الہ آباد ہائی کورٹ نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے ہورڈنگز ہٹانے کا حکم دیا، کہا کہ یہ انتہائی نامناسب ہے

نئی دہلی، 9 مارچ: الہ آباد ہائی کورٹ نے اتوار کے روز خصوصی سماعت کے دوران لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہرین کے ذریعہ مبینہ تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کے پوسٹر لگانے پر اترپردیش انتظامیہ کی سرزنش کی اور کہا کہ یہ مکمل طور پر نامناسب اقدام ہے۔

ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کو حکم دیا کہ یہ تمام ہورڈنگز آج سہ پہر تین بجے سے پہلے ہٹا دیے جائیں اور عدالت کو اس کے بارے میں تین بجے آگاہ کیا جائے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا کی بنچ نے کہا کہ اس طرح سے عوامی مقامات پر پوسٹر لگانا بالکل نامناسب ہے اور یہ متعلقہ لوگوں کی ذاتی آزادی میں مکمل مداخلت ہے۔

واضح رہے کہ لکھنؤ انتظامیہ نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے 60 کے قریب افراد کے نام اور پتے کے ساتھ شہر کی بڑی اور عوامی بھیڑ والی جگہوں پر ہورڈنگز لگائی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے گذشتہ سال 19 دسمبر کو ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد کا ارتکاب کیا تھا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا تھا۔

ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ یہ پوسٹر وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر لگائے گئے ہیں۔ اس میں معروف کارکن اور رہنما صدف جعفر، انسانی حقوق کے وکیل محمد شعیب، سابق آئی پی ایس آفیسر ایس آر دراپوری جیسے لوگوں کے نام بھی شامل ہیں۔

معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور اتوار کی صبح 10 بجے سماعت کے لیے خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔

لائیو لا ڈاٹ اِن کے مطابق عدالت نے کہا "ریاست کا اچھا احساس ہونا چاہیے اور تمام ہورڈنگز تین بجے سے پہلے ہی ہٹا دیے جائیں اور تین بجے تک عدالت کو آگاہ کردیا جائے۔”

جب حکومت کے وکیل نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے، تو عدالت نے کہا ’’اگر وہ اس کے لیے ذمہ دار ہیں تو بھی آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں، آپ کو ہر ایک کو نوٹس بھیجنا پڑے گا۔‘‘