’اَلف لیلہ‘ ایک کلاسیکی شاہکار

طلسمی دنیا کی منظر کشی کے ساتھ ساتھ حکمت و دانش مندی کی باتیں

محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دلی

’اَلف لیلہ‘ ایک کلاسیکی شاہکار ہے۔ جن لوگوں نے اس کی کہانیوں کا مطالعہ کیا ہے ان کو اندازہ ہوگا کہ اس میں محض طلسمی دنیا کی منظر کشی نہیں ہے بلکہ اس کی کہانیوں میں حکمت و دانش مندی کی باتیں بھی پوشیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے بڑے مصنفوں اور شعرا نے اس میں سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ یورپ میں اس کا پہلا ترجمہ فرانسیسی زبان میں اس کے بعد انگریزی میں کیا گیا۔ اس کی کہانیوں میں کہیں یہ منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی ساحرہ انتقاماً کسی شہزادی کو کتیا میں تبدیل کر دیتی ہے اور اس کے گلے میں پٹہ ڈال کر اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ کبھی کسی شہزادے کو گدھے یا خچر کی شکل میں سزا کے طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب طلسمی دنیا کی باتیں ہیں۔
اب اردو دنیا کے لاثانی ناول نگار ابن صفی کے ایک ناول ’جنگل کی آگ‘ (فروری 1955) کے اُس مشہور کردار کو دیکھیے جس کا نام جیرالڈ شاستری ہے۔ وہ اٹامک انرجی کا استحصال کرکے کس طرح جدید سائنس و ٹکنالوجی کی مدد سے ایک معمولی سے بندر کو طویل القامت بن مانس میں تبدیل کرتا ہے۔ ذرا ان اقتباسات پر غور کیجیے:
’’اتنے میں جیرالڈ کے آدمی دو لنگڑے آدمیوں کو وہاں لے آئے۔ ان دونوں کی ظاہری حالت کہہ رہی تھی کہ وہ شہر کے فٹ پاتھ پر بھیک مانگتے رہے ہوں گے۔ پھر انہیں ایک مشین کے بہت بڑے رولر میں ڈال دیا گیا جو اندر سے کھوکھلا تھا اور جب اُس کا دروازہ بند کیا جا رہا تھا تو فریدی بے اختیار چیخ پڑا۔ ’یہ کیا کرنے جارہے ہو تم؟‘
’کچھ نہیں بس دیکھتے جاؤ!‘ جیرالڈ مسکرایا۔ ’یہ صحت مند ہوکر نکلیں گے۔‘ پھر ایک دوسری مشین کا رولر کھولا گیا۔ یہ رولر آڑا لگا ہونے کے بجائے سیدھا کھڑا ہوا تھا اور اس کا قطر چالیس فیٹ سے کسی طرح کم نہ رہا ہوگا۔ اس کے اندر متعدد خانے نظر آرہے تھے۔
پھر ایک معمولی سا بندر لایا گیا جسے خود جیرالڈ نے اسی رولر کے ایک خانے میں بند کر دیا۔ اس کے بعد دونوں مشینیں چل پڑیں۔ دونوں کے رولر تیزی سے گردش کر رہے تھے۔ مشینوں کے شور کے باوجود جیرالڈ کی تیز آواز یہ کہتے سنائی دے رہی تھی۔ ’دو اپاہج آدمیوں سے ایک طاقتور جانور بہتر ہے۔ وہ دونوں اپاہج ایک طاقتور بن مانس کی تخلیق کر رہے ہیں۔ ان کی ہڈیاں اور اُن کا گوشت ایک حیرت انگیز جانور کی شکل میں تبدیل ہو رہا ہے!‘…
’یہ دیکھو فریدی!‘ جیرالڈ نے اسے مخاطب کیا۔ ’یہ ان آدمیوں کا فضلہ ہے!‘
فریدی نے مشین کے نیچے ایک ٹب میں سیاہ رنگ کا گاڑھا سیال دیکھا جو کولتار سے مشابہہ تھا۔
’ایک سستا ترین کولتار!‘ جیرالڈ نے قہقہہ لگایا۔ ’جو تمہاری سڑکوں پر ڈالا جاتا ہے۔ اپاہج آدمیوں کا فضلہ ان کے جسموں کا بہترین حصہ میرے بن مانسوں کا جزو بدن ہوجاتا ہے!‘…
جیرالڈ نے خانے دار رولر کا دروازہ کھولا۔ اس کے اندر سامنے ہی والے خانے میں ایک طویل القامت بن مانس اونگھ رہا تھا۔ دو آدمیوں نے اسے پکڑ کر اندر سے نکالا اور ایک اسٹریچر پر ڈال دیا پھر چار آدمی اسٹریچر کو اٹھائے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
’اب اسے دو مختلف قسم کے انجکشن دیے جائیں گے!‘ جیرالڈ نے کہا۔ ’اور وہ بالکل فِٹ ہو جائے گا۔‘…
’واقعی یہ ایک شاندار دریافت ہے۔ اِنہیں آدمیوں سے بخوبی لڑایا جاسکتا ہے؟‘ فریدی بولا۔
’قطعی۔ ان کی تخلیق کا مقصد ہی یہی ہے!‘ جیرالڈ بولا۔‘‘
اب اس خبر پر توجہ فرمائیں کہ یو ٹیوب پر دنیا کے ایک ترقی یافتہ ملک جاپان کے ٹوکو نام کے ایک شخص کا ویڈیو مسلسل وائرل ہو رہا ہے۔ 30 جولائی 2023 کے روزنامہ ہندوستان (ہندی) میں ایک خبر شائع ہوئی ہے۔ اس کی شہ سرخی ہے ’لاکھوں خرچ کرکے انسان سے بنا کتّا‘۔ روزنامہ ہندوستان کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ مرتبہ اس ویڈیو کو دیکھا گیا ہے۔ خبر کچھ یوں ہے کہ جاپان کے ٹوکو نام کا آدمی 18 لاکھ روپے خرچ کرکے انسان سے کتّا بن گیا ہے۔ ابھی تک جنس (Sex) کی تبدیلی کی خبریں تو عام ہوتی رہی ہیں لیکن شاید دنیا میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ ایک انسان واقعی کتّا بن گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’ٹوکو‘ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے بعد بےحد خوش ہے۔ اس کے اس شوق کی تکمیل میں جاپان کی ’جیپ پیٹ‘ نامی کمپنی کو پورے چالیس دن لگے۔
یہ انسان بھی عجیب و غریب مخلوق ہے۔ اللہ رب العزت نے اسے دیگر تمام مخلوقات سے جُدا اور احسن طریقے پر پیدا کیا ہے۔ آدمی اگر انسان کے جامہ میں ہے تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوسکتی ہے لیکن نفس کی غلامی اور شر و خیر میں امتیاز نہ کرنے کے سبب قرآن کے نزدیک انسان جانور کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ بلکہ قرآن یہ خبر بھی دیتا ہے کہ انسان جانور کی سطح سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ لہٰذا طلسمی دنیا ہو یا جدید سائنس و ٹکنالوجی کی دنیا، انسان جب اپنے اصل خالق کو فراموش کردیتا ہے تو وہ اپنے عمل کے لحاظ سے کسی بھی سطح تک گِر سکتا ہے جو انسان کے لیے سراسر ہلاکت خیز ہے۔ علامہ اقبال نے سچ کہاتھا:
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولّی
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024