یادر رفتگاں: احمد حسین ملّا صاحب ۔ایک مثالی داعی
مرحوم کے دعوتی تجربات دعوت الی اللہ کی تحریک پیدا کرنے کا باعث
ڈاکٹر بلگامی محمد سعد
احمد حسین ملّا صاحب جماعت اسلامی ہند، کرناٹک کے ایک مخلص اور ہردلعزیز رکن جماعت تھے جو 17؍ مارچ 2020 کی رات اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی شخصیت بہت سی خوبیوں کی مالک تھی۔ دعوتی کام ان کا خصوصی میدانِ کار تھا جس میں انہوں نے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ذیل میں ان کے تحریکی و دعوتی سفر کے کچھ خاص پہلووں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ اس کے ذریعہ سے تحریک کے دیگر رفقاء کے لیے خصوصی طور پر اور ملت کے لے عمومی طور پر اس فریضہ کی ادائیگی کی طرف توجہ و ترغیب کا سامان فراہم ہوگا۔
احمد حسین ملّا صاحب یکم جون ۱۹۵۲ء کو شہر ہبلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان پیری مریدی اور چن بسویشور سے زیادہ متاثر تھا۔ ملّا صاحب کو مطالعہ کا شوق تھا۔ تفہیم القرآن اور دیگر تحریکی لٹریچر سے بتدریج متاثر ہوئے۔
BEML – Bharat Earth Movers Limited فیکٹری میں 1972 میں ملازمت اختیار کی اور بنگلور میں سکونت اختیار کی۔ 1991 میں جماعت کی رکنیت حاصل کی۔ مرحوم، جمیل احمد صاحب چنئی سے بے حد متاثر تھے۔ یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ جمیل صاحب کے بنگلور دعوہ ورکشاپ کے بعد ہی وہ عملاً اس میدان میں آگے آئے۔ ملا صاحب نے لٹریچر کے مطالعہ کے علاوہ کئی اہم شخصیات سے ذاتی تعلقات کے ذریعہ استفادہ کیا تھا۔ عبد اللہ اڈیار، مولانا کلیم صدیقی، مریم جمیلہ اور کئی ایک نامور علماء سے آپ کی ملاقاتیں رہیں۔دعوت کے موضوع پر لمبی چوڑی گفتگو کے بجائے آپ کا انداز انتہائی سادہ اور راست ہوتا تھا۔اخلاقی برتاؤ اور خدمت کے ذریعہ دلوں کو موہ لیتے۔ قرآن مجید کا تحفہ لے کر افسران، ڈاکٹرس ، پروفیسرس اور بے شمار شخصیات سے انہوں نے ملاقاتیں کی ہیں۔ روزآنہ دعوتی کام کرتے اور ہمیشہ دعوتی کتب و فولڈرس اپنے ساتھ رکھتے۔ فیکٹری سے گھر پہنچنے سے پہلے دیر رات تک ملاقاتوں کا سلسلہ رہتا۔ leave ختم ہوجاتی تو loss of pay پر کام پر نکل جانا ان کا معمول بن گیا تھا۔
موصوف کا گھر متلاشیان اسلام کے لیے اور نو مسلموں کے لیے شہر میں ایک معروف مرکز تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 1500 سے زیادہ لوگ آپ کے ذریعہ مشرف بہ اسلام ہوئے یا آپ کے زیر تربیت و کفالت رہے۔ کئی سو نو مسلموں کی شادیاں آپ کے گھر میں منعقد ہوئیں۔ گھر کا ایک کمرہ نو مسلمین کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔ نو مسلموں کو اسلام قبول کرنے کے بعد کے ابتدائی ایام میں تحفظ واخفاء کی ضرورت پیش آتی، مثلاً ختنہ کے بعد افاقہ، شادی کے بعد چند دن قیام اور ان کی بنیادی تعلیم وتربیت کا مرحلہ وغیرہ یہ سب کام اسی کمرے میں ہوتے۔ مہمان نوازی کا خاص خیال رکھتے۔نو مسلموں کی باز آبادکاری ایک سخت مشکل کام ہے جس کی طرف کم ہی لوگ توجہ کر پاتے ہیں۔ ملّا صاحب اس معاملہ میں بہت ممتاز تھے۔شادی، مالی تعاون، ابتدائی قانونی کارروائی، ازدواجی زندگی میں مسائل کا حل، روزگار سے جوڑنا، بعض لوگوں کے لیے خلیجی ممالک میں ملازمت کا نظم کرنا۔ ان سب پہلووں پر آپ توجہ دیتے۔ بعض موقعوں پر پولیس اور رشتہ داروں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا جسے وہ بڑے صبر وحوصلہ کے ساتھ جھیلتے۔ بعض مقدمات طویل بھی چلتے جس کی پیروی کے لیے دور دراز مقامات پر عدالتوں میں حاضری کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑتیں۔ نو مسلموں کی دلجوئی اور مالی تعاون کرنے اور کرانے کے سلسلہ میں ہمیشہ آگے رہتے۔ رمضان المبارک میں ایک آدھ افطار کی دعوت ضرور کرتے جس میں نو مسلمین کی بڑی تعداد شریک رہتی۔
