یاد رفتگاں: ہردلعزیز شخصیت مولانا سراج الحسن صاحب
غیر رسمی نشستوں میں مولانا کی پرسوز نصیحتوں کا رفقاءپر گہرا اثر ہوتا تھا
توفیق اسلم خان
(رکن مرکزی مجلس شوریٰ ، جماعت اسلامی ہند)
جماعت اسلامی ہند کے تیسرے امیر مولانا سراج الحسن صاحب رائچور، کرناٹک میں مورخہ 2 اپریل 2020 کو شام 6 بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی پیدائش 3 مارچ 1933 کو ہوئی تھی۔ آپ 1958 سے 1984 تک جماعت اسلامی ہند کرناٹک کے امیر حلقہ رہے، 1984 سے 1990 تک جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری رہے۔ 1990 سے 2003 تک جماعت اسلامی ہند کے امیر رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔
مولانا سراج الحسن صاحب کے دیرینہ رفیق اور جماعت اسلامی ہند مہاراشٹرا کے سابق امیر حلقہ توفیق اسلم خان صاحب جو فی الحال جماعت کی مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں کہتے ہیں کہ مولانا سراج الحسن صاحب سے میری پہلی ملاقات 1978 میں ہوئی تبھی سے میرا ان کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے اور میں ذاتی طور پر مولانا کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا ہوں میری ذات پر انہوں نے بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ سن 1989 میں میں ایس آئی او کا کل ہند صدر منتخب ہوا اس وقت جماعت کے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب تھے لیکن کچھ عرصہ بعد مولانا سراج الحسن صاحب امیر جماعت منتخب ہوئے اور وہ ایس آئی او کے سر پرست اعلیٰ تھے اس وقت دو سال ان کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس کے علاوہ میں مرکز جماعت میں 1999 سے 2002 تک اسسٹنٹ سیکریٹری رہا اس وقت کم و بیش چار سال کی رفاقت نصیب ہوئی اتنا طویل عرصہ مولانا کی صحبت میں گزارنے کی وجہ سے مجھے مولانا کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا۔
مولانا سراج الحسن صاحب بہت زیادہ محبت کرنے والے نرم دل انسان تھے ان سے پہلی ملاقات میں ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ ان سے پہلی مرتبہ مل رہے ہیں یوں لگتا جیسے برسوں کی شناسائی ہے اسلامی تعلیمات سے آپ کی واقفیت کمال درجہ کی تھی جب بھی کسی موضوع پر بات کرتے اس کا حق ادا کردیا کرتے تھے اور بہت بڑے نظریات کو آسان کر کے پیش کردیا کرتے تھے، سخن دلنواز تھا، آواز میں بلا کی کشش، روانی اور سلاست تھی، تقاریر میں منظر کشی ایسی کرتے کہ سماں بندھ جایا کرتا۔ اگر وہ اپنی تقریر میں جنگ بدر کا ذکر کر رہے ہوں تو سننے والے کو یوں محسوس ہوتا کہ وہ خود میدان جنگ میں موجود ہے۔
مولانا کی ذاتی زندگی ہم سب کے لیے نمونہ تھی، زندگی بھر تہجد گزار رہے روزآنہ صبح ساڑھے تین بجے اٹھتے اور ہر موسم میں ٹھنڈے پانی سے نہایا کرتے ہر سال رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کرتے۔ جب آپ امیر جماعت رہے تب بھی آپ ہر سال باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف کرتے رہے، اس کے علاوہ ہمیشہ شوال کے چھ روزوں کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا، عربی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی بہت سی کتابیں آپ کو ازبر تھیں۔ آپ کی گفتگو سے مطالعے کی گہرائی کا اثر جھلکتا تھا، آپ کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا گویا یہ ایک اسلامی یونیورسٹی ہے جو چل پھر رہی ہے۔
چاروں مسالک کے علماء سے آپ کے گہرے تعلقات تھے ملک کے تمام ہی بڑی درسگاہوں اور علماء کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے آپ نے بہت کاوشیں کیں۔ آپ نے بہ نفس نفیس تمام ہی مدارس کا دورہ کیا جب مولانا دیوبند گئے اس وقت میں آپ کے ساتھ ہی تھا۔ دیوبند کے دونوں مدرسوں میں آپ تشریف لے گئے اور سبھی سے ملاقات کی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر کی حیثیت سے بابری مسجدایکشن کمیٹی میں بہت اہم رول ادا کیا۔ اس کے علاوہ 1964 میں جب مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا اس میں بھی مولانا نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔
بحیثیت امیر جماعت آپ نے قرآن حکیم کے ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں میں آسان ترجمہ کے اہم کام کی جانب توجہ کی اور اسے بہت ہی انہماک سے انجام دیا اور قرآن کی تعلیمات کو تمام انسانوں تک پہنچانے کا اہم کام پائے تکمیل کو پہنچا ۔ 1992 میں قرآن مجید کا مراٹھی ترجمہ بھی آپ ہی کی کاوشوں سے انجام پایا۔
