ہندوستان:خواتین کے لیے سب سے خطرنا ک ملک
دوسروں پر انگشت نمائی سےقبل اپنا حال بھی دیکھ لیں
از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد
ہندوستانی میڈیا میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بڑے زوروشور سے اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ کیا وہاں خواتین کو آزادی ہوگی ؟ کیا وہاں خواتین کو تعلیم کے مواقع حاصل ہوں گے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ میری نظر سروے رپورٹ پر پڑی جسے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن نے دوسال قبل کیا تھا جسے پڑھنے کے بعد بڑا تعجب ہوا کہ ہندوستان تو خواتین پر جنسی تشدد کے معاملات سے سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے، اور نہ صرف جنسی تشدد بلکہ بندھوا مزدوری کے معاملہ میں بھی یہ خواتین کے لیے دنیا میں سب سے خطرناک ملک ہے۔ اس نے جنگ زدہ ممالک جیسے افغانستان، شام اور صومالیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اول درجہ حاصل کیا ہے۔ جب کہ ۲۰ سالہ جنگ سے بد حال افغانستان دوسرے ، شام تیسرے اور صومالیہ چوتھے مقام پر ہیں ۔ اس فہرست میں سعودی عرب پانچوں اور حیرت انگیز طور پر دنیا کا طاقتور ترین ملک امریکہ دسویں مقام پر فائز ہے۔ امریکہ ترقی یافتہ ممالک میں واحد مغربی ملک ہے جہاں خواتین پر جنسی تشدد کیاجاتا ہے ۔ وہاں کی خواتین نے کہا کہ خواتین پرجنسی تشدد، ہراساں کرنےاورجنسی تعلقات پرمجبورکرنے کا زیادہ خطرہ ہے۔
۲۰۱۱ میں کیے گئے سروے کے مطابق افغانستان، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، پاکستان، ہندوستان اور صومالیہ خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک کے طور پر مانے جاتے تھے لیکن بعد کے سروے میں ہندوستان نے اپنا مقام بڑھاتے ہوئے فہرست میں اول درجہ حاصل کرلیا ہے کیوں کہ خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں ہمارے ملک نے خاطرخواہ کام نہیں کیا ہے۔ خواتین کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمارے ملک نے اقدامات نہیں اٹھائے۔ آئے دن صنف نازک انسان نما درندوں کا شکار بنتی جارہی ہے۔ دہلی جو ملک کا صدر مقام ہے وہاں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ ان درندوں سے نہ دہلی کی طالبہ نربھیا محفوظ رہی ، نہ آصفہ ، نہ تلنگانہ کی پرینکا ریڈی اور نہ صبیحہ۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کے حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ خواتین و بچوں کے تحفظ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوئی کام کریں ۔ نربھیا کا واقعہ جس نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے تعلق سے پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کی گئی تھی اس کے ایک دہائی کے گزر جانے کے بعد بھی ہمارے ملک میں اسی قسم کے واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے بجٹ میں جو رقم مختص کی گئی وہ انتہائی ناکافی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو رقم مختص کی گئی ہے وہ بھی خرچ نہیں کی گئی ۔ خواتین کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے ہیلپ لائنیں قائم کرنے، بحرانی مراکز کھولنے اور عہدیداروں کے لیے صنفی حساسیت کی تربیت متعارف کرانے کے لیے مختص فنڈ تک خرچ نہیں کیا گیا ۔ پھر بھلا ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ہماری خواتین محفوظ رہیں گی ۔
آکسفیم انڈیا کی نمائندہ امیتا پترے نے جو صنفی انصاف کے لیے جدوجہد کرتی ہیں کہا کہ "پچھلے تین سالوں میں ہندوستان کے بجٹ کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں صنفی بنیاد پر تشدد سے لڑنے کے لیے سالانہ صرف ۳۰ روپے فی عورت یا لڑکی پر خرچ کیے جاتے تھے جسے اب بڑھ کر ۱۰۲ روپے کردیا گیا ہے جبکہ ہمارے ملک میں جنسی تشدد کا شکار ۸ کروڑ خواتین اور بچیاں ہیں۔ اس کے مقابلے میں مختص کردہ رقم انتہائی ناکافی ہے ۔
