بین المذاہب یکجہتی اور رواداری کی ایک کوشش۔ ایک کانفرنس

موجودہ حالات کے تعلق سے عمائدین ملّت کی فکر مندی بجا لیکن روڈ میپ کیا ہو؟

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

ہندوستان میں گزشتہ چند برسوں سے باہمی منافرت کا ماحول ترقی پذیر ہے۔ ہندو مسلم دونوں قومیں صدیوں سے اگرچہ دوش بدوش رہتی آئی ہیں پھر بھی ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اجتماعی قتل عام کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ان شہروں کا نام تبدیل کیا جاتا ہے جن سے کسی مسلمان کی تہذیبی شناخت معلوم ہوتی ہے، این سی آر ٹی کی نصابی کتابوں سے مسلمانوں کی تاریخ سے وہ عنوانات حذف کردیے جاتے ہیں جن سے مسلمانوں کے تاریخی کارنامے اجاگر ہوتے ہیں، مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے ان کو ظلم ونا انصافی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے ان کو حاشیہ پر پہنچا دیا گیا ہے اور اسلام اور مسلمانوں پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔مسلمانوں کی اجتماعی زندگی ایک ملبے میں تبدیل ہو گئی ہے۔
یہ وہ صورت حال ہے جس سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مسلم تنظیمیں اور شخصیتیں ان حالات پر کانفرنسیں منعقد کر چکی ہیں اور آخر میں خانقاہوں کے سجادہ نشین بھی خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں آگئے ہیں چنانچہ دہلی میں سجادہ نشینوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس بہت معتبر اور موقر ہو جاتی اگر وہ عدل وانصاف کی ڈگر سے نہیں اترتی۔ وہاں اگر پاپولر فرنٹ آف آنڈیا پر پابندی لگانے کا کسی نے مطالبہ کیا تھا تو ان لوگوں کو جن کو اس کانفرنس میں بولنے کا موقع دیا گیا تھا۔ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں پر پابندی کا مطالبہ بھی لازمی طور پر اٹھانا چاہیے تھا۔ کلیم صدیقی کی گرفتاری اور دوسرے مظالم کا تذکرہ کرنا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، نتیجے میں اس کانفرنس کی شبیہ خراب ہو گئی۔
دہلی میں کئی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں لیکن کوئی بھی کانفرنس ہماری تحریر کا موضوع نہیں ہے، مجھے سجادہ نشیں حضرات کو ان کا مقام یاد دلانا ہے۔ میرے نزدیک حالات کا ادراک تو سب کو ہے، پریشانی سب کو ہے، ایک دریائے اضطراب ہے جس کی موجیں ہر دل کے ساحل سے ٹکر ارہی ہیں لیکن کیا یہ بھی سب کو ادراک ہے کہ موجودہ حالات کیوں پیدا ہوئے ہیں، بیچارگی اور کسمپرسی کے اسباب کیا ہیں امت زوال سے کیوں دوچار ہوئی ہے؟ میرا خیال ہے کہ غالب اکثریت اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکتی کہ موجودہ حالات کیوں پیدا ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے علماء اور دانشو، تنظیموں کے رہنما، قائدین اور مفکرین اس سوال کا صحیح جواب دینے سے قاصر ہیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ امت میں کسی صالح اور مصلح عالم نے پیغمبر کی زندگی کو اپنا اسوہ نہیں بنایا۔ پیغمبر کا اسوہ تو یہ ہے کہ انہوں نے مکہ کے کفار اور مشرکین کو دین توحیدکی دعوت دی۔ جب قوم نے بات نہیں مانی تو آپ طائف گئے اور وہاں جا کر وہاں کے قبائل کے روساء کو دعوت اسلام دی، شرک سے اور بتوں کی عبادت سے روکا۔ تمام انبیاء کرام نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی ۔’’صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ‘‘ ہندوستان میں ہمارے مصلحین اور مجددین نے بہت عظیم کارنامے ضرور انجام دیے لیکن اس پیغمبرانہ مشن پر جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا کوئی ایک مجدد اور مصلح بھی کھڑا نہیں ہوا، اور اسلامی تاریخ میں پیغمبرانہ مشن کی گاڑی’’ڈیریلمنٹ‘‘ کا شکار ہو گئی۔ ہم نے خیر امت کا کردار نہیں ادا کیا اور یہ امت جو تمام بنی نوع انسان کو دعوت توحید دعوت و رسالت اور دعوت ایمان بالآخرت دینے کے لے برپا کی گئی تھی، "اخرجت للناس” جس کا شعار تھا وہ عملا مسلمانوں کے درمیان محصور اور محدود ہو گئی۔ تاریخ کے آغاز میں خواجہ معین الدین چشتی اور کچھ بزرگوں نے پیغمبرانہ مشن کا بیڑا اٹھایا تھا اس کے بعد کئی سو برس گزرگئے کوئی بھی اس راہ پر خار پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ علماء پیدا ہوئے انہوں نے سیرت پر کتاب بیس جلدوں میں لکھیں قرآن کی تفسیر بیس جلدوں میں لکھیں بخاری اور مسلم کی شرح بیس جلدوں میں لکھیں فتاوی کی کتاب بیس جلدوں میں مرتب کی لیکن کسی نے بیس زندہ انسانوں تک دین توحید کو پہنچانے کا کام نہیں کیا۔اور اب تو اس ضرورت کا احساس بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب کلیم صدیقی کا مشن مشکل ہو گیا ہے لیکن جب یہ مشن آسان تھا اور حکومت اور اقتدار کی طاقت بھی حاصل تھی اس وقت یہ انجام نہیں دیا گیا جس کا حکم قرآن میں ہے جو ہر پیغمبر کا اور آخری پیغمبر کا اسوہ بھی ہے۔ اسلام میں کسی کے مذہب اور دھرم کو زبردستی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن دین اسلام کا تعارف کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ یہ کام اس ملک میں کیسے ہو اس پر غور وفکر اور باہمی مشاورت کی ضرورت ہے یعنی وہ پیغمبرانہ مشن جس سے دوری اور روگردانی اختیار کی گئی ہے اس کی منصوبہ بندی کیسے ہو۔
علماء کے طبقہ میں اس حقیقت کا ادراک مولانا مناظر احسن گیلانی کو حاصل تھا جنہوں نے تقریباً ستر سال پہلے معارف میں ایک مضمون لکھا تھا کہ اسپین میں مسلمانوں نے شاندار تعمیری کارنامے انجام دیے، مسجد قرطبہ تعمیر کی مدینۃ الزہراء جیسا حسین وجمیل محل بنایا اور ایک سے ایک تعمیر کے شاہکار بنائے لیکن اگر مسلمانوں نے یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا اور وہ کام کیا ہوتا جو رسول اللہ نے مکی زندگی میں اور مدنی زندگی میں انجام دیا تھا تو مسلمانوں کی حکومت اسپین سے ختم نہیں ہوتی۔ اب مولانا مناظر احسن گیلانی کی بات کو ہندوستان پر چسپاں کر دیجیے اور یوں کہیے کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے چاہے تاج محل نہیں تعمیر کیا ہوتا، قطب مینار نہیں بنایا ہوتا، لال قلعہ کی تعمیر نہیں کی ہوتی لیکن وہ کام کیا ہوتا جو مکہ میں رسول اللہ نے کیا تھا اور جو مدینہ میں دعوت کا کام انجام دیا تھا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت ختم نہیں ہوتی۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی اکثریت اسی طرح ہوتی جیسے مصر وعراق وشام اور افریقی ملکوں میں ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید کے صفحات اس دعوت توحید کے شاہد ہیں جو پیغمبروں نے اپنے اپنے زمانہ میں دی تھی۔ لیکن ہندوستان کی تاریخ کے صفحات اس پیغمبرانہ مشن سے خالی ہیں۔مصلحین پیدا ہوئے مجددین پیدا ہوئے جنہوں نے حفاظت دین کا بیش قیمت کام انجام دیا لیکن حفاظت دین کا کام اور ہے اور دعوت دین کا کام اور ہے۔ یہ بات لوگوں کو عجیب معلوم ہو گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک میں علمی کام بہت انجام دیا ہے، مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھایا ہے لوگوں کی تربیت بھی کی ہے لیکن بت خانہ میں توحید کی اذان بلند نہیں کی، اصنام پرستوں کو خدائے واحد کی عبادت کی دعوت نہیں دی ہے۔ اس پیغمبرانہ مشن سے دوری اختیار کی جس کا تذکرہ قرآن کے اوراق میں جا بجا موجود ہے۔ بحثیت مجموعی مسلمانوں نے خیر امت کا کردار ادا نہیں کیا ہے۔ تاریخ کی ابتدا میں صوفیا کرام نے یہ کام انجام دیا تھا اب ان کے وارثوں کو اس کام کا شعور تک نہیں ہے
