتھ صاف صاف کہا تھا کہ ’وہ غیر ضروری رعایتوں پر یقین نہیں رکھتیں‘۔ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے حکومتی اخراجات کو بڑھانے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔
ان کے مخالفین سوشل میڈیا پر پوچھ رہے ہیں کہ ان کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے جس کے ذریعے وہ رعایت (سبسیڈی) اور تنخواہوں میں اضافے کے بغیر مہنگائی کے مارے عوام کو راحت عطا کریں گی؟
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
لز ٹرس کا سیاسی ماضی یو ٹرن U-Turns سے عبارت ہے۔ دور طالب علمی میں وہ مزدور انجمنوں کی حامی اور شہنشاہیت کی سخت مخالف تھیں لیکن عملی سیاست کے لیے انہوں نے قدامت پسند ٹوری پارٹی کا انتخاب کیا۔ جامعہ میں ’سرخ سویرا‘ کا نعرہ لگانے والی لز ٹرس نے ٹوری کے ٹکٹ پر رکن پارلیمان منتخب ہونے کے بعد اپنے چار قدامت پسند ارکانِ پارلیمان کے ساتھ مل کر Britannia Unchained کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں دیگر باتوں کے علاوہ برطانوی مزدوروں کو ’دنیا کے بدترین کاہلوں میں سے ایک‘ بیان کیا گیا تھا۔ مزدور انجمنوں کے احتجاج پر لز ٹرس نے اس سطر سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے الفاظ نہیں ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022