مولانا کی ایک اور اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم مذہبی رہنماوں کے درمیان بھی مقبول تھے۔ شنکر اچاریہ، سوامی اگنی ویش، والس تھامپو، گرنتھی منجیت سنگھ صاحب سے آپ کے برادرانہ تعلقات تھے۔ ان سبھی کو ساتھ لے کر مولانا نے ’دھارمک جن مورچہ ‘ کی بنیاد ڈالی اس طرح ایک اہم پلیٹ فارم قائم ہوا۔
جب مولانا امیر جماعت تھے اس وقت قرآن پریچے سمیلن، اور قرآن مجید کے تعارف کے لیے ہفتہ، پندرہ یوم کی مہمات منائی جاتی تھیں جس کی وجہ سے قرآن مجید برادران وطن تک پہنچا۔ مولانا برادران وطن کے مذہبی پروگرامس میں بھی شرکت کرتے اور اسلام کی تعلیمات پہنچانے کہ ہر ممکن کوشش کرتے۔
مولانا سے بات کرتے وقت ان کے مطالعہ اور علمی قابلیت کا اندازہ ہوتا تھا، ایک مرتبہ والدین کے حقوق اور بچوں کے ان سے تعلقات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ اگر کوئی شخص بہت بڑا عالم و فاضل ہو اس کامطالعہ بہت اچھا ہو اور قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی بہت پائے کا ہو لیکن اگر اس کے تعلقات اپنے والدین سے اچھے نہ ہوں تو وہ دنیا و آخرت میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ شخص جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی وہ اپنے ساتھیوں کی تربیت کیا کرتے تھے، ان غیر رسمی نشستوں میں جو باتیں کہتے ان کے گہرے اثرات تمام ہی ساتھیوں پر مرتب ہوتے تھے۔
فروری 1981 میں کیمیکل انجینئرنگ کے تیسرے سال میں زیر تعلیم تھا اس وقت جماعت کے کل ہند اجتماع کا اعلان ہوا اتفاق سے جن تواریخ میں کل ہند اجتماع تھا انہی تاریخوں میں ہمارے امتحانات آگئے، میں اور لاتور کے سلیم پٹیل بڑے پریشان ہوگئے کہ اب کیا کیا جائے؟ امتحان دیں یا اجتماع میں جائیں؟ ایک سوچ تو یہ تھی کہ سمسٹر امتحان ہے اس دفعہ امتحان نہیں دیتے ہیں اور اجتماع میں چلے جاتے ہیں اور اگلے سمسٹر میں باقی پرچے بھی دے دیے جائیں ہم دونوں اسی ادھیڑ بن میں مولانا کے پاس پہنچے اور تفصیل سنائی میں نے کہا کہ ہم اجتماع میں شرکت کرنا چاہتے ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ امتحانات سامنے ہیں۔ اس پر مولانا نے کہا کہ جماعت اسلامی ہر قسم کی قربانی چاہتی ہے اور کہا کہ تم امتحان بعد میں دے سکتے ہو اجتماع میں شرکت کرو۔ ہم نے اجتماع میں شرکت کی تیاریاں مکمل کیں اور جس دن میں اور سلیم پٹیل صاحب اجتماع کے لیے روانہ ہو رہے تھے اسی دن انڈین ایکسپریس میں یونیورسٹی کا یہ اعلان شائع ہوا کہ جن طلبہ کی پڑھائی نہیں ہو سکی ہے وہ ایک ماہ بعد بھی امتحان دے سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ دو مرتبہ امتحان لیے جارہے تھے۔ ہم دونوں بہت خوش ہوئے اجتماع گاہ پہنچ کر ہم نے مولانا کو تصیلات بتائی تو مولانا بہت خوش ہوئے اور کہا کہ تمہارا معاملہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے قربانی کا مطالبہ کیا اور وہ جب تیار ہوگئے تو اللہ نے ان کے فرزند کو بچا دیا اس طرح انہیں قربانی کا ثواب بھی ملا اور ان کا فرزند بھی ان کو واپس مل گیا اسی طرح تمہیں قربانی دینے کا ثواب بھی مل گیا اور امتحانات بھی ضائع نہیں ہوئے۔ مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میرے بندے میری خاطر قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں یا نہیں اگر وہ تیار ہو جاتے ہیں تو انہیں پریشانی میں نہیں ڈالتا بلکہ مزید نواز دیتا ہے۔ یہ واقعہ اور اس سے حاصل شدہ سبق مجھے آج بھی یاد ہے اور میں تاحیات اسے بھلا نہیں سکتا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ مولانا! آپ اتنے اچھے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کتنے اچھے تھے ہوں گے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیر کی دھول کی بھی برابری نہیں کرسکتے۔ تو میں نے سوچا کہ جب آپ صلی اللہ و علیہ و سلم کی وفات کے 1400 سال بعد ان کے پیروں کی خاک اتنی اچھی ہو سکتی ہے تو آپ صلی اللہ و علیہ و سلم کی کیا شان رہی ہوگی۔
مولانا کو دیکھتے ہی اللہ کی یاد دل میں تازہ ہو جایا کرتی تھی ان کی جیسی شخصیت میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی ان کا سانحہ ارتحال اسلامی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!!
***
مولانا سراج الحسن صاحب بہت زیادہ محبت کرنے والے نرم دل انسان تھے ان سے پہلی ملاقات میں ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ ان سے پہلی مرتبہ مل رہے ہیں یوں لگتا جیسے برسوں کی شناسائی ہے اسلامی تعلیمات سے آپ کی واقفیت کمال درجہ کی تھی جب بھی کسی موضوع پر بات کرتے اس کا حق ادا کردیا کرتے تھے اور بہت بڑے نظریات کو آسان کر کے پیش کر دیا کرتے تھے، سخن دلنواز تھا، آواز میں بلا کی کشش، روانی اور سلاست تھی، تقاریر میں منظر کشی ایسی کرتے کہ سماں بندھ جایا کرتا ۔