آسام: کم عمری کی شادی کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن میں ایک ہزار سے زیادہ گرفتار، ہمنتا بسوا سرما نے کہا کہ ہم مزید گرفتاریاں کریں گے

نئی دہلی، اکتوبر 3: آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے منگل کو کہا کہ آسام میں مبینہ طور پر کم عمری کی شادیوں سے متعلق معاملات میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

بارپیٹا کے پولیس سپرنٹنڈنٹ امیتابھ سنہا نے اسکرول کو بتایا کہ پیر کی شام سے اب تک صرف ان کے ضلع میں تقریباً 150 مردوں اور ان کے خاندان کے افراد کو مبینہ طور پر اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اس سال اس طرح کا یہ دوسرا کریک ڈاؤن ہے۔ 11 ستمبر کو ریاستی حکومت نے قانون ساز اسمبلی کو مطلع کیا کہ کریک ڈاؤن کے پہلے دور میں فروری سے اب تک 3,907 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے 3,319 گرفتاریاں پروہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ 2006 کے تحت کی گئیں۔

جنوری میں سرما نے اعلان کیا تھا کہ آسام حکومت کم عمری کی شادیوں کے خلاف ریاست بھر میں ایک مہم شروع کر رہی ہے اور 14 سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں کو پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل آفنسز ایکٹ کے تحت، اور 14 سے 18 سال کی لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کے خلاف چائلڈ میرج پر پابندی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرے گی۔

فروری میں انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں 4,004 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور حکام کا اصل ہدف وہ ’’ملا، قاضی اور پجاری‘‘ ہوں گے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

اس کے بعد گوہاٹی ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ پولیس کی کارروائی ریاست میں تباہی پھیلا رہی ہے۔

اس سال کے شروع میں کی گئی گرفتاریوں نے ان خواتین کے احتجاج کو بھی جنم دیا جنھوں نے اپنے خاندان کے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی مخالفت کی تھی۔ فروری میں سینکڑوں خواتین پولیس سٹیشنوں کے باہر ریاستی حکومت کے کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئی تھیں۔

پولیس نے دھوبری کے تمرہاٹ پولیس اسٹیشن میں مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا تھا اور انھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا تھا۔

ستمبر میں سرما نے کہا کہ ریاستی پولیس 2,000 سے 3,000 مزید مردوں کو گرفتار کرے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’’میں جی 20 کے ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ اب اگلے 10 دنوں میں، میں 2,000-3,000 مردوں کو کم عمری کی شادی کے الزام میں گرفتار کروں گا۔ کیوں کہ ہمیں اسے ختم کرنا ہے۔ ایک قانون بنایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر ایسا ہوتا رہا تو ایک مخصوص گروہ کی بیٹیاں کبھی ترقی نہیں کر پائیں گی۔ وہ استحصال کا شکار ہوتی رہیں گی۔‘‘

سرما نے مزید کہا کہ کریک ڈاؤن 2026 تک جاری رہے گا، جب آسام میں اگلے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔

اگرچہ سرما نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، لیکن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر مسلم آبادی والے اضلاع میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

دریں اثنا آل آسام مائنارٹی اسٹوڈنٹس یونین نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ پولیس یا اس طرح کے کریک ڈاؤن کے ذریعے بچوں کی شادی کے رواج کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

باڈی کے جنرل سیکرٹری محمد امتیاز حسین نے ایک بیان میں کہا ’’یہ سماجی بیداری کے ذریعے ختم کرنا چاہیے اور حکومت اس میں ناکام ہو چکی ہے۔ ہم ایک بار پھر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہیں کہ اس طرح کے کریک ڈاؤن سے ایک خوش خال خاندان کو بھی خطرہ ہو گا۔‘‘

حسین نے یہ الزام بھی لگایا کہ جہاں حکومت اس اقدام کو سماجی برائی کے خلاف کریک ڈاؤن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہاں ایک سیاسی عنصر اس سے جڑا ہوا ہے۔

انھوں نے کہا ’’وہ اقلیتی برادریوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ خاندانوں کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اکثریتی طبقے میں اس طرح کی سیاسی اور مذہبی چالوں کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پولرائزیشن کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔‘‘