ہندوؤں کے متعلق علامہ شبلی نعمانی کے افکار

تقابل ادیان پر سیرة النبی، مقالات شبلی، المامون، الفاروق، الندوہ اور دیگر رسائل میں اہم مباحث

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

علامہ شبلی نعمانی (1914-1857) نے علومِ اسلامیہ کی تدوین وترتیب میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ملت کو ان علوم و فنون اور معارف و حکم سے متعارف کرایا جن سے اہل علم عموماً آشنا نہ تھے۔ وہ متعدد کتب کے مصنف ہیں جیسے سیرة النبی، الفاروق، المامون اور مقالات شبلی (ان مقالات کو علامہ سید سلیمان ندوی نے مرتب کیا ہے) وغیرہ، یہ وہ بیش قیمت سرمایہ ہے جو آپ کے تبحر علمی اور تحقیقی و فکری صلاحیتوں کا بہترین مظہر ہے۔ یوں تو علامہ شبلی کی سیرة النبی آپ کے علم فضل کا بہترین شاہکار ہے لیکن آپ کی جتنی کتب و مقالات ہیں وہ انتہائی مستند وجامع اور جدید علمی گوشوں سے مملو ہیں۔ آپ کی حیات اور علمی خدمات پر بہت لوگوں نے خامہ فرسائی کی ہے جن میں علامہ سید سلیمان ندوی کی حیات شبلی نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ عہد حاضر میں ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی اور پروفیسر اشتیاق ظلی نے بھی شبلی شناسی کا نہایت تعمق سے مطالعہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علامہ شبلی نے تقابل ادیان یا ہندوستانی مذاہب کے حوالے سے کیا لکھا ہے؟ اس موضوع پر آپ کی کوئی مستقل کتاب تو نہیں ہے البتہ کچھہ مباحث سیرة النبی، مقالات شبلی، المامون، الفاروق، الندوہ اور دیگر رسائل میں ملتے ہیں۔ ان کتب میں دیگر اقوام کی تہذیب و ثقافت، علوم و معارف، فلسفہ، زبان و ادب اور ادیان و مذاہب کے جن پہلوؤں پر گفتگو کی ہے ان کو ذیل میں پیش کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ سیرة النبی میں تقابل ادیان کے متعلق درج ذیل مباحث موجود ہیں، عرب کی قدیم حکومتیں، تہذیب و تمدن، عرب کے مذاہب، نصرانی، یہودیت اور مجوسیت، سلسلہ اسماعیلی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کہاں آباد ہوئے، ذبیح کون ہے، مقام قربانی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی۔ مقالات شبلی کی جلد اول، دوم پنجم ششم اور ہفتم میں بالترتیب حسب ذیل مضامین ملتے ہیں۔ غیر قوموں کی مشابہت، اُردو ہندی، تحفة الہند (ہندی صنائع بدائع) موبدان مجوس (ہندوستان میں) یونان، فلسفہ، موسیقی، جغرافیہ، ہندسہ یا جامیڑی، دیگر علوم وفنون فارس، عبرانی، قبطی سنسکرت، مسلمانوں کی علمی بے تعصبی اور ہمارے ہندو بھائیوں کی ناسپاسی۔ فلسفہ یونان اور اسلام وغیرہ پر نہایت دلچسپ معلومات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ مسلم حکومتوں میں غیر مسلموں کے ساتھ رواداری ان کو مناصب اعزاز، نیز علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب حیات شبلی میں لکھا ہے کہ شبلی نعمانی نے ہندو مسلم اتحاد پر بھی مضامین لکھے ہیں نیز جب آریہ سماج کی تحریک وجود میں آئی تو اس کے دفاع کے لیے جن علماء (بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ) نے سعی کی ان کی خدمات کو بھی سراہا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں جب عیسائی مشنریوں نے ارتداد جیسے فتنہ کو ہوا دی، اس کا جن مقتدر شخصیات (مولانا رحمة اللہ کیرانوی وغیرہ) نے اس کا دفاع کیا ان کی توصیف بھی کی ہے۔ گویا علامہ شبلی کی تحریروں میں دیگر اقوام کے متعلق انتہائی مفید معلومات ملتی ہیں۔
اسلام سے قبل سیاسی نظام
اسلام سے قبل اہل عرب کے یہاں سیاسی نظم ونسق پایا جاتا تھا، اس کے لیے باقاعدہ انہوں نے متعدد حکومتیں تشکیل دے رکھی تھیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے ان حکومتوں کو متمدن کہا ہے۔ ’’کتبوں اور دیگر مورخین کی تصریحوں سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں پانچ متمدن سلطنتیں گزری ہیں۔ 1- معینی: معین یمن میں ایک مقام ہے جو کسی زمانہ میں سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ 2- سبائی: یعنی قوم سبا۔ 3- حضرموتی: حضرموت یمن کا مشہور مقام تھا۔ 4- قتبانی: عدن میں ایک مقام ہے جو آج کل گمنام ہے۔ 5- نابتی: حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام نابت تھا۔ یہ سلسلہ انہیں کی طرف منسوب ہے۔ شبلی نعمانی نے ان سلطنتوں کی تفصیل میں لکھا ہے کہ معینی سلطنت جنوبی عربستان میں تھی۔ اس کے صدر مقامات قرن اور معین تھے۔ کتبوں سے تقریبآ پچیس حکمرانوں کا پتہ چلتا ہے۔ محققین یورپ میں اختلاف ہے کہ معینی اور سبائی حکومتیں ہم زمان تھیں یا متقدم ومتاخر۔ گلازر کا خیال ہے کہ معینی حکومت بہت متقدم ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام سے پندرہ سو برس قبل موجود تھی۔ لیکن مولر کا بیان ہے کہ کوئی معینی کتبہ آٹھ سو برس قبل مسیح پہلے کا نہیں ملتا، اس بنا پر سبائی اور معینی دونوں ہم عصر ہیں۔ سبائی سلطنت کا پایہ تخت مارب تھا۔ اس زمانے کے سنگی کتبے بکثرت موجود ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے ایک سو پندرہ برس قبل اس حکومت کا پتہ چلتا ہے۔ اس دور کے بعد حمیر کا زمانہ ہے۔ حمیر نے مارب پر قبضہ کر کے پایہ تخت بنا لیا۔ تقریباً 125 قبل مسیح میں حمیر نے سبائی حکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ کتبوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حمیر میں چھبیس فرمانروا گزرے ہیں۔ حمیر کے بعض کتبوں سے سنہ وسال بھی کندہ ہے۔ ان کے عہد حکومت میں رومی سلطنت نے عرب میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش پہلی بھی تھی اور آخری بھی۔ اے لیس گالس جس نے حضرت عیسی علیہ السلام سے اٹھارہ برس قبل عرب پر چڑھائی کی تھی، بالکل ناکام رہا۔ اس کے رہبر دغا بازی سے اس کو صحرا میں لے گئے اور ریگستان میں پہنچ کر اس کا سارا لشکر تباہ ہو گیا۔ حمیر نے یہودی مذہب قبول کرلیا تھا اسی زمانہ کے قریب حبشیوں نے عرب کے جنوب میں حکومت قائم کرنی شروع کی اور ایک زمانہ میں حمیریوں کو شکست دے کر اپنی مستقل حکومت قائم کرلی تھی۔ اس عہد کا ایک کتبہ جو آج کل ہاتھ آیا ہے اس پر یہ الفاظ ہیں:’’ رحمان، مسیح اور روح القدس کی قدرت و فضل ورحمت سے اس یادگاری پتھر پر ابرہہ نے کتبہ لکھا جو کہ بادشاہ حبش اراحمیس ذبی مان کا نائب الحکومت ہے‘‘ نابتی حکومت جو شام کی حدود سے متصل تھی اور جو قوم ثمود کی مرادف یا ان کی قائم مقام تھی اس کی نسبت فاسٹر صاحب اپنے جغرافیہ میں لکھتے ہیں۔ ’’ان مختصر بیانات سے معلوم ہوگا کہ زمانہ قدیم میں نسبت کا نام اور اثر نہ صرف ریگستانی اور صحرائی عرب پر مستولی تھا بلکہ حجاز و نجد کے صوبہ ہائے عظیمہ پر بھی حاوی تھا۔ نابتی جہاں ایک طرف منافع تجارت سے بہرہ اندوز ہونے میں کمال رکھتے تھے وہاں دوسری طرف سچے بنو اسماعیل کے خطرات جنگ کے لیے بالکل مستعد رہتے تھے۔ فلسطین و شام میں ان کی غارت گریوں اور خلیج عرب میں مصری جہازات پر ان کی رہزنی بارہا تاجداران مقدونیہ کو ان کی دشمنی پر آمادہ کردیا لیکن روما کی مجموعی قوت سے پیشتر کوئی شئے انہیں روک نہ سکی۔ اور روما کی اطاعت بھی انہوں نے اسٹرابو کے زمانہ میں بالکل مجبورانہ اور مشتبہ انداز سے قبول کی‘‘ (سیرة النبی، جلد 1 صفحہ 79-81)
یہ حال تھا قدیم سلطنتوں کا البتہ یہ بات درست ہے کہ اسلام سے قبل یہ سلطنتیں پوری طرح تباہ ہو چکی تھیں۔ لیکن نتیجہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اسلام سے قبل ایک سیاسی انتظام وانصرام پایا جاتا تھا۔
تہذیب و تمدن
تہذیب و تمدن ہر معاشرہ کی شناخت ہوتا ہے جو معاشرہ تہذیب و ثقافت جیسے بنیادی اصولوں سے واقف نہ ہو یا اس میں کوئی تہذیب نہ پائی جاتی ہو تو اس سماج کو ایک اچھا سماج نہیں مانا جاتا ہے۔ اسلام سے قبل جو تہذیبی آثار پائے جاتے ہیں علامہ شبلی نے ان کو اپنی کتاب سیرة النبی میں بیان کیا ہے۔
’’عرب کے بعض حصے مثلاً یمن کسی زمانہ میں انتہا درجہ کی ترقی تک پہنچ چکے تھے۔ یورپ کے محققین جنہوں نے آثار قدیمہ کی تحقیقات کی ہے اور پرانے کتبوں کو پڑھا ہے وہ یمن کی قدیم تہذیبوں و تمدن کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح عرب کے وہ مقامات جو ایران اور شام سے متصل تھے، مثلاً حیرہ جو آل نعمان کا پایہ تخت تھا اور حوران جو خاندان غسان کا صدر مقام تھا تہذیب و تمدن سے خالی نہ تھے‘‘ اس کے علاوہ علامہ شبلی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’عرب کے اصلی اور اندرونی مقامات میں تہذیب و تمدن کی یہ حالت نہ تھی۔ عربی زبان نہایت وسیع ہے اس کے باوجود جن چیزوں کو تمدن اور اسباب معاشرت سے تعلق ہے ان کے لیے خاص عربی زبان میں الفاظ نہیں ملتے بلکہ ایران یا روم سے مستعار آئے ہیں۔ سکہ کے لیے ایک لفظ بھی موجود نہیں۔ درہم اور دینار دونوں غیر زبانوں کے الفاظ ہیں۔ درہم یونانی لفظ درخم ہے اور یہ وہی لفظ ہے جو انگریزی میں ڈرام ہوگیا ہے۔ چراغ معمولی چیز ہے تاہم اس کے لیے عربی میں کوئی لفظ نہیں تھا۔ چراغ کو لے کر سراج کر لیا۔ پھر ایک مصنوعی لفظ بنایا مصباح یعنی ایک اعلی جس سے صبح بنالی جاتی ہے۔ کوزہ کے لیے کوئی لفظ نہیں، کوزہ کو کوز کرلیا ہے۔ لوٹے کو ابریق کہتے ہیں جو آب ریز کا معرب ہے۔ تشت فارسی لفظ تھا اس کو عربی میں طست کرلیا ہے۔ پیالہ کو کاس کہتے ہیں وہی کاسہ فارسی لفظ ہے ۔‘‘ ( ایضاً صفحہ ،81- 84)
پتہ یہ چلا کہ اسلام سے قبل اہل عرب تہذیب وتمدن کے اعلی معیار اور بہتر طرز معاشرت سے تقریباً ناواقف تھے۔
عرب کے مذاہب
علامہ شبلی نے سیرة النبی میں ایک انتہائی اہم بحث عرب کے مذاہب و ادیان سے متعلق کی ہے۔ اس تفصیل کو بیان کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ عرب میں بت پرستی تھی اسی طرح یہ کسی سامی دین کے بھی تابع نہیں تھے۔ یعنی عرب میں اکثریت بت پرستوں کی تھی۔ راقم کا مدعا بھی غیر سامی ادیان ہی ہیں۔ اس لیے اس بحث کو آپ کے گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جو افکار عربوں کے دین و مذہب کے متعلق پائے جاتے تھے ان کو علامہ نے اس طرح بیان کیا ہے۔
بعضوں کا خیال تھا کہ جو کچھ ہے زمانہ یا فطرت ( قانون قدرت) ہے، خدا کوئی چیز نہیں ہے۔ بعض خدا کے قائل تھے لیکن قیامت اور جزا وسزا کے منکر تھے۔ اسی طرح ایک نظریہ یہ پایا جاتا تھا کہ اگر کوئی پیغمبر ہوسکتا ہے تو اس کو فرشتہ ہونا چاہئے جو حاجات انسانی سے منزہ ہو۔ البتہ اکثریت بت پرستوں کی تھی جو بتوں کو خدا تو نہیں سمجھتے تھے لیکن خدا تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔قبیلہ حمیر جو یمن میں رہتا تھا وہ آفتاب پرست تھا۔ کنانہ چاند کو پوجتے تھے۔ قبیلہ بنی تمیم دبران کی عبادت کرتا تھا اسی طرح قیس شعری کی، اسد عطارد و جذام مشتری کی پرستش کرتے تھے۔ جو قبیلے بتوں کی پرستش کرتے تھے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
لات کو ثقیف، عزیٰ کو قریش وکنانہ، منات کو اوس و خزرج، ود کو کلب، سواع کو ہذیل، یغوث کو مذجح اور بعض قبائل اور یعوق کو ہمدان پوجتے تھے۔ سب سے بڑا بت ہبل تھا جو کعبہ کی چھت پر منصوب تھا۔ قریش لڑائیوں میں اس کی جئے پکارتے تھے۔ عرب میں بت پرستی کا بانی ایک شخص عمرو بن لحئی تھا۔ اس کا اصلی نام ربیعہ بن حارثہ تھا۔ عرب کا مشہور قبیلہ خزاعہ اسی کی نسل سے ہے۔ عمرو سے پہلے جریم کعبہ کے متولی تھے۔ عمرو نے جریم کو مکہ سے نکال دیا اور خود حرم کا متولی ہوگیا ۔ وہ ایک دفعہ شام کے کسی شہر میں گیا وہاں کے لوگوں کو بت پوجتے دیکھا تو پوچھا کہ ان کو کیوں پوجتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ حاجت روا ہیں۔ لڑائیوں میں فتح دلاتے ہیں۔ قحط پڑتا ہے تو پانی برساتے ہیں۔ عمرو نے چند بت اس سے لے لیے اور لا کر کعبہ کے آس پاس قائم کئے۔ کعبہ چونکہ عرب کا مرکز تھا ۔اس لیے تمام قبائل میں بت پرستی کا رواج ہوگیا۔ ان میں سے قدیم بت مناة تھا۔ یہ سمندر کے کنارہ قدید کے قریب نصب تھا۔ اوس و خزرج یعنی مدینہ کے لوگ اسی پر قربانی چڑھاتے تھے اور جب کعبہ کا حج کر کے آتے تو احرام یہیں اتارتے تھے۔ ہذیل اور خزاعہ بھی اس کی پرستش کرتے تھے۔ ( ایضاً صفحہ 84-85)
مذکورہ بحث کی روشنی میں یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ عرب کے یہاں متعدد ادیان تھے اور قبائل اپنی اپنی عقیدت کے مطابق بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ عرب کی اکثریت کسی بھی آسمانی یا سامی دین کی تابع نہ تھی بلکہ وہ بت پرست تھے۔ جو یقیناً سامی ادیان کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔
ان کے علاوہ کچھ قبائل یہودیت و نصرانیت اور مجوسیت پر بھی کاربند نظر آ تے ہیں۔ چنانچہ علامہ شبلی لکھتے ہیں۔ ’’یہ تینوں مذاہب ایک مدت دراز سے عرب میں رائج ہو چکے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ نے معارف میں لکھا ہے کہ قبائل ربیعہ وغسان نصرانی تھے۔ خزاعہ میں بھی اس مذہب کا اثر پایا جاتا ہے۔ نصرانیت کو اس قدر ترقی ہوئی چکی تھی کہ خود مکہ معظمہ میں ایسے لوگ موجود تھے (مثلاً عروہ بن نوفل) جو عبرانی زبان میں انجیل کو پڑھ سکتے تھے۔ متعدد ایسے لوگ تھے جنہوں نے شام میں جا کر تعلیم پائی تھی۔ حمیر، بنوکنانہ، بنو حرث بن کعب، کندہ یہ قبائل یہودی تھے۔ مدینہ منورہ میں یہود نے پورا غلبہ پالیا تھا اور تورات کی تعلیم کے لیے متعدد درسگاہیں قائم تھیں جن کو بیت المدراس کہتے تھے۔ حدیث کی کتابوں میں اسی نام سے ذکر آ تا ہے۔ قلعہ خیبر کی تمام آبادی یہودی تھی۔ امراء القیس کا ہم عصر مشہور شاعر سمویل بن عادیا یہودی تھا۔ اہل کتاب کی روایتیں مکہ معظمہ اس قدر رواج پاچکی تھیں کہ آنحضرت ﷺ پر جب قرآن نازل ہوتا تھا اور اس میں بنی اسرائیل کے واقعات مذکور ہوتے تو کفار بد گمانی کرتے تھے کہ کوئی یہودی یا عیسائی آپ کو سکھاتا ہے۔‘‘ ( ایضاً صفحہ 86) گویا اہل عرب کا مرکزی دین بت پرستی تھی، اس کے باوجود چند قبائل اور کچھ افراد یہودت و نصرانیت کے بھی علمبردار تھے۔
پیشوایان مجوس
علامہ شبلی نعمانی نے مقالات شبلی میں ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دور اقتدار میں مجوس اہل علم سے کیا برتاؤ کیا۔ علامہ موصوف کہتے ہیں کہ بہت سے افراد خصوصاً اہل یورپ کو یہ شکوہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں مجوسیوں اور ان کے موبدان (پیشوایان مجوس) کے ساتھ تعصب و تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ چنانچہ علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے ’’اہل یورپ کا خاصہ ہے کہ دو ہم زمان واقعہ کو عموماً علت و معلول فرض کرلیتے ہیں، مثلاً جب تاریخ سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے بعد ایرانیوں کا لٹریچر برباد ہو گیا تو واقعی طور سے فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اسلام ہی کے طرز عمل کا نتیجہ تھا۔ اسی طرح وہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کی کسی اسلامی تاریخ میں پارسی قوم کے معابد کا، پیشوایان مذہبی کا، تصنیفات کا، تعلیم و تلقین کا پتہ نہیں چلتا تو ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ سلاطین ہندوستان نے تعصب کی وجہ سے یا تو سرے سے ان کو ملک میں گھسنے نہ دیا، یا ایسی حالت میں رکھا کہ ان کی کوئی امتیازی حیثیت قائم نہ رہی جس سے ان کے متعلق کسی قسم کی کوئی اطلاع حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہے تاریخ کی کم مائیگی کا قصور ہے‘‘ یعنی ایسے بہت سارے شواہد موجود ہیں جن میں مجوس کی آمد اور ان کے ساتھ رواداری کا ثبوت ملتا ہے۔ جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی اسلامی حکومتوں نے مجوس کے ساتھ نہایت مشفقانہ برتاؤ کیا۔ شبلی نعمانی نے مقالات شبلی میں کئی ثبوت پیش کئے ہیں جن سے یہ بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ مجوسی مسلم دور اقتدار میں موجود تھے اور ان کے ساتھ متوازن رویہ اپنایا گیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’اکبر کے زمانہ میں موبدوں کا پتہ چلتا ہے، اکبر نے جس زمانے میں مذہبی کانفرنس قائم کی اور ہر مذہب و ملت کے پیشوا دور دور سے بلائے تو ایران سے بھی خط و کتابت کی، اس زمانہ میں پارسیوں کا پیشوائے کل ’’آذرکیوان‘‘ تھا، اس نے آنے میں معذرت کی لیکن ایک عجیب و غریب کتاب اپنی تصنیف بھیجی جس کے متعلق مآثر الامراء میں لکھا ہے۔ اس کتاب میں یہ کمال تھا کہ خالص فارسی میں تھی، لیکن اگر نقطوں کو ادل بدل کر پڑھو تو عربی ہوجاتی تھی اور الفاظ کو الٹ کر پڑھو تو ترکی اور پھر مصحف کرنے سے ہندی ہوجاتی تھی‘‘ علامہ شبلی نعمانی نے آگے لکھا ہے کہ ’’اگرچہ اس ناممکن صنعت پر ہم یقین نہیں کرسکتے لیکن انکار کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ آذر کیوان نے تو آنے سے انکار کر دیا لیکن ایک دوسرا موبد جس کا نام ارد شیر تھا، حسب طلب آیا اور اپنے ساتھ مذہبی آتش کدہ کی آگ بھی لیتا آیا،چنانچہ اس کی حفاظت و اہتمام شیخ ابوالفضل کے سپرد کی گئی علاوہ ازیں دبستان مذہب میں یہ بات وضاحت سے لکھی ہے کہ آذرکیوان ہندوستان آیا اور عظیم آباد پٹنہ میں سکونت اختیار کی اور 1027ھ میں 85 برس کی عمر میں انتقال کیا‘‘ (مقالات شبلی، جلد 5، صفحہ 75-76)
اس حقیقت کو جاننے کے بعد کوئی بھی فرد یہ الزام عائد نہیں کر سکتا ہے کہ مسلم دور میں کسی مذہب کے ساتھ جانب داری کا معاملہ کیا۔ علاوہ ازیں جن موبدان مجوس سے دبستان مذاہب کے مصنف نے ملاقات کی ان کا تذکرہ بھی علامہ شبلی نعمانی نے کیا ہے۔ خراد: اس کا مورث اعلیٰ نوشیرواں کی خوان سالاری کا منصب رکھتا تھا، خراد نے شیراز میں آذر کیوان کی شاگردی اختیار کی اور ایک مدت تک سخت ریاضتیں اٹھائیں،1029ھ میں انتقال کیا۔
فرشید ورد: یہ شیراز میں آذرکیوان کے فیض سے مستفید ہوا اور ہندوستان میں 1029ھ میں وفات پائی۔
خردمند: سام نریمان کے خاندان سے تھا، مصنف دبستان، پٹنہ میں ان سے ملا۔ بہرام بن فرہاد: گودرز کے خاندان سے تھا، آذر کیوان جس زمانہ میں پٹنہ میں تھا، بہرام شیراز سے چل کر پٹنہ آیا اور تکمیل نفس میں بڑی محنتیں اُٹھائیں، اس نے فلسفہ کی تمام شاخوں میں کمال حاصل کیا اور فنون میں عربی، پہلوی اور فارسی زبانوں کی تصنیفات سے واقفیت حاصل کی تھی۔ عربی فلسفہ کی کتابیں خواجہ جمال الدین محمود جو علامہ دوانی کے شاگرد تھے پڑھی تھیں۔ تجارت کے ذریعے سے بسر کرتا تھا، 1034ھ میں لاہور میں وفات ہوئی۔ بہرام کی تین کتابیں مشہور ہیں۔ شارستان دانش، گلستان بینش، شارستان۔
ہوشیار: سورت میں پیدا ہوا، رستم کے خاندان سے تھا، نہایت راست باز، دلیر، صاحب تدبیر و مقدمہ فہم تھا، 1050ھ میں آگرہ میں وفات پائی، سرودمستان اس کی تصنیف ہے۔
موبد سروش: زردشت کی نسل سے تھا، عربی اور فارسی کے ساتھ ہندی زبان بھی جانتا تھا، اس کی تصنیفات کثرت سے ہیں مثلاً نوش دارد، سبکتگین زردشت افشار وغیرہ۔ 1036ھ کو کشمیر میں وفات پائی۔
خداجوئے: ہرات کا باشندہ تھا، مدت تک جویائے حق رہا، آخر خواب میں ہدایت ہوئی کہ آ ذر کیوان سے فیض حاصل ہوگا، چنانچہ موبد خوشی کے ساتھ اسطخر گیا اور آ ذرکیوان کے حلقہ میں شامل ہوا، عربی اور فارسی زبان میں مہارت رکھتا تھا، اکثر چپ رہتا تھا اور لوگوں کے اصرار سے گفتگو کرتا تھا آذر کیوان کی مشہور کتاب ’’جام کخیرو‘‘ کی شرح لکھی 1040ھ کو کشمیر میں وفات پائی۔ ( تفصیل دیکھئے ، مقالات شبلی، جلد 5، صفحہ 77-80)
ان کے علاوہ بھی علامہ شبلی نے کئی اور موبدان مجوس کے مختصر احوال لکھے ہیں ۔
ہندوؤں کے علوم، تہذیب اور دھرم کی قدردانی