تھے تو آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
بلا شبہ اس کام کا آغاز کرنے کے لیے ملک میں مصالحت اور مفاہمت کی فضا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے صرف آواز بلند کرنا کافی نہیں ہے میدان عمل میں بھی اترنا ہوگا اور تعلقات کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ صوفیاء کرام کی کانفرنس نے اس کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں پیش کیا ہے۔ اب ہم مسلم قائدین سے ضروری بات کرنا چاہتے ہیں اور انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔ مسلمانوں کے زوال کے کچھ تو ظاہری اسباب ہیں او کچھ معنوی اور حقیقی اسباب ہیں۔ ظاہر اسباب پر سب کی نظر جاتی ہے ہزار بار یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ مسلمان تعلیم میں پسماندہ ہیں معیشت میں دوسروں سے بہت پیچھے ہیں، سائنس و ٹکنالوجی میں دوسری قوموں کے مقابلے میں گرد کارواں بھی نہیں ہیں۔ بلا شبہ ان رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مسلمان اپنی تاریخ میں بنو عباس کے دور آخر میں سائنسی علوم میں سب سے آگے تھے لیکن تاتاریوں کی ایک ضرب نے مسلمانوں کو آسمان سے زمین پر گرا ڈالا۔ مسلمان اسپین میں سائنس اور صنعت میں قافلہ سالار کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اسپین میں مسلمانوں کو ملک سے کوچ کرنا پڑا اور اب اغیار اس ملک کو اسپین بنانے کی تیاری کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی بربادیوں کے مشورے ہیں دشمنوں کی کمین گاہوں میں۔ ضروری ہے کہ مسلمانوں میں ایک گروہ لازمی طور پر موجود ہو جو پیغمبروں کی طرح حق کی آواز بلند کرے دین توحید کی دعوت دے لوگوں کو شرک سے روکے اور آخرت کے انجام سے ڈرائے۔ اسی کام پر اللہ کی مدد نازل ہو گی۔ پیغمروں کا کام یہی ہے یہ کام کیسے ہو اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔ ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم یعنی اگر تم اللہ کی مدد کرو گے یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاوگے تو اللہ تمہیں غالب کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا کرے گا۔
ہندوستان کی تاریخ میں ابتداء میں صوفیا کرام نے یہ پیغمبرانہ کام انجام دیا تھا اس سے مسلمان غالب اور سربلند ہو گئے تھے۔ اب ان کے وارثین اور خانقاہوں کے سجادہ نشین اپنے بزرگوں کی وراثت کو اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ان کے اندر اس وراثت کا شعور پیدا ہو جائے۔ خانقاہوں کے سجادہ نشینوں کے نام کانفرنس کے شریک وسہیم کا یہی پیغام ہے: ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری‘‘

 

***

 ہندوستان کی تاریخ میں ابتداء میں صوفیا کرام نے یہ پیغمبرانہ کام انجام دیا تھا اس سے مسلمان غالب اور سربلند ہو گئے تھے۔ اب ان کے وارثین اور خانقاہوں کے سجادہ نشین اپنے بزرگوں کی وراثت کو اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ان کے اندر اس وراثت کا شعور پیدا ہو جائے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 اگست تا 20 اگست 2022