عورت مشرقی روایات کی زد میں

مسلم خواتین معاشرے میں وسیع تر رول ادا کرنے کے قابل بنیں

سہیل بشیر کار، بارہمولہ، کشمیر

اللہ رب العزت نے اگر مردوں پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں تو عورتوں کو بھی ان سے مستثنٰی نہیں رکھا ہے۔ ایک پاکیزہ معاشرہ کے لیے چند پابندیاں لازمی ہیں لیکن مذہب کے محدود تصور کی وجہ سے انسان نے ان پابندیوں کو اپنے خود ساختہ نظریہ سے دیکھا اور مقامی رسوم و رواج نے بھی مذہب میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ مشرق میں خواتین میں رائج مختلف پابندیوں کو دین سمجھ لیا گیا ہے، اگرچہ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ دین اسلام ہی واحد دین ہے جو خواتین کو تحفظ اور حقوق دیتا ہے اور انہیں ذمہ داریاں بھی بتاتا ہے لیکن عملاً خواتین کا ہمارے دینی معاشرے میں زیادہ تر کوئی سرگرم رول نظر نہیں آتا۔ دور نبوت میں عورت ایک متحرک اکائی کی حیثیت سے معاشرہ کی تعمیر میں اپنا رول ادا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ عمر فاروقؓ کو اسلام میں لانے کا باعث بنتی ہے، کبھی وہ حدیبیہ کے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتی ہے جس سے صحابہ دوبارہ اطاعت کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ وہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ ہی تھیں جنہوں نے پہلی وحی کے موقع پر رسولؐ کو یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا تھا کہ ’’آپ کو بشارت ہو آپ ہرگز نہ خوف کھائیے، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ ہمیشہ سچ بولتے ہیں لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں۔ امین ہیں لوگوں کی امانتیں ادا کرتے ہیں۔ مہمانوں کی ضیافت کا حق ادا کرتے ہیں۔ حق بجانب امور میں آپ ہمیشہ معین اور مددگار رہتے ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
دور نبوی میں خواتین جہاں میدان جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری کرتی ہوئی نرس کی ذمہ داری پوری کرتی تھیں تو کبھی کامیاب تاجر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منواتی تھیں۔ کوئی دباغت کرنے میں ماہر تو کوئی کاشتکاری کی ماہر۔ غرض تمام ہی میدانوں میں خواتین اپنی موجودگی کو منواتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بد قسمتی سے جہاں مغرب نے خواتین کا استحصال کیا، عورت کو کموڈیٹی بنایا وہیں مشرقی روایات نے بھی خواتین کو عملاً عضو معطل بنا دیا۔
ایک خاتون خدمت اقدسؐ میں حاضر ہو کر اپنے آپ کو شادی کے لیے پیش کرتی ہے لیکن آج ہمارے معاشرے میں ایسا سوچنے والی خاتون کو بد کردار تصور کیا جاتا ہے۔آج خواتین اپنا نام لکھنے کی بجائے ام، بنت فلاں لکھتی ہیں۔ اگرچہ یہ چلن دور نبوی میں بھی تھا مگر اس کی وجہ اپنا نام چھپانا نہیں ہوتا تھا۔ دور نبوی کی خواتین کی نظر میں نام ظاہر کرنے میں کوئی برائی نہیں تھی، بلکہ صحابیات، ام المومنین اپنے ناموں سے پہچانی جاتی تھیں۔ اگر آج کوئی خاتون اپنے نام سے سوشل میڈیا کا استعمال کرے تو بعض لوگوں کو یہ عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر دعوت نامہ پر لڑکے کا نام لکھا جاتا ہے لیکن لڑکی کا نام لکھنے کو معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ اسلام میں عورت ہاتھ اور چہرہ کو کھول سکتی ہے، لیکن ہمارے معاشرہ میں اگر کوئی خاتون عبایا پہنے تو اس کی دینداری کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ مشرقی روایات کے زیر اثر کچھ علما نے یہاں تک لکھا ہے کہ عورت جب باہر نکلے تو اس کو چاہیے کہ سوائے آنکھ کے ہر چیز کا پردہ کرے۔ پردہ کے نام پر استحصال کا نتیجہ یہی ہو گا کہ مٹھی بھر خواتین تو اس کے لیے راضی ہو جائیں گی لیکن ایک بڑی تعداد دین فطرت سے نالاں ہو کر پردہ پہننے گریز کریں گی۔ دور نبوی میں خواتین مساجد کو آکر نہ صرف نماز ادا کرتی تھیں بلکہ معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔ خلیفہ وقت سے سوال پوچھتیں۔ فتنہ کے نام پر ہم نے خواتین کو مساجد آنے سے روکا حالانکہ یہی خواتین بازار میں نظر آتی ہیں۔ آج بھی امت مسلمہ کے بڑے طبقہ میں یہ بات رائج ہے کہ خاتون کی کمائی حرام ہے حالانکہ دور نبوی میں خواتین روزی روٹی کماتی تھیں۔ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک خاتون پیسہ کما بھی سکتی ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا کام شروع کیا تو سیدہ خدیجہؓ عنہا نے اپنا پورا مال پیش کیا اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا استعمال بھی کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مالی اعتبار سے خوش حال نہ تھے۔ ان کی زوجہ حضرت زینبؓ دست کاری میں ماہر تھیں، جس سے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں۔ ان کی ساری کمائی شوہر اور بچوں پر خرچ ہو جاتی تھی اور صدقہ وخیرات کے لیے کچھ نہ بچتا تھا۔ ایک بار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ میری ساری کمائی گھر ہی میں شوہر اور بچوں پر خرچ ہو جاتی ہے، اس بنا پر میں دوسروں میں کچھ صدقہ نہیں کر پاتی۔ کیا مجھے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا؟ آپﷺ نے جواب دیا: اَنْفِقِی عَلَیْہِمْ، فَاِنَّ لَکَ فِی ذٰلِکَ اَجْرُمَا اَنْفَقْتِ عَلَیْہِمْ۔ غیر ضروری پابندیوں سے خاتون رکی تو نہیں البتہ دین اسلام کے لیے وہ جزو معطل بن گئی۔ قرآن پاک میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کا بہترین انداز میں ذکر آیا ہے جو اپنے والد کی پیرانہ سالی کی وجہ سے مویشیوں کو خود ہی چراتی تھی۔ مشترکہ خاندانی نظام کے نام پر عورت کا استحصال کیا گیا۔ اسے نہ صرف اپنے شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے بلکہ ساس، سسر، دیور، نند وغیرہ کی بھی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ اگر کبھی شوہر بیوی کی مدد کرتا ہے تو اس کو طعنہ دیا جاتا ہے حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو گھریلو کاموں میں مدد کرتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ اپنی ازواج کے کاموں میں مدد کرتے۔ کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے، گھر کی دیگر ضروریات پوری کرتے۔ قرنِ اول میں خواتین واعظ و مبلغ ہی نہیں بلکہ مفسر اور محدثات بھی تھیں۔ لیکن اگر آج کوئی خاتون ایسا کرے تو عیب سمجھا جاتا ہے, وہ خلیفہ وقت کے اجتہاد کو بھی چیلنج کرتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ خطاب فرما رہے تھے، حاضرین میں مرد و خواتین بھی شامل تھے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم لوگ عورتوں کے مہر زیادہ رکھتے ہو جب کہ نبی ﷺ اور ان کے اصحاب چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہیں کرتے تھے، زیادہ مہر مقرر کرنا ثواب کا کام ہوتا تو وہ ضرور ایسا کرتے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ سے فارغ ہوئے تو قریش کی ایک عورت نے اعتراض کیا اور کہا: اے امیر المومنین! کیا آپ نے لوگوں کو اپنی بیویوں کا مہر چار سو درہم سے زیادہ رکھنے سے منع کردیا ہے؟ عمر رضی اللہ نے کہا: ہاں، تو عورت نے پوچھا: کیا اللہ نے اس سلسلہ میں جو کچھ نازل کیا ہے وہ آپ نے نہیں سنا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کیا؟ تو خاتون نے یہ آیت پڑھی:
واتیتم احداھن قنطاراً فلا تاخذوا منه شیئاً۔ (النساء: ۲۰)
’’اور خواہ تم نے ان عورتوں میں کسی کو ڈھیر سا مال بھی دے دیا ہو تو اس میں سے کچھ نہ لو۔‘‘