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی مصادر اور دیگر کتب سنسکرت میں ہیں۔ ہندوستان میں سنسکرت زبان بھی رائج تھی۔ ہندوستان کے کئی علوم و فنون ایسے ہیں جن کو مسلمانوں نے اپنی قوم میں متعارف کرانے کے لیے سنسکرت سے عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح ان کے مذہب ودھرم کے متعلق معلومات حاصل کی گئیں۔ چنانچہ اس بابت علامہ شبلی نعمانی نے تفصیل سے لکھا ہے کہ دولت عباسیہ سے لے کر مغلوں کے دور تک مسلم حکمرانوں نے ان کے علوم وفنون، تہذیب وتمدن اور دین ودھرم کی قدر کرنے کے ساتھ ان کو مناصب جلیلہ پر بھی فائز کیا۔ دولت عباسیہ میں مختلف زبانوں کے تراجم عربی میں کئے گئے۔ سریانی، عبرانی، قبطی، فارسی کلدانی فنیقی وغیرہ اسی طرح سنسکرت زبان کے ترجمہ کی ابتدا عباسی فرمانروا ابو جعفر منصور کے زمانے میں ہوئی۔ اسی نہج کو برقرار رکھتے ہوئے خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید نے بھی اپنے دور میں ہندوستان سے تعلقات بڑھائے۔ حتی کہ ایک مرتبہ ہارون الرشید سخت بیمار ہوا اور پایہ تخت کے اطباء علاج سے عاجز آ گئے اس زمانہ میں ہندوستان کے ایک پنڈت کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی، ابو عمرو عجمی کی تحریک سے ہارون الرشید نے اس کو طلب کیا اور اس کے علاج سے خدا نے شفا دی، اس فاضل کا نام منکہ تھا۔ وہ طبابت کے علوم عقلیہ کا بڑا ماہر تھا، بغداد میں رہ کر اس نے فارسی زبان سیکھ لی اور سنسکرت زبانوں کے ترجمہ کرائے۔ علامہ شبلی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے دربار کا ایک نامور پنڈت سالی تھا جس کو عرب مصنف صالح لکھتے ہیں، اسی عہد میں ایک اور مشہور فاضل ہندو تھا جس نے سنسکرت کتابوں کے ترجمے کیے، اس کے باپ کا نام دھن تھا اور اہل عرب اس کو اس کے اصلی نام کے بجائے ہمیشہ ابن دھن یعنی دہن کا بیٹا لکھتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شبلی نعمانی نے اپنی تالیفات و تصنیفات میں دیگر ادیان کے متبعین کی تہذیب و ثقافت، علوم و فنون، دین و دھرم کا نہایت توسع سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کے افکار کی معنویت اس دور میں مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ جس طرح سے آج مسلمانوں کے متعلق ایک طبقہ یہ غلط فہمی پھیلا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے اس طرح کے خیالات پر علامہ شبلی نعمانی کے افکار ضربِ کاری ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہےکہ باہمی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ہمیں ایسی قدروں اور رویوں کو تشکیل دینا ہوگا جو ہر طرح کی اونچ نیچ اور شکوک وشبہات کو رفع کر سکیں۔ امید ہے کہ اس کوشش سے برادران وطن کے اندر رائج غلط فہمیاں بہت حد تک رفع ہوں گی۔
[email protected]
***

علامہ شبلی نعمانی نے اپنی تالیفات و تصنیفات میں دیگر ادیان کے متبعین کی تہذیب و ثقافت، علوم و فنون، دین و دھرم کا نہایت توسع سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کے افکار کی معنویت اس دور میں مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ جس طرح سے آج مسلمانوں کے متعلق ایک طبقہ یہ غلط فہمی پھیلا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے اس طرح کے خیالات پر علامہ شبلی نعمانی کے افکار ضربِ کاری ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہےکہ باہمی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ہمیں ایسی قدروں اور رویوں کو تشکیل دینا ہوگا جو ہر طرح کی اونچ نیچ اور شکوک وشبہات کو رفع کر سکیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021