یہ بھی شح نفس ہے

ایس-امین الحسن

Psychology of Stinginess
تنگ دل انسان ناکام انسان ہوتا ہے، اس لیے وہ انسانوں سے دور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ بڑے دل کے ہوتے ہیں وہ سماج اور خاندان میں محبوب ہوتے ہیں۔ انسان اگر دونوں جہاں میں کامیابی چاہتا ہے تواسے تنگ دلی کی مذموم صفت سے اوپر اٹھ کر فراخ دل بننا پڑے گا۔ زبان کا عام قاعدہ ہے کہ کسی لفظ اور اصطلاح کی ضد کو سمجھنے سے زیر غور لفظ کے مفہوم کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اگر تنگ دل آدمی، اعلی ظرفی اور وسعت قلبی کے مفہوم، اس کی نفسیات اور اس سے پیدا ہونے والے خوشگوار اثرات کا ادراک کر لے تو اس کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔
ارسطو کی اخلاقیات کے مطابق عالی ظرفی (magnanimity) نیکیوں کا تاج اور روح کی عظمت ہے۔ اس لیے فراخ دل لوگ اچھائی اور نیکی سے قریب تر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں اور دوسروں کے بارے میں اعلیٰ ہی سوچتے ہیں۔ وہ تنگ دل لوگوں کی طرح اپنی بڑائی کے دعوے دار نہیں ہوتے۔ تنگ دل لوگوں کو کبھی کبھی خوش فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ بڑے صاحب انفاق ہیں۔ جب کہ اعلیٰ ظرف لوگوں کو اپنے اعلیٰ ظرف ہونے کا گمان نہیں بلکہ حقیقتا واضح ادراک ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بڑے دل کا مظاہرہ کرنا نفس پر کنٹرول اور شعوری کوشش چاہتا ہے۔
خاندانی تجارتی اور تنظیمی زندگی میں اعلی ظرفی کی بڑی اہمیت ہے۔ خاندان کے ممبران، تجارت کے حلقے اور تنظیمی کارکنان کے دائرے میں بہت سے انسانوں میں بہت سی خوبیاں، بھلائیا‌ں اور انفرادی خصوصیات ہوتی ہیں۔ انھیں تسلیم کرنا، ان کا اظہار کرنا اور ان خوییوں کو پروان چڑھانے میں مدد کرنا ایک بڑا دل چاہتا ہے۔ چھوٹے دل کے انسانوں کے بس کی یہ بات نہیں۔ فیاضی کا اظہار تو اگر فرد کے پاس دولت ہو وہ اپنی استطاعت سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اور اس سے جتنی توقع کی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ انفاق کرکے کرلیتا ہے۔ مگر اعلی ظرفی اور وسعت قلبی کے اظہار کے لیے دولت کا ہونا ضروری بھی نہیں ہے اور کافی بھی نہیں ہے، اس میں تو بڑے دل والا ہونا اور دوسرے انسانوں کی بھلائیوں کا معترف ہونا ضروری ہے۔ فیاضی کی طرح یہ بھی فضائل اخلاق میں سے ایک نمایاں فضیلت ہے۔ اعلی ظرف انسان اپنی بڑائی بیان کرنے کا خوگر نہیں ہوتا۔ وہ لوگوں کی تعریف سے بھی خوش نہیں ہوتا۔ اس کی فطرت اسے اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ کشادہ دلی کے ساتھ انسانوں سے برتاؤ کیا جائے۔ مزاج میں وہ سخت کلامی سے دور ہوتا ہے، عوام کے درمیان خوش کلام اور کم گو ہوتا ہے، کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ اعلیٰ ظرف انسان ڈینگیں نہیں مارتا۔ اس کی دوستی مطلب کی نہیں ہوتی بلکہ بے لوث ہوتی ہے۔ نہ وہ خوشامد پسند ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کی چاپلوسی کرتا ہے۔ وہ جس دل کا مالک ہوتا ہے اس پر وہ مطمئن ہوتا ہے۔ اس کی حرکتیں دھیمی، وہ صاحب قرار، اس کی آواز پر سکون اور گہری ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کی بے جا تنقید سے بد دل نہیں ہوتا۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ سماج کیا کہے گا؟ اس لیے کہ اس کے پاس اپنی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے جس کی طرف وہ رواں دواں ہوتا ہے اور دوسروں کی تعریف وتنقید اس کے پاؤں کی بیڑیاں بن نہیں پاتیں کہ اس سے اس کی راہ کھوٹی کردیں۔ جن کے پاس زندگی کا کوئی اعلی مقصد نہیں ہوتا ان کی زندگی زوال پذیر ہونے لگتی ہے۔ اس کے بالمقابل ایک کامیابی پسند انسان جو کچھ پاتا ہے اس پر مطمئن ہوکر کر بیٹھ نہیں جاتا بلکہ ستاروں سے آگے کی منزلوں کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے۔
ارسطو کی تجویز ہے کہ جو لوگ عالی ظرف ہوتے ہیں وہ سماج خیر خواہ اور مصلح بھی ہوتے ہیں، اس لیے سماج میں ان کا اونچا مقام ہونا چاہیے اور اقتدار ان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ تاکہ وہ ایسی قانون سازی کریں جس میں دوسروں کی ہمت افزائی اور حقوق کی ادائیگی ہو۔ وہ دوسرے انسانوں کو اوپر اٹھانے اور دوسروں کی زندگی میں بہتری اور ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں جسے وہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس انسان کے اندر بڑکپن ہو اسے سماج کا لیڈر ہونا چاہیے، کیوں کہ وہ دوسروں کو بھی اونچا اٹھا سکتا ہے اور خود بھی بلندی کی منزلوں کو حاصل کرسکتا ہے۔
اعلی ظرفی شح نفس کی ضد ہے اور قرآن کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ
وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں) (سورہ الحشر: ۹)
اوپر کے مباحث سے معلوم ہوا کہ بڑے پن والا انسان دوسروں کی خوبیوں کا معترف ہوتا ہے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے بجائے اس کی دل چسپی ہوتی ہے کہ انھیں اونچا اٹھائیں۔ مگر جن کے دل تنگ ہوتے ہیں انھیں دوسروں کو نیچا گرانے میں لطف آتا ہے۔ دوسروں کے مقام ومرتبے میں وہ گھاٹا کر دیتے ہیں۔ اس مزاج اور کردار کے لیے قرآن نے لفظ تطفیف استعمال کیا ہے۔ عام طور پر مفسرین نے اسے جنس کے ناپ تول میں کمی میں اور خرید وفروخت میں ڈنڈی مارنے کے معنوں میں لیا ہے۔ تاہم ڈنڈی مارنا صرف اشیائے خرید وفروخت ہی میں نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی معاملہ اور کام کو اس کے حقیقی مقام سے گرا کرانجام دینے کے لیے بھی لفظ تطفیف استعمال ہوسکتا ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں: الصَّلاَةُ مِكْيَالٌ، فَمَنْ أَوْفَى أُوفِيَ لَهُ، وَمَنْ طَفَّفَ فَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا قَالَ اللَّهُ فِي الْمُطَفِّفِينَ. الزهد لابن المبارك.
’’نماز کا بھی پیمانہ ہے جس نے اسے پورا کیا اس کو پورا اجر ملے گا مگر جس نے اس میں کمی کی تو تم جانتے ہو کہ اللہ نے مطففین کمی کرنے والوں کے بارے میں کیا کہا ہے۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت میں وزن اور ناپ تول صرف مادی اشیا اور اجسام کی کمی زیادتی ہی کے لیے نہیں بلکہ افراد اور عبادات کی شان میں کمی زیادتی کرنے کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں آیا ہے:
وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3) أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ (4) لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (5) يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (6)
’’افسوس ہے کم کرنے والوں کے حال پر، وہ جب اپنے آپ کو دوسروں سے ناپتے ہیں پیمانہ بھر بھر کر ناپتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپتے یا تولتے ہیں تو کمی کرتے ہیں، کیا یہ گمان نہیں رکھتے کہ ضرور اٹھائے جائیں گے ایک عظیم دن کے لیے، وہ دن جب لوگ اللہ کو پیش ہوں گے۔ ‘‘
سورہ المطففین مکی سورت ہے۔ مکی آیات عقائد کی مبادیات اور اخلاق و اقدار کی تعلیم پر مبنی ہوتی ہیں۔ مکی دور کے آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں وہ بنیادی تعلیمات پیش کی گئی ہیں جو ہجرت کے بعد اسلامی معاشرہ اور اسلامی سیاست کی بنیاد بننے والی تھیں۔ اوامر وہ احسن پہلو ہیں جو ایک اسلامی معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نواہی وہ تباہ کن اور اسلامی معاشرے کی بنیاد ہلا دینے والے اعمال ہوتے ہیں جن سے انسانی معاشرے کو بچنا چاہیے۔ ناپ تول میں کمی کرنا انھی میں سے ایک گھناؤنا عمل ہے جو کسی معاشرے میں عام ہو جائے تو اعتماد کی فضا ختم ہوجاتی ہے دھوکا دھڑی عام ہو جاتی ہے اور معیشت بے برکت ہو جاتی ہے۔ اس لیے تطفیف کرنے والوں کو بربادی کی وعید سنائی گئی ہے۔ یہ اسلام کی مادی اقدار میں سے ایک ہے۔
ان آیتوں کی وسعت اس مفہوم کے لیے بھی جگہ رکھتی ہے کہ انسانی سماج میں اچھے اور نیک انسانوں کی قدر کی جائے، بھلائی نیکی اور انسانیت نوازی جہاں بھی ہو، جاہلی عصبیت سے اوپر اٹھ کر انھیں تسلیم کیا جائے اور ان کی باتوں میں حکمت کے جو پوشیدہ خزانے ہیں انھیں حاصل کیا جائے، اس لیے کہ حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے۔ مزید برآں یہ کہ ان کی رہ نمائی میں زندگی کی گاڑی چلے۔ سید قطب شہیدؒ نے اپنی کتاب اسلام میں عدل اجتماعی میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ اسلام جہاں مادی اقدار ( material values) متعین کرتا ہے وہیں معنوی اقدار (moral values) کی بھی تعلیم دیتا ہے۔
ان تعلیمات کا تقاضا ہے کہ ہم انسانی سماج میں انسانوں کو ناپنے اور تولنے میں حقیقت پسند بنیں، یہی انسانیت کے لیے مفید ہے۔ سرداران قریش کی یہ تنگ دلی تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بچپن اور جوانی سے وہ اچھی طرح واقف تھے، اور آپ کو صادق اور امین کے القاب سے جانتے تھے، نبوت کے اعلان کے بعد آپ ان کے لیے انتہائی مبغوض ہوگئے۔ وہ آپ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے، آپ کو نعوذ باللہ شاعر، جادوگر، کاہن اور آسیب زدہ کہہ کر سماج میں آپ کے مقام ومرتبہ کو گرانے اور آپ کی عزت میں کمی کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ صحابہ، جو کل تک ان کے سماج کا جھومر تھے آج نگاہوں سے گر گئے تھے۔ وہ ان پاک بازوں کی پوری شخصیت کو مجروح کرینے کے درپے رہتے اور نئے دین کے ماننے والوں کو مذاق کا نشانہ بنا لیتے۔ یہ وہ تطفیف ہے جس پر اللہ تعالی نے اس سورت کے شروع میں تبصرہ کیا اور سورت کے اختتام میں ان کے مذموم رویوں کی کچھ جھلک پیش کی۔