یہ سن کر حضرت عمرؓ بولے تم لوگ عمر سے زیادہ فقیہ ہو اور پھر منبر پر چڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا؛ لوگو! میں نے تم کو چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر کرنے سے منع کیا تھا، اب جس کا جتنا جی چاہے مہر مقرر کر لے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے فقر و فاقہ کی شکایت کی پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے راستوں کی بدامنی کی شکایت کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے؟ (یہ کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے کہا کہ دیکھا تو نہیں البتہ اس کا نام سنا ہے۔ فرمایا اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ (ایران) سے سفر کرے گی اور مکہ پہنچ کر کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔‘‘(بخاری) بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ سفر محفوظ ہے یا نہیں اگر ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اب تو لوگوں کے سوچ میں تھوڑی تبدیلی آئی ہے لیکن پہلے اگر کوئی خاتون گاڑی ڈرائیو کرتی تو لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھتے۔ حالانکہ دور رسالت میں وہ اونٹ کی سواری کرتی تھی۔ کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے حالانکہ دور نبوی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ مردوں کو بھی پڑھاتی تھیں۔ اسی طرح شرم و حیا کے نام پر بہت سے امور ہیں جنہں ڈسکس کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ وہ مسائل قرآن کریم میں کھل کر بیان کیے گئے ہیں۔ اختلاط کے بارے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ ایک مرد ایک خاتون کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے۔ اس کے برعکس اگر کسی جگہ بہت ساری خواتین ہوں اور بہت مرد اور وہ دور دور بھی ہوں تو ایسا بیٹھنا اختلاط کی تعریف میں نہیں آتا۔ آج بھی ہمارے معاشرہ میں بیوی سے مشورہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے باوجود حضراتِ صحابہؓ میں سے کسی نے نہ قربانی کی اور نہ بال منڈوائے تو آپ اس صورت حال سے کافی پریشان ہوئے۔ خیمہ میں آکر اپنی زوجہ حضرت ام سلمہؓ سے اس سلسلے میں مشورہ کیا۔ انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ یا رسول اللہ! آپ باہر تشریف لے جائیے، قربانی کیجیے، حلق کروائیے اور واپس آجائیے۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا۔ یہ دیکھ کر حضراتِ صحابہؓ بھی اٹھے، قربانی کی اور پھر بال منڈوائے۔ کوئی خاتون طلاق یافتہ ہو یا جس کا شوہر فوت ہوا ہو، اگر اس کے بچے ہوں تو اس کی دوسری شادی ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھی جاتی ہے۔ سسرال کی طرف سے مختلف بہانے کیے جاتے ہیں تاکہ وہ دوسری شادی نہ کر پائے۔ معاشرہ میں مطلقہ کا نکاح کرنا انتہائی مشکل بن گیا ہے حالانکہ اسلام میں اس کی تلقین کی گئی تھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’علی! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے‘‘۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دین کے نام پر مشرقی رسومات کی قید سے اپنے معاشرہ کو آزاد کریں تاکہ خواتین بھی معاشرے کی تعمیر میں اپنا رول حدود میں رہ کر ادا کر سکیں۔ یہ دین آیا ہی ہے اس لیے کہ انسانوں کو رسومات بد سے آزاد کرے۔تنگدستی ختم ہو، آسانیاں رواج پائیں، جب ایسا ہو گا تو خواتین اسلامی معاشرے سے خوف محسوس نہیں کریں گی۔

 

***

 دور نبوی میں خواتین جہاں میدان جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری کرتی ہوئی نرس کی ذمہ داری پوری کرتی تھیں تو کبھی کامیاب تاجر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منواتی تھیں۔ کوئی دباغت کرنے میں ماہر تو کوئی کاشتکاری کی ماہر۔ غرض تمام ہی میدانوں میں خواتین اپنی موجودگی کو منواتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بد قسمتی سے جہاں مغرب نے خواتین کا استحصال کیا، عورت کو کموڈیٹی بنایا وہیں مشرقی روایات نے بھی خواتین کو عملاً عضو معطل بنا دیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  08 تا 14 مئی  2022