آسام میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف گرفتاریاں تباہی کا باعث بن رہی ہیں: گوہاٹی ہائی کورٹ

نئی دہلی، فروری 15: گوہاٹی ہائی کورٹ نے منگل کو کم عمری کی شادی کے چار الگ الگ مقدمات میں پیشگی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ کے تحت الزامات کا جواز نہیں ہو سکتی۔

3 فروری سے آسام پولیس نے گرفتاریوں کے ساتھ کم عمری کی شادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ 12 فروری تک 3,000 سے زیادہ لوگوں کو یا تو پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسول آفنسز ایکٹ یا پرہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے کہا تھا کہ جہاں 14 سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں کے خلاف پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسول آفنس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا، وہیں جنھوں نے 14 سے 18 سال کی لڑکیوں سے شادی کی ان کے خلاف چائلڈ میرج کی ممانعت کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق POCSO ایکٹ کے تحت الزامات اس مفروضے پر لگائے جا رہے ہیں کہ 14 سال سے کم عمر کے نابالغ جو شادی شدہ ہیں، ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔

منگل کی سماعت میں ہائی کورٹ نے آسام کے بونگائیگاؤں، موریگاؤں، ناگاؤں اور کامروپ اضلاع سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو ضمانت دی۔

جسٹس سمن شیام نے حکام سے کہا کہ وہ وضاحت کریں کہ ملزمین پر پوکسو ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ کیوں درج کیا گیا۔

عدالت نے کہا ’’یہاں POCSO [جرم] کیا ہے؟ صرف اس وجہ سے کہ POCSO شامل کیا گیا ہے کیا اس کا مطلب ہے کہ جج نہیں دیکھیں گے کہ معاملہ کیا ہے؟ ہم یہاں کسی کو بری نہیں کر رہے ہیں۔ کوئی آپ کو تحقیقات سے نہیں روک رہا ہے۔‘‘

جسٹس شیام نے یہ بھی سوال کیا کہ ریاستی حکام کو مقدمات میں فوری حراست میں پوچھ گچھ کی ضرورت کیوں ہے۔

شیام نے کہا ’’اگر شادی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہو رہی ہے تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔ یہ کیسز وقت سے ہو رہے ہیں۔ ہم صرف اس بات پر غور کریں گے کہ فوری حراستی پوچھ گچھ کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اس وقت یہ عدالت مانتی ہے کہ یہ حراستی پوچھ گچھ کے معاملات نہیں ہیں۔‘‘

ہائی کورٹ نے مزید کہا ’’آپ [ریاست] قانون کے مطابق آگے بڑھیں، چارج شیٹ دائر کریں، اگر وہ مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں، تو وہ سزا یافتہ ہیں۔ اس سے لوگوں کی نجی زندگی تباہ ہو رہی ہے، بچے ہیں، خاندان کے لوگ ہیں اور بوڑھے بھی ہیں۔‘‘

ریاست بھر میں ہزاروں خواتین نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ذریعے کم عمری کی شادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتار کیے گئے مرد ان کے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔

جنوری میں آسام کے وزیر اعلیٰ نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف حکومت کی مہم کے جواز کے طور پر نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے ’’خطرناک‘‘ نتائج کا حوالہ دیا تھا جو 2019-20 میں کیا گیا تھا اور گذشتہ سال جاری کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں آسام میں کم عمری میں حمل کی شرح 11.7% تھی – جو کہ قومی اوسط 6.8% سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

لیکن کارکنوں نے کہا ہے کہ پولیس کا کریک ڈاؤن نامناسب ہے کیوں کہ اس نے کم عمری کی شادیوں کے پیچھے غربت اور ناخواندگی جیسی بنیادی وجوہات کو حل نہیں کیا۔