اگر ہم ان آیتوں پر اس پہلو سے غور کریں گے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سورت میں جس برائی پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے وہ معاشی سے زیادہ سماجی اور سیاسی رویہ ہے۔ انسانی سماج کے خیرخواہ اور صالح افراد کی قدرومنزلت نہ پہچاننا بلکہ ان پر زندگی کی راہیں تنگ کرنا خود سماج کے لیے موجب ہلاکت ہے۔ اس نقطہ نظر سے مندرجہ بالا آیتوں میں سماج کے گم راہ لیڈروں پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
آپ اگر غور سے قرآن کا مطالعہ کریں گے تو اس میں انسانی رویوں اور انسانی نفسیات کے بہت سے پہلوؤں پر شاہ کار تبصرے پائیں گے۔ انھی میں سے سورہ المطففین بھی ہے۔
کفار ومشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر ومنزلت تسلیم کرتے اور نہ ہی کبار صحابہ جو ان کی سماج کے روشن ستارے تھے ان کی نگاہوں میں جچتے۔ قبول اسلام کے بعد وہ انھیں گری ہوئی نگاہوں سے دیکھتے اور انھیں دیکھ کر ان کی طبیعت کو مذاق سوجھتا۔ ان کی شخصیتوں کی خوبیوں کا اعتراف تو درکنار بلکہ ان کی شان میں گستاخی کرتے۔ اپنے بارے میں تو ان کا خیال تھا کہ وہ بہت بڑے ہیں، خوش حال ہیں، ہر طرف سے ان پر ہن برس رہا ہے، ان کا مال ودولت اور ان کی اولاد ان کی عزت افزائی کی سند ہیں۔ اس لیے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاصمت کرتے اور آپ کی رسالت اور آپ کے کلام کے بارے میں ان کے چیلے چپاٹے جب ان سے ان کی رائے پوچھتے تو اس طرح اسے بیان کرتے گویا ان کے کافی غور وخوض کا نتیجہ ہے کہ نعوذ بالله محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں اور آپ کا کلام ایک انسانی کلام ہے۔ یہ تطفیف نہیں تو اور کیا ہے؟ قدر ومنزلت گھٹانا ایک بدترین عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ کسی کے مال میں کمی بیشی کرنے سے زیادہ سنگین جرم کسی کی عزت پر ڈاکہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اور سردارانِ قریش اس کے مرتکب تھے۔ دشمنان رسالت کے اس رویے کی ایک جھلک ذیل کی آیتوں میں دیکھیں:
إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ (18) فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (19) ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (20) ثُمَّ نَظَرَ (21) ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ (22) ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ (23) فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ (24) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (25)
’’اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ ہاں، خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر(لوگوں کی طرف) دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑگیا۔ آخر کار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلاآرہا ہے، یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔‘‘ ( سورہ المدثر)
اس کے برعکس ہمیں سیرت میں کئی واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کے سلسلے میں بھی اعلی ظرفی کا اظہار کیا۔ سہیل بن عمرو سرداران قریش اور رؤوسائے مکہ میں شامل تھے۔ اسلام اور رسول اسلام کے خلاف وہ زہر افشاں تقریریں کیا کرتے تھے۔ جنگ بدر میں قیدی بن کر پکڑے گئے تو حضرت عمرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ سہیل کے اگلے دو دانت توڑ دیے جائیں تاکہ وہ اس زہر افشانی کے قابل نہ رہ جائیں۔ مگر قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلی ظرفی پر، آپ نے فرمایا کہ انھیں چھوڑ دو۔ کسی دن ان کی یہ صلاحیتیں اسلام کے کام آئیں گی اور ویسا ہی ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں ارتداد کا فتنہ زوروں پر تھا اس وقت امت کو متحد رکھنے میں حضرت سہیل بن عمروؓ کی تقریریں بڑی کارگر ثابت ہوئیں۔ عموما تنگ دل انسانوں کو جب کسی سے شکایت ہوتی ہے تو ان کی پوری شخصیت کو صفر سے ضرب لگا دیتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ اسلامی تعلیمات کا حسن یہ ہے کہ وہ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (8)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوں اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘(سورہ المائدۃ)
قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ چھوٹے دل انسانوں کے بس کی بات نہیں بلکہ اس رویہ کے اظہار کے لیے اولوالعزمی، اعلی ظرفی اور فراخدلی کی صفات کا پایا جانا ضروری ہے۔
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (34) وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (35)
’’اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا، مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ ‘‘(سورہ فصلت)
سماج میں آپ نے اس بات کو بھی نوٹ کیا ہوگا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ جب ان کا تذکرہ ہو تو ان کی بڑائی بیان کی جائے، ان کی ہر چھوٹی خوبی کو ایک عظیم خوبی گردانا جائے، ان کے سلسلے میں وہ باتیں بیان کی جائیں جو دراصل ان میں پائی نہیں جاتیں۔ ایسے رویے سے قرآن نے خبردار کیا:
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (188)
’’تم ان لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انھیں حاصل ہو جو فی الواقعہ انھوں نے نہیں کیے۔ حقیقت میں ان کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔‘‘ ( سورہ آل عران)
وہ چاہتے ہیں کہ ان کی امیج سماج میں بڑی دکھائی جائے، ان کی شخصیت عظیم نظر آئے، ان کے کام اور ان کی حکمت کی باتیں سقراط سے کم نہیں سمجھی جائیں، ان کی چھوٹی چھوٹی خیرات حاتم طائی کی فیاضی کے برابر نظر آئے۔ اور جب وہی دوسروں کے بارے میں تذکرہ یا تبصرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ابھی کل کا بچہ ہے، ابھی کچھ مشق کرنے دو، باتیں تو ٹھیک ہیں مگر پختگی آتے آتے آئے گی، ایسی کون سی بڑی بات ہے، انھوں نے راہ خدا میں وہ مشقتیں کہاں اٹھائیں جو ہم نے اٹھائی ہیں، ہاں ڈرائنگ روم کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ وغیرہ، یہ بھی شح نفس ہے اور اس سے نجات ضروری ہے۔
مسلم امت کے ماضی قریب اور حال میں اٹھنے والے ملی انتشار، اداروں کے اندر کی چپقلشیں، مسلکی معاملات اور فروعی مسائل میں فتویٰ بازیوں کا محاکمہ کریں گے تو اس کی تہہ میں بھی آپ کو شح نفس کا شدید مرض نظر آئے گا۔ خصوصا مولانا مودودیؓ کی تحریروں کے ساتھ جس طرح کتربیونت اور بد دیانتی سے کام لے کر مولانا کے قد کو گھٹانے، آپ کے علمی مرتبہ کو کم کرنے اور آپ کی تحریروں کو بے وزن ثابت کرنے کی جو کوششیں ہوئیں وہ بھی تنگ دلی کے شدید نفسیاتی امراض کی عکاسی کرتی ہیں۔
امت مسلمہ میں زوال آنے کے بعد ان کے مزاج کا حصہ یہ بھی بنا ہے کہ وہ خیر وبھلائی، حکمت ودانائی اور انسانیت نوازی کی کوئی بات اور کوئی کام اپنی صفوں سے باہر تسلیم کرلینے کو اپنے ایمان کے منافی سمجھتے ہیں۔ میری طالب علمی کے زمانے کی بات ہے کسی تقریر میں، میں نے گاندھی جی کا حوالہ دے دیا تو منتظمین اجتماع نے اس گفتگو کے بعد میری کلاس لی اور لا حول ولا قوۃ الا بالله پڑھنے لگے۔ آج بھی ہماری تحریروں اور تقریروں میں کسی دوسری مذہبی کتاب کی حکمت بھری باتیں یا ان کے رہ نماؤں کے اقوال کو نقل کرنا یہ مانا جاتا ہے کہ مقرر یا مصنف دین کی اصولی بنیادوں سے تھوڑا ہٹا ہوا ہے۔ یہ خیال کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے تو ایسے میں کیا ضرورت ہے کہ دوسروں سے اکتساب کریں، تنگ دلی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ■