’’ہندو دھرم اور اسلام کا تقابلی مطالعہ‘‘

حافظ محمد شارق سلیم کی تقابلی نہج پر لکھی گئی ایک اہم کتاب

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

تقابل ادیان پر ایک اہم کتاب حافظ محمد شارق سلیم کی ’’ہندو دھرم اور اسلام کا تقابلی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے دستیاب ہے۔ اس کتاب کو 2011میں قرطاس پبلشرز کراچی نے شائع کیا ہے۔ کتاب میں جن مباحث پر بحث کی گئی ہے ان سے کتاب کی علمی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ قارئین کی دلچسپی کے لیے کتاب کے مندرجات و مشمولات پیش کیے جارہے ہیں۔ یہ کتاب تبصرہ، ضمیمہ اور دس ابواب پر مشتمل ہے۔ جن کی فہرست اس طرح ہے۔ باب اول تعارف مذاہب۔ باب دوم کتب مقدسہ، اس میں ہندو مذہب اور اسلام کے مصادر و مآخذ کا تعارف پیش کیا ہے۔ باب سوم تصور خدا، اس میں دو فصلیں ہیں، ہندو دھرم میں تصور خدا اور اسلام میں تصور توحید۔ باب چہارم عبادات، اس میں ہندو دھرم اور اسلام کے نظام عبادت پر گفتگو کی گئی ہے۔ باب پنجم معاشرتی نظام، اس میں بھی اسلام اور ہندو دھرم کے معاشرتی نظام پر بحث کی گئی ہے۔ باب ششم عقیدہ بعد الموت اور نجات اس کے تحت ہندو دھرم اور اور اسلام کے عقیدہ بعد الموت اور نجات کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ باب ہشتم سائنس۔ اس میں دو فصلیں ہیں، ہندو دھرم اور کائنات، دوسری، کائنات اور جدید سائنس۔ باب نہم احکام اور تعلیمات، پہلی فصل ہندو دھرم کی تعلیمات اور دوسری فصل اسلام کی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ باب دہم اسلام اور ہندو دھرم کا تعلق، اس کی بھی حسب سابق دو فصلیں ہیں۔ ہندو دھرم میں اسلام کا ذکر اور اسلام میں ہندو دھرم کا ذکر۔ صفحات کی تعداد 337 ہے۔
سبب تالیف
مصنف نے لکھا ہے ’’اردو زبان میں ادیان پر لکھنے کا رجحان زیادہ پرانا نہیں ہے۔ باقاعدہ تقریبآ اٹھارویں صدی عیسوی سے اردو زبان میں مذاہب عالم پر لکھنے کا رجحان قائم ہوا۔ اردو زبان میں عیسائیت پر اچھا مواد موجود ہے لیکن ہندو مت پر چند کتابیں ہی دستیاب ہیں۔ ان میں بھی ہندو مت کی کتب میں درج مذہب کے بجائے مقامی اور ہندوستانی کلچر پر زیادہ مواد ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں صحائف کے حوالے کم اور منطقی کلام زیادہ ملتا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندو دھرم اور اسلام کے تقابل پر مبنی تحقیقی مواد سے اردو ادب اب تک محروم نظر آ تا ہے۔ اس موضوع پر آخری معیاری کتاب ’’تحفة الہند‘‘ لکھی گئی ہے۔ لیکن اسے بھی برسوں گزر چکے ہیں اور اس کتاب کا انداز تبصرانہ ہے۔ لہذا اس موضوع پر مکمل اور جامع کتاب کی کمی کافی عرصے سے شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ اس کے لیے خدا نے اس بندے کے دل میں اس موضوع پر لکھنے کا خیال ڈالا ‘‘۔ مصنف نے مذکورہ اقتباس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہندو مذہب کے حوالے سے اُردو میں کوئی بھی وقیع کام نہیں ہوا ہے اس لیے اس کمی کو دور کرنے کے لیے اس موضوع پر کام کرنے کی جسارت کی۔ مصنف موصوف کے اس دعویٰ سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس قبل ہندو دھرم پر کئی اہم اور علمی کتابیں آ چکی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مصنف کی وہاں تک رسائی نہ ہوئی ہو۔
ہندو مت میں تخلیق کائنات کا تصور
یوں تو پوری کتاب قابل مطالعہ اور لائق تحسین ہے لیکن تمام مباحث کا ذکر طوالت کا باعث ہوگا اس لیے اس کتاب کے اہم عناوین پر گفتگو کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کائنات کی تخلیق کے متعلق ہندو دھرم میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ حتی کہ تمام ہندو مت کے بنیادی ماخذ و مصادر کا الگ الگ نظریہ ہے۔ لیکن ذیل میں فاضل مصنف نے رگ وید باب دس اور شلوک 129کے حوالے سے لکھا ہے۔
’’اس وقت عدم تھا اور نہ وجود، نہ عالم خلا کے بانی اور نہ آسمان تھا۔ کیا چیز ان کا احاطہ کرتی اور وہ سب کچھ کہاں قائم ہوتا؟ اس وقت پانی بھی نہیں تھا۔ اس وقت نہ موت تھی نہ ابدی حیات اور نہ دن رات کا کوئی فرق تھا۔ بے حرکت نفس اپنی قدرت کے ساتھ وہی ایک تھا، اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ تاریکی ہی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ یہ سب کل کائنات بے نام ونشان اور غیر موجود صورت میں تھی۔ اس اولین تخم وروح میں خواہش پیدا ہوئی جسے عقلمندوں نے اپنی دانائی سے معلوم کرلیا کہ وہ عدم اور وجود کا باہم اتصال ہے۔ ان کی دانش اور اس کے اوپر قدرت تھی۔ کون فی الحقیقت یہ جانتا ہے اور کون اسے یہاں بیان کر سکتا ہے کہ کہاں سے یہ دنیا پیدا ہوگئی اور کہاں سے یہ خلقت وجود میں میں آئی۔ دیوتا تو اس دنیا کی پیدائش کے بعد کے ہیں تو پھر کون جانتا ہے کہ کب وہ پہلے پہل وجود میں آئی۔ وہ جو اس خلقت کا اولین سبب ہے اس نے یہ سب بنایا بھی ہے یا نہیں۔ وہ کہ جسکی آنکھ عرش اعلیٰ سے دنیا پر حکومت کرتی ہے۔ وہ فی الحقیقت اس کو جانتا ہے یا وہ بھی نہیں جانتا‘‘۔
اس نظریہ سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگئی کہ ہندو دھرم میں کائنات کی تخلیق کے متعلق کوئی ٹھوس یا مستحکم نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ متضاد خیالات کا مرقع ہے۔ رگ وید کے اسی باب کے شلوک 90 میں یہ بھی لکھا ہے’’جب دیوتاؤں نے پہلے انسان کی اپنے شکار کی حیثیت سے قربانی کی۔ موسم بہار کو پگھلا کر مکھن کر دیا گیا۔ گرمی کو ایندھن اور خزاں کو اس کا چڑھاوا بنایا گیا۔ اس کو قبول کرنے والے سے منجمد مکھن یکجا ہو گیا، اسی سے اس نے مرغان ہوا۔ درندوں اور چرندوں کو بنایا‘‘ ( 254-255) اسی طرح ہندو مت میں انسان تخلیق کے متعلق درج ذیل چیزیں ملتی ہیں۔
’’ابتداء میں ایک ہی روح تھی۔ یہ روح جب اپنے اردگرد دیکھتی تو اسے اپنے سوا کچھ نظر نہ آ تا۔پس روح پکارتی! یہاں میں ہوں، تب اس لمحے سے’’میں‘‘ کا تصور قائم ہوا اور ’’میں’’ نے وجود پایا۔ وہ تنہا تھا اسی لیے اب بھی تنہائی میں انسان خوف محسوس کرتے ہیں۔ تب اس نے سوچا کہ میں تنہا کیوں خوف زدہ ہوں؟ کیونکہ میرے سوا کچھ نہیں ہے اس طرح خوف دور بھاگ جائے گا۔ وہ خوش نہیں تھا اس لیے آ ج بھی کوئی انسان اکیلا ہوتا ہے تو وہ خوش نہیں ہوتا۔ وہ روح اول ایک ساتھی کی خواہشمند تھی اس لیے ایک مرد اور ایک عورت کو مربوط صورت میں بنایا۔ پھر اسے دو حصوں میں علیحدہ کیا، مرد شوہر بن گیا اور عورت بیوی۔ یعنی ابتداء میں مرد اور عورت ایک ہی جسم میں تھے۔ پھر میاں بیوی نے جفتی کی اور ان سے مخلوق پیدا ہوئی۔ تب اس عورت نے سوچا کہ میں اور میرا خاوند ایک ہی روح سے پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہمیں آپس میں جفتی کرنا غلط ہے اس لیے اس نے خود کو چھپالیا اور گائے بن گئی۔ اس کا خاوند (منو) بیل بن گیا اور انہوں نے پھر صحبت کی اس سے حیوان پیدا ہوئے، پھر وہ گھوڑی بن گئی اور وہ گھوڑا بن گیا اور ان کے اختلاط سے گھوڑے پیدا ہوئے۔ اس طرح تمام زندہ مخلوق پیدا ہوئی، یہاں تک کہ کیڑے مکوڑے ایسے ہی پیدا ہوئے۔‘‘ (ایضاً صفحہ 257)
گویا ہندو مذہب میں یہ کہانی ہے کائنات کے نشو و نما کی۔ ان سب باتوں پر یقین کرنا بڑا مشکل ہے لیکن ہندو ازم کی اپنی روایات ہیں اس کے اپنے نظریات ہیں وہ ایک تہذیب ہے۔ اس لیے ہم اس نظریہ پر تو چوٹ نہیں کرنا چاہتے لیکن یہاں یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ اس بابت اسلام کا کیا نظریہ ہے۔
اسلام میں تخلیق کائنات کا تصور
اسلام کا نظریہ واضح کرنے سے قبل یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام میں ہندو دھرم کی طرح کائنات کی تخلیق کے متعلق مبہم یا غیر واضح نظریہ نہیں پایا جاتا ہے۔ اس لیے فاضل مصنف نے قرآن کریم کی درج ذیل آیات سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ سورہ ہود آیت 7 میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ ’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ’’کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں جدا جدا کردیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر کیا یقین نہیں کرتے‘‘( الانبیاء:30) ایک اور جگہ ارشاد ہے ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ ایک دھواں سا تھا تو اس نے زمین و آسمان سے کہا تم اطاعت کرو‘‘(حم السجدہ:11)
تخلیق انسان کے متعلق بھی اسلام کا نقطہ نظر بالکل واضح اور شفاف ہے۔ کیونکہ انسان کی ابتدا آدم اور ان کی بیوی حوا سے ہوئی۔
قرآن میں اس مسئلہ کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے۔
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں پیدا کیا ایک جان سے، اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت پھیلا دیے‘‘ اب ذرا دونوں ادیان پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ کہ ہندو مت میں تخلیق کائنات اور اس کے فروغ کا نظریہ نہ صرف غیر واضح ہے بلکہ اس پر یقین کرنا بھی دشوار کن امر ہے۔ برعکس اس کے کہ اسلام نے تخلیق کائنات کے مسئلہ کو انتہائی شفافیت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں کسی طرح کا جھول نہیں ہے اور یہ ایسا واضح نظریہ ہے جو ہر کس وناکس کی سمجھ میں بخوبی آ سکتا ہے۔
مذاہب کا باہمی تعلق
کتاب کے آخری باب میں مصنف نے دونوں ادیان کا باہم تعلق بتانے کی کوشش کی ہے۔ یہ باب انتہائی اہم اور علمی گفتگو پر مشتمل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو دھرم میں اسلام کا ذکر ہے؟ اس سلسلے میں چند چیزیں پیش خدمت ہیں۔ ہندو منابعات میں بیت اللہ کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ اتھر وید میں مذکور ہے۔’’برہما (خالق) اس گھر میں رہتا ہے جو جنت کی روشنیوں سے روشن اور مقدس ارواح (فرشتوں) سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کو روحانی سکون ملتا ہے‘‘ اسی طرح اتھر وید کے دوسرے اشلوک میں ہے
’’خواہ وہ اونچائی پہ بنا ہو، اس کی دیواریں سیدھی ہوں یا نہیں لیکن خدا اس کے ہر زاویے میں دیکھتا ہے۔ یہ بات خدا کے گھر کو جاننے والے جانتے ہیں کیونکہ وہاں خدا کو یاد کیا جاتا ہے‘‘ فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں ایک نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ یہودیوں، عیسائیوں اور صائبین کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے لیکن ہندوؤں کا تذکرہ ان کے نام سے نہیں ہے۔ اس ضمن میں مصنف کا کہنا یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر قوم میں نبی بھیجے ہیں لہذا ہوسکتا ہے قوم ہنود میں بھی کوئی نبی آ یا ہو۔ انہوں اپنے دعویٰ کے استدلال میں قرآن کریم کی درج ذیل آیات پیش کی ہیں۔ ’’یقینا ہم مبعوث کر چکے ہر امت میں رسول کہ ( لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو‘‘( سورہ نحل 36) اسی طرح اللہ تعالیٰ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’یقینا ہم تم سے پہلے بھی بہت رسول بھیج چکے ہیں ان (رسولوں) میں بعض کا حال ہم نے تم سے بیان کیا ہے اور بعض کا حال ہم نے تم سے بیان ہی نہیں کیا‘‘ ہو سکتا ہے کہ قوم ہنود میں کسی نبی کو مبعوث کیا گیا ہو لیکن اس کا تذکرہ نہیں کیا ہو۔ اس کے علاوہ مصنف نے ابوالحسن مسعودی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’صائبین سے مراد ہنود ہی ہوں کیونکہ ان کی تحقیق کے مطابق یہ وہ مذہب تھا جو زرتشت کے ظہور سے پہلے ایران میں رائج تھا‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے یہ تحقیق بھی پیش کی ہے کہ یہ وہ مذہب ہے جسے ’’بوذاسب‘‘ نے ’’طہورس‘‘ کے زمانہ میں پیش کیا تھا بوذاسب اور زرتشت کا زمانہ بہت ہی قریب چھٹی صدی قبل مسیح ہے۔ بوذاسب کا مذہب کیا تھا، اس بارے میں اہل علم جانتے ہیں کہ ویدک دھرم تھا۔ مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو مذہب کا تذکرہ اگرچہ صراحتاً نہیں آیا ہے لیکن محقیقین کی ایک جماعت کے مطابق صابی ہی اہل ہنود ہیں۔
کتاب کی اہمیت
حافظ محمد شارق کی اس کتاب میں کئی اہم گوشوں پر گفتگو کی گئی ہے۔ جن کو طوالت کے باعث ترک کر دیا گیا ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب کے مباحث انتہائی اہم اور قابل مطالعہ ہیں۔ جن امور ومسائل کو زیر بحث لایا گیا ان کو ہندو دھرم کے منابعات و مصادر سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتاب میں اسلوب تحقیق متوازن اور سنجیدہ ہے۔ جارحانہ اسلوب سے گریز کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور اہم بات ہے کہ اسلام اور ہندو مذہب کا تقابل کیا گیا ہے۔ پھر وجہ ترجیح بھی بیان کی گئی ہے اور جہاں جہاں مماثلت و یکسانیت دونوں مذاہب میں پائی جاتی ہے اس کو بھی بتایا گیا ہے۔ چنانچہ وہ تخلیق کائنات کے باب میں لکھتے ہیں۔
’’اپنشد، مہا بھارت، وید اور قرآن مجید علمِ کائنات کے بابت کیا بتاتے ہیں یہ ہم نے مختلف حوالوں کے ساتھ پڑھا اور جانا ہے۔ ہم یہاں پھر سے یاد دہانی کرادیں کہ وید، اپنشد اور قرآن کو جدید سائنس کی روشنی میں جانچنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ کتابیں خدائی کلام ہیں تو کائنات کے متعلق اس میں کوئی غلط مفروضہ ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ خدا ہی اس کائنات کا خالق ہے اس کے ذاتی کلام میں کسی قسم کی سائنسی اغلاط کا کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ ہم نے یہاں دونوں مذاہب کے حوالے بیان کیے ہیں۔ اب کون سے مذہب نے اسے من وعن سائنسی نظریات کے عین مطابق بیان کرکے خود کو حق ثابت کیا اس بات کا بلا تعصب یہ فیصلہ قارئین کی ذمہ داری ہے‘‘
گویا یہ بات تو یقینی ہے کہ فاضل مصنف نے جو نکات و شواہد تخلیق کائنات کے حوالے سے بیان کیے ہیں ان میں اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں اور جدید نظریات سے بھی ہم آہنگ ہیں البتہ جو شواہد ہندو مت کے ہیں وہ انتہائی مبہم اور جدید افکار سے بھی متغائر نظر آ تے ہیں۔
***

وید، اپنشد اور قرآن کو جدید سائنس کی روشنی میں جانچنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ کتابیں خدائی کلام ہیں تو کائنات کے متعلق اس میں کوئی غلط مفروضہ ہونا ممکن نہیں کیونکہ خدا ہی اس کائنات کا خالق ہے اس کے ذاتی کلام میں کسی قسم کی سائنسی اغلاط کا کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020