آکسفیم انڈیا کی تازہ ترین رپورٹ میں خواتین کے خلاف تشدد کے لیے مرکزی بجٹ ۲۰۱۸ تا ۲۰۲۰ میں مختص رقم تقریباً ۲۰۰۹ کروڑ تھی جس میں موجودہ مرکزی بجٹ ۲۰۲۰ تا ۲۰۲۱ میں ۱۰ فیصد کی کمی کردی گئی ۔ یہ رقم "سنبل” اسکیم کے تحت خرچ کی جاتی ہے جو راست طور پر خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق ہے (وی اے ڈبلیو)۔ اسی طرح وزارت داخلہ کے تحت خواتین کے تحفظ کے لیے جو اسکیمیں ہیں ان میں ۸۸ فیصد تک کی کمی دیکھی گئی ہے۔ آکسفیم انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ اندازہ کے مطابق مجموعی طور پر ۸ کروڑ ۴۴ لاکھ خواتین صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ اگر ان میں سے ۶۰ فیصد خواتین تشدد کے خلاف خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں تو اس کے لیے سالانہ ۱۱ ہزار کروڑ روپیوں کی ضرورت ہوگی ۔ ان اخراجات کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت یعنی ۹۰ فیصد برداشت کرے ۔ بجٹ میں مختص کردہ رقم کی ناکافی ایک مسئلہ ہے تو اس کا عدم استعمال اس سے بھی بڑا سے بڑا مسئلہ ہے ۔
ڈاکٹر منجوناتھ گنگادھرا ایڈیشنل لیبر کمشنر، (صنعتی تعلقات/چائلڈ لیبر) کرناٹک نے کہا، "ہندوستان نے خواتین کی بے عزتی کی، ان کے تحفظ کے مسئلے کو سراسر نظرانداز کیا ہے۔ عصمت دری، جنسی زیادتی، انہیں ہراساں کرنے اور انہیں رحم مادر میں قتل کرنے کے واقعات میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں ہوئی ہے ۔ ” دنیا کیابھرتی ہوئی معیشت، خلائی میدان میں اپنا نام پیدا کرنے والا ملک اور ٹیکنالوجی کے میدان کا رہنما، خواتین کے خلاف تشدد پر شرمندہ نہیں ہے؟ اعداد و شمار کے مطابق سال ۲۰۰۷ سے ۲۰۱۶ کے درمیان خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں ۸۳ فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں ہر گھنٹے میں چار عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں یعنی ہر ۱۵ منٹ میں ایک واقعہ! یہ وہ اعداد و شمار ہیں جسے حکومت نے پیش کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں وہی واقعات درج ہوتے ہیں جن کی رپورٹ تھانوں میں درج کی جاتی ہے یہاں ان واقعات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جو تھانوں میں درج نہیں کیے جاتے ۔
سروے میں ماہرین سے یہ پوچھا گیا تھا کہ ان کی نظر میں اقوام متحدہ کے ۱۹۳ رکن ممالک میں وہ کون سے ۵ ممالک ہیں جہاں خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں یا جہاں خواتین کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہو؟ چاہے وہ صحت کا معاملہ ہو ، معاشی وسائل کا معاملہ ہو، رسم و رواج کا معاملہ ہو، جنسی تشدد اور ہراسانی کا معاملہ ہو یا انسانی اسمگلنگ کا۔ ان سارے سوالات کے جواب میں انہوں نے ہندوستان کو پہلے مقام پر رکھا ہے۔ یعنی ہمارا ملک معاشی لحاظ سے بھلے ہی بہتر نہ بن سکا ہو ان معاملات میں تو اس نے دنیا کا سب سے بدترین ملک ہونے کا درجہ حاصل کرہی لیا ہے۔ عوام کا احساس ہے کہ ہندوستان انسانی اسمگلنگ، جنسی طور پر غلام بناکر رکھنے، گھریلو تشدد اور جبری شادیوں وغیرہ کے لحاظ سے خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک بن گیا ہے۔
سنجے کمار ڈائریکٹر سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) نے کہا کہ ’’ اس سروے میں شفافیت کی کمی ہے تو ماہرین کو کیسے منتخب کیا گیا؟ صنفی تقسیم کیا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے لیکن ان سب باتوں پر کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔‘‘ وہیں پروفیسر اور سماجی کارکن روپ ریکھا ورما نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں اس رپورٹ اور اس کے نتائج سے خوش نہیں ہوں اس معاملے میں ہمیں بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے ، اس سے اور بہتر طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا تھا اوراچھے انداز میں اعداد و شمار جمع کیے جاسکتے ہیں، اگر ۵۰۰ سے زائد صنفی ماہرین کا ماننا یہ ہے کہ ہندوستان خواتین کے لیے غیر محفوظ ہے تو اسے ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا یہ کوئی سڑک پر چلنے والے عام لوگوں کے خیالات نہیں ہیں، یہ باخبر اور اپنے شعبہ کے ماہرین ہیں‘‘
حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق سے متعلق دوسرے ممالک پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ دوسرے ممالک کی طرح نہ ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے اور نہ ہی معاشