2002 سے 2022تک گجرات کا سفر

کیا ’راج دھرم‘ نبھانے کا اب بھی وقت نہیں آیا؟

حسن آزاد

بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی پرانے زخموں کے کریدنے کے مترادف
نربھیا کے قصورواروں کو موت اور بلقیس بانو کے مجرموں کی جان بخشی؟
وہ زخم پھر تازہ ہو گئے۔ گھاؤ آہستہ آہستہ بھر رہے تھے کہ اچانک کسی نے کرید دیا۔ جینے کا حوصلہ ملا تھا مگر کسی نے سانسیں پھر قید کرلیں۔ پورا ملک آزادی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا۔ گھر گھر ترنگا، ہر گھر ترنگے کا نعرہ تھا مگر اچانک ان نعروں کی گونج میں ان درندوں کے قہقہے بھی شامل ہو گئے جنہوں نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کی تھی اور ان کے افراد خانہ کے سات افراد بشمول ساڑھے تین سال کی بیٹی کو بھی قتل کر دیا تھا۔ انہیں درندوں کو 15 اگست 2022 کو رہا کر دیا گیا۔ جیل کے باہر ان مجرموں کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ ان کی آرتی اتاری گئی گویا وہ مقدس جنگ جیت کر آئے ہوں۔ اس خبر سے ملک کا مسلمان اور ہر انصاف پسند شہری صدمے میں تو تھا ہی بلقیس بانو کا بھی عدل و انصاف پر سے اعتماد متزلزل ہو گیا۔ انہوں نے ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ان مجرموں کی رہائی نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا ہے اور انصاف پر میرا یقین متزلزل کر دیا ہے۔ میرا دکھ اور میرا ڈگمگاتا یقین میرے لیے نہیں بلکہ ہر اس عورت کے لیے ہے جو عدالتوں میں انصاف کے لیے جدوجہد کر رہی ہے” بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بلقیس بانو نے کہا کہ ’ایک مظلوم خاتون کو ملنے والے انصاف کا یہ انجام کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر اعتماد تھا، نظام پر بھروسا تھا اور میں آہستہ آہستہ اس صدمے سے نکل کر جینے کے لیے کوشش کر رہی تھی لیکن مجرموں کی رہائی نے مجھے بے سکون کر دیا ہے اور انصاف کے نظام پر میرے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘’
بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست گجرات کے اس فیصلے سے ہر حساس اور حق پسند انسان حیران و ششدر رہ گیا ہے۔ سیاسی داؤ پیچ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ گجرات میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے کہا کہ گجرات انتخابات کی وجہ سے بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب مرکزی حکومت نے جون کے مہینے میں تمام ریاستوں کو قیدیوں کی سزا میں معافی کے متعلق ایک خط ارسال کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایک سے زیادہ قتل اور ریپ کے معاملے میں عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں کو معاف نہ کیا جائے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے دس جون کو تمام ریاستوں کے نام اپنے خط میں کہا تھا کہ آزادی کے ’امرت مہوتسو‘ کے دوران یعنی انڈیا کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر بعض زمروں کے قیدیوں کی سزا کو معاف کرنے اور رہا کرنے کی تجویز ہے۔ انہیں تین مراحل میں معافی دی جائے گی۔ پہلا مرحلہ 15 اگست 2022، دوسرا مرحلہ 26 جنوری 2023 اور تیسرا مرحلہ 15 اگست 2023 ہو گا۔
جن 11 مجرمون کو رہائی ملی ہے ان میں جسونت نائی، گووند نائی، شیلیش بھٹ، رادھے شیام شاہ، بپن چندر جوشی، کیسر ووہنیا، پردیپ موردھیا، بکا ووہنیا، راجو سونی، متیش بھٹ اور رمیش چندنا شامل ہیں۔
مجرموں کو کیسے رہا کیا گیا؟
بھارت کا آئین صدر (دفعہ 72) اور ریاست کے گورنر (دفعہ 161) کو قصورواروں کے لیے معافی دینے، سزا کو کم کرنے یا کسی بھی جرم کے مرتکب شخص کی سزا کو کالعدم قراردینے کا اختیار دیتا ہے۔ جبکہ عمر قید کا مطلب ہے کہ کسی مجرم کو عمر قید کی سزا دی جائے لیکن قانون یونین اور ریاستی حکومتوں کو یہ بھی اختیار دیتا ہے کہ کسی شخص کی سزا کم کردی جائے۔ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 433A کے تحت حکومتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر عمر قید کے مجرمین 14 سال کی سزا کاٹ چکے ہوں تو انہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔تاہم یونین اور ریاست کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ وہ سزا کو کم کرنے کے لیے شرائط طے کرے۔ اپریل 2022 میں مجرموں میں سے ایک مجرم رادھے شیام نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور جیل سے قبل از وقت رہائی کی درخواست کی تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے 15 سال اور چار ماہ حراست میں گزارے ہیں۔ اس پر سوالات اٹھے تھے کہ کس حکومت کو اس درخواست پر غور کرنا چاہیے، گجرات جہاں جرم کیا گیا تھا یا مہاراشٹر جہاں مقدمہ ختم ہوا تھا؟ عدالت نے کہا تھا کہ گجرات ہی مناسب اتھاریٹی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ جولائی 1992 سے ریاستی حکومت کی قبل از وقت رہائی کی پالیسی درست پالیسی ہو گی، کیونکہ یہ سزا کی تاریخ پر لاگو ہونے والی پالیسی تھی۔ مئی میں عدالت نے ریاستی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ دو ماہ کے اندر رادھے شیام کی درخواست پر فیصلہ کرے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے متفقہ طور پر کیس کے تمام 11 مجرموں کی سزاؤں کو کم کرنے کی سفارش کی جسے ریاستی حکومت کو بھیج دیا گیا، جس نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔
ریاستی انتظامیہ نے پریس کو بتایا کہ مجرموں نے قانون کے تحت مطلوبہ 14 سال کی سزا کاٹی ہے اور وہ ان کی عمر اور جیل میں رویے جیسے عوامل کی بنیاد پر جلد رہائی کے بھی اہل تھے۔
اس صورت میں، مرکزی حکومت کی منظوری بھی ضروری ہو گی۔ دفعہ 435 کے تحت اگر کسی معاملے کی تحقیقات مرکزی تفتیشی بیورو نے کی ہے تو ریاستی حکومت مرکزی حکومت کی رضامندی کے بعد ہی سزا میں کمی کر سکتی ہے لہذا اس فیصلے میں مرکزی حکومت کی منظوری بھی شامل تھی۔
کیا معافیاں (remissions) عام ہیں؟
ہندوستان میں جیل سے رہائی حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ دس میں سے سات قیدی زیر سماعت ہیں جنہیں ابھی تک سزا بھی نہیں سنائی گئی ہے۔
سزا سنانے کے بعد بھی سزا میں کمی کا ملنا مشکل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق معافی کی بہت سی درخواستیں طویل عرصے تک غور کیے بغیر چلی جاتی ہیں، جب کہ جن کا فیصلہ کیا جاتا ہے وہ اکثر ذہن کے استعمال کے بغیر مسترد کر دی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے معاملات کو درست کرنے کے لیے مداخلت کی ہے۔ فروری 2021 میں سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ 21 ریاستوں میں 14 سال قید مکمل کرنے والے مجرموں سے معافی کی 1,649 درخواستیں زیر التوا ہیں۔ اس وقت تک 752 درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ عدالت نے کہا کہ مزید عمر قید کی سزا پانے والے 431 مجرموں نے جلد رہائی کے لیے درخواست نہیں دی تھی جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس حق سے واقف نہیں ہیں۔
جولائی 2021 میں سپریم کورٹ نے رہنما خطوط وضع کیے ہیں تاکہ معافی کی درخواستوں کا فیصلہ مقررہ مدت کے اندر کیا جائے۔
کیا ہے بلقیس بانو کا معاملہ؟
واضح رہے کہ سنہ 2002 میں گجرات فسادات کے دوران احمد آباد کے ایک گاؤں میں جنونی بھیڑ نے بلقیس بانو کے اہل خانہ پر حملہ کیا تھا، اسی دوران پانچ مہینے کی حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، اس وقت بلقیس بانو کی عمر 20 برس تھی، اسی فساد میں بلقیس بانو کی والدہ اور چھوٹی بہن اور دیگر رشتہ داروں سمیت 14 لوگوں کا بہیمانہ قتل کیا گیا تھا۔
2002 میں گجرات پولیس نے کیس کو بند کرنے کی یہ کہہ کر درخواست کی تھی کہ مجرموں کا پتہ نہیں چل سکا۔ لیکن بلقیس بانو نے سپریم کورٹ سے پولیس کی کلوزر رپورٹ (closure report) کو ایک طرف رکھنے کی درخواست دی اور کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن سے کرائی جائے۔ سپریم کورٹ نے دسمبر 2003 میں بانو کی درخواست منظور کر لی۔
اکیس جنوری 2008 کو سی بی آئی اسپیشل کورٹ نے تیرہ افراد کو مجرم ٹھیرایا جس میں گیارہ کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ مئی 2017 کو بامبے ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو قائم رکھا۔ سپریم کورٹ نے 2019 میں بلقیس بانو کو پچاس لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم کیا۔ پھر جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے 2022 میں رادھے شیام نے سپریم کورٹ میں رہائی کی درخواست دی جسے سپریم کورٹ حکومت گجرات کی صواب دید پر چھوڑ دیا۔
اس خبر کو جانب دار میڈیا نے ترجیحی بنیاد پر نہیں دکھایا نہ اسٹوڈیو میں چیخ پکار ہوئی اور نہ ہی ٹی وی مباحثے میں تو تو میں میں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جس ملک میں ہمیشہ یہ آواز اٹھتی رہی ہے کہ عصمت دری کرنے والوں کو سرعام گولی مار دی جائے ان کا انکاؤنٹر کر دیا جائے، نربھیا کے تمام مجرمین کو پھانسی کی سزا بھی دی گئی، حیدرآباد اجتماعی عصمت ریزی کے ملزمین کا انکاؤنٹر کر دیا گیا لیکن جب بلقیس بانو کا معاملہ سامنےآیا تو کچھ لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے دو گینگ ریپ کے واقعات کا موازنہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا: ’رات کو آنے والا خیال: یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ ایک گینگ ریپ اور قتل (نربھیا) کا معاملہ دوسرے کیس (بلقیس بانو) سے زیادہ گھناؤنا ہے۔ ایک کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے دوسرے کے لیے نہیں؟ کیا قانون/معاشرے کا اجتماعی ضمیر متاثرہ اور مجرم کی شناخت پر منحصر ہے؟‘ وہیں سیاسی ردعمل کی بات کریں تو راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے پانچ ماہ کی حاملہ خاتون کی عصمت دری کی اور اس کی تین سالہ بچی کو قتل کیا، انہیں ‘آزادی کے امرت مہوتسو’ کے دوران رہا کر دیا گیا۔ خواتین کی طاقت کی بات کرنے والے ملک کی خواتین کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ جبکہ کانگریس کے رہنما اور پارٹی کے ترجمان پون کھیڑا نے اس واقعے پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ’راج دھرم‘ نبھانے کی نصیحت یاد دلائی’ اگر ہم صرف جرم کی نوعیت پر غور کریں تو کیا ریپ اس زمرے میں نہیں آتا کہ جس کے لیے کوئی سزا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے سخت ترین سزا دی جائے؟ کئی سیاسی لیڈروں نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم لال قلعہ کی فصیل سے یوم آزادی کے دن خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ریپ کے قصورواروں کی رہائی عمل میں آتی ہے۔ ایسے میں ملک کو کیا پیغام جائے گا؟
ایسا ملک جہاں خواتین پر تشدد بڑھ رہا ہو۔ ویب سائٹ پر مسلم خواتین کی ’نیلامی‘ کا کھیل کھیلا جا رہا ہو، جہاں عصمت دری کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہو۔ سال 2019 اور 2020 کے ہندوستانی جرائم کے اعداد و شمار کے مطابق ہر 16 منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہو، روزانہ کی بنیاد پر عصمت دری کے 77 سے 88 واقعات رپورٹ ہوتے ہوں، جہاں عصمت ریزی کے مجرمین کی حمایت میں ریلی نکالی جاتی ہو، وہاں عصمت دری جیسے بدترین جرم کے مجرموں کو چھوڑ دینے کا فیصلہ آخر کس اعتبار سے درست قرار دیا جا سکتا ہے؟ حکومت گجرات کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے اور بلقیس بانو کو ’ایک پرامن اور بے خوف طریقے سے زندگی گزارنے کا حق واپس دلوائے۔‘
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022