درخشاں ستارہ : مصطفیٰ ہاشمی حافظ ڈاکٹر

یو پی ایس سی میں 162واں رینک محنت و جستجو اور والدین کی قربانی کا ثمرہ

آسیہ تنویر، حیدرآباد

جب کبھی کامیاب اور مشہور شخصیات کے حالات زندگی کا جائزہ لیا گیا تو ان کی شخصیت کی تعمیر میں کہیں نہ کہیں ان کے والدین کی محنت پائی گئی۔ والدین ہی ہیں جو اپنے بچوں کے لیے تاب ناک مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کے مطابق محنت کرتے ہیں لیکن بہت کم والدین ہوتے ہیں جو اپنے خوابوں کی تعبیر اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں، کیوں کہ ان میں سے کچھ ہی بچے خدا داد صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک منفرد طالب علم کا نام ڈاکٹر مصطفی ہاشمی ہے جو نہ صرف حافظ قرآن اور ایم بی بی ایس، ایم ایس ڈاکٹر ہیں بلکہ انہوں نے حکومت ہند کے انتہائی باوقار امتحان یو پی ایس سی میں ہندوستان بھر میں 162واں رینک حاصل کیا ہے۔
ڈاکٹر مصطفی ہاشمی کی ابتدائی تعلیم دبئی اور دمام میں ہوئی اس کے بعد ان کے والدین نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے خلیجی ممالک کو غیر مناسب سمجھا۔ ڈاکٹر مصطفی ہاشمی کے والد سید خالد ہاشمی دبئی کی ایک ممتاز کمپنی میں سینئر اسٹرکچرل انجینئر کے عہدے پر فائز تھے مگر انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دیتے ہوئے دبئی میں اپنے شاندار کرئیر اور بے شمار سہولتوں کو قربان کردیا۔ آج وہ انڈیا میں ایک نیشنل لیول کمپنی کے وائس چیئرمین ہیں۔ اسی طرح ان کی والدہ عاصم النساء بھی ایم ایس سی میاتھس اور بی ایڈ ہیں۔ انہی کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج چار بچوں میں سے تین بچے ڈاکٹر بن چکے ہیں اور چوتھا ایم بی بی ایس کے تیسرے سال میں ہے۔ ان کے چاروں بچوں میں تین لڑکے اور ایک لڑکی نے بھی فری میڈیکل سیٹ حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر سید مصطفی ہاشمی نہ صرف حافظ قرآن ہیں بلکہ اپنے ساتھ ایک شاندار اکیڈمک کرئیر بھی رکھتے ہیں۔ اپنی اسکولنگ کے بعد ڈاکٹر مصطفی ہاشمی نے حیدرآباد کے لٹل فلاور اسکول سے دسویں جماعت کا امتحان ٹاپ کیا اور حیدرآباد کے ہی سری چیتنیہ کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان کامیاب کیا۔ متحدہ آندھرا اور تلنگانہ ریاست کے ایم بی بی ایس داخلہ امتحان کے اہلیتی ٹسٹ ایمسٹ میں انہوں نے اسٹیٹ لیول پر دسواں رینک حاصل اور مائناریٹی لسٹ میں ساری ریاست میں اول آئے۔ اس طرح ریاست کی ٹاپ یونیورسٹی کے عثمانیہ میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کیا۔ اسی سال 2010 میں مصطفیٰ ہاشمی انٹرنیشنل بیالوجیکل اولمپیاڈ میں ہندوستان کی طرف سے نمائندگی کرنے والے چار طلبا میں سے ایک تھے۔ وہ اس مقابلے میں ہندوستان کے ٹاپر تھے۔ انہوں نے ساؤتھ کوریا میں منعقدہ اس مقابلے میں انٹرنیشنل لیول پر ہندوستان کے لیے سلور میڈل بھی جیتا تھا۔ وہ اس یادگار کامیابی کو قابلِ فخر بتاتے ہیں اور ملک کے میڈل حاصل کرنا باعث خوشی و افتخار سمجھتے ہیں۔ اپنی ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی توجہ اور دلچسپی کے مطابق سرجری کے شعبے کا انتخاب کرتے ہوئے ایم ایس سرجری بھی عثمانیہ میڈیکل کالج میں فری سیٹ حاصل کرتے ہوئے مکمل کی۔ ڈاکٹر مصطفی ہاشمی کا خیال ہے کہ ان کے رینک کے مطابق انہیں آئی پی ایس میں اپائنٹمنٹ مل سکتی ہے۔ واضح رہے کہ انڈین سیول سرویسز کے بیس سے زائد شعبے ہیں جن میں نمایاں آئی اے ایس (انڈین ایدمنسٹریشن سرویس) آئی اے ایس (انڈین پولیس سرویس) انڈین ریونیو سرویس (آئی آر ایس) انڈین فارین سرویس (آئی آر ایف) انڈین فاریسٹ سرویس (آئی آر ایف) ہیں۔