دعوت کی دھن ہمیشہ سوار رہتی۔ بس یا آٹو میں سفر کرتے تو پڑوسی مسافر سے چند ہی جملوں میں دوستی وبے تکلفی اختیار کر لیتے۔ آٹو ڈرائیورس کو شراب یا بری عادتوں سے باز آنے، گھر والوں کا خیال رکھنے اور نیکی کو اختیار کرنے کی تلقین کرتے۔ کسی صاحب نے ان سے دعوت کے مبادیات سیکھنا چاہا تو ان کو قریب کی ہوٹل میں ناشتہ پر لے گئے اور بیرے سے ناشتہ کے دوران تفصیلی تعارف بھی حاصل کیا۔ ہمت افزائی بھی کی اور جاتے ہوئے سو رپیے tip بھی دے دیا اور کہا کہ میرے کام کا آغاز ہوگیا ہے۔ہمیشہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ دعوت کے کام میں خرچ کرتے۔ علماء اور تحریکی قائدین کی خدمت میں پیش پیش رہتے۔ فیکٹری کے ساتھیوں میں قرآن اور لٹریچر خوب تقسیم کرتے۔ دعوتی مساعی کا بعض موقعوں پر نتیجہ دیر سے نکلتا ہے جس کا ہمیں خیال نہیں ہوتا۔ سبکدوشی کے کئی سال بعد ایک سرجن ڈاکٹر سنتوش کا انہیں فون آیا جو ملاقات اور قبول اسلام کا متمنی تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کے والد ملّا صاحب کے ساتھی تھے جن کو کئی سال پہلے انہوں نے لٹریچر دیا تھا جس کو پڑھ کر وہ اسلام کی طرف راغب ہوئے۔
دعوتی ورکشاپ وغیرہ میں ملّا صاحب کے عملی تجربات اور سیرت کی روشنی میں تذکیر وغیرہ سے رفقاء بے حد متاثر ہوتے۔ تحریکی اور ملت کے دیگر حلقے بھی برابر آپ سے استفادہ کرتے۔ مولانا سید جلال الدین عمری صاحب سابق امیرِ جماعت کا تاثر تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق پورے ہندوستان میں تحریکی حلقوں میں ان سے زیادہ کامیاب اور مؤثر داعی کوئی اور نہیں تھا۔ امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی صاحب، مولانا کاکا سعید صاحب عمری، مولانا اقبال ملّا صاحب اور مولانا محمد جعفر صاحب، جناب امین الحسن صاحب اور کئی ایک بڑی شخصیتوں نے اپنے پیغامات میں ان کی داعیانہ مساعی کا ذکر کیا ہے۔ مولانا الیاس ندوی بھٹکل اور ملانا سجاد نعمانی صاحب بھی ان کی دعوتی جدوجہد کے بڑے قدرداں تھے۔
ملّا صاحب کچھ بہت بڑے تعلیم یافتہ یا قرآن وحدیث کے عالم نہیں تھے۔ مگر دعوتی سوز وتڑپ اور سعیٔ مسلسل کا عملی نمونہ تھے۔ ایک عام تحریکی کارکن اگر کوشش کرے تو دعوت کے میدان میں کیا کچھ کر سکتا ہے اس کی آپ ایک تابناک مثال تھے۔ اللہ تعالیٰ اس مخلص خادم دین کی خدمات کو قبول فرمائے۔ تحریک اسلامی اور ملت اسلامیہ کو ان جیسے داعیانِ اسلام اپنی صفوں میں کھڑا کرنے کی توفیق دے۔ آمین
٭٭٭
(مضمون نگار امیر حلقہ، جماعت اسلامی ہند، حلقہ کرناٹک ہیں)
موصوف کا گھر متلاشیان اسلام کے لیے اور نو مسلموں کے لیے شہر میں ایک معروف مرکز تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 1500 سے زیادہ لوگ آپ کے ذریعہ مشرف بہ اسلام ہوئے یا آپ کے زیر تربیت و کفالت رہے۔ کئی سو نو مسلموں کی شادیاں آپ کے گھر میں منعقد ہوئیں۔ گھر کا ایک کمرہ نو مسلمین کے لیے مختص کر دیا گیا تھا