میڈیکل لائن سے سیول سروسز کی طرف متوجہ ہونے کے سوال پر ڈاکٹر مصطفی ہاشمی کہتے ہیں کہ ان کے دادا سرکاری ملازم تھے اور بچپن سے ہی انہیں اس کی تحریک دیتے رہے کہ’’ بیٹا تمہیں بڑا ہو کر آئی اے ایس آفیسر بن کر قوم کی خدمت کرنا ہے کیوں کہ آئی اے ایس افسر کے پاس قوم کی خدمت کے لیے بہت سے اختیارات ہوتے ہیں اور وہی سب سے بہترین خدمت کر سکتا ہے‘‘۔ جب وہ اپنا ایم بی بی ایس مکمل کر کے ریاست تلنگانہ کے سب سے بڑے گورنمنٹ ہاسپٹل میں جاب کرنے لگے تو انہوں نے محسوس کیا کہ میڈیکل کے ساتھ ساتھ ایسے کئی ادارے ہیں جن میں عوام کی خدمت کرنے اور ان تک سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے یو پی ایس سیول سروسز کا امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جاب کے ساتھ دو اہلیتی امتحانات، ایم ایس ایڈمیشن اور یو پی ایس سی کی تیاریاں ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ کوویڈ-19 کا دور جس میں ایک ڈاکٹر کا مشکل شیڈول ہوتا ہے اس کے درمیان صرف دو گھنٹے ایک امتحان کی تیاری کے لیے ملتے تھے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انہوں نے بغیر کسی کوچنگ کے سیلف اسٹڈی سے ہی یو پی ایس سی کے امتحان کے لیے کوالیفائی کیا جو کہ اپنے آپ میں ایک قابل رشک بات ہے۔ ڈاکٹر مصطفی ہاشمی ملک بھر سے کامیاب ہونے والے 23 مسلم امیدواروں میں تیسرا رینک رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مصطفیٰ ہاشمی کہتے ہیں کہ ابتدا ہی سے ان کے والدین زیادہ دیر تک پڑھنے کے بجائے کوالٹی اسٹڈی پر زور دیتے رہے ہیں۔ بچپن سے ہی وہ بچوں کو سوالات کے جوابات کا رٹا لگانے کے بجائے اسباق کو پڑھ کر سمجھنے اور خود سے جوابات لکھنے پر زور دیتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے تعلیم پر اپنی توجہ قائم رکھنے کے لیے ان کو اور ان کے بھائی بہنوں کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں، یہاں تک کہ ان کے والد یو پی ایس سی کی تیاری کے دوران ان کی گاڑی میں پٹرول بھروانے کے بھی خود جایا کرتے تھے تاکہ ان کا وقت ضائع نہ ہو۔
جب ڈاکٹر مصطفی ہاشمی کے والدین سے اپنے بچوں کی تربیت کے راز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بچوں کو ہر حال میں سب سے پہلے نماز کا پابند بنایا جائے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ امتحانات کے دور میں جماعت سے نماز ادا کرنے میں بچوں کا وقت ضائع ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے نماز ہی بچوں میں ڈسپلن لاتی ہے۔ ان کی والدہ عاصم النساء نے کہا بچوں کی صلاحیتوں کو بچپن سے ہی سنوارا جانا چاہیے، ان میں بچپن سے ہی اخبار پڑھنے کا شوق پیدا کرنا چاہیے۔ ان میں مقابلوں میں شرکت کی تحریک دینا چاہیے، موبائل فون اور سوشل میڈیا اور دیگر الیکٹرانک ایکٹیوٹی سے دور رکھ کر تعلیم میں شوق و ذوق پیدا کرنا والدین کا اولین فرض ہے۔ مصطفیٰ ہاشمی کے والد کہتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو اپنے کزنز اور رشتہ داروں کے درمیان میں بھی تعلیمی گفتگو اور جانکاری حاصل کرنے پر زور دیتا ہوں۔ مصطفیٰ ہاشمی اپنے والدین کے متعلق بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ میرے والدین نے مجھے تعلیمی کوتاہی پر کبھی ڈانٹا ہو لیکن حال ہی میں ایک دن مجھے عشاء کی نماز جماعت سے قطع کرنے پر ڈانٹ پڑی کہ تم کیسے لاپروائی برتنے لگے ہو کہ جماعت کا وقت گزر گیا اور تمہیں خبر بھی نہیں ہوئی؟ وہ اپنی کامیابیوں کا سارا کریڈٹ اپنی والدین کو دیتے ہیں کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ میری ماں نے کبھی نماز تہجد چھوڑی ہو اور میرے لیے رو رو کر دعا نہ کی ہو۔ وقت کی پابندی سے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی شادی کی تقریب بھی وقت کی پابندی کے ساتھ ہوئی۔ ڈاکٹر مصطفی ہاشمی، اللہ تبارک تعالی کے بعد اپنے والدین کے بے حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنے کریئر پر اپنے بچوں کو فوقیت دیتے ہوئے اپنی تمام صلاحتیں اپنے بچوں میں منتقل کیں۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ڈاکٹر مصطفی ہاشمی نے مشہور ٹی وی پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی میں بھی حصہ لیا تھا اور اپنی چاروں لائف لائنز بچاتے ہوئے ایک کروڑ کے سوال تک پہنچے تھے۔ مستقبل میں اپنے ارادوں کے متعلق ڈاکٹر مصطفی ہاشمی کہتے ہیں کہ عوامی خدمت کے کئی شعبے ہیں اور سب سے بہترین شعبہ سیول سرویسز ہے جس کے ذریعہ عوام کی بہترین خدمت کی جاسکتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اپنی خدمات کو بہتر سے بہتر طریقے انجام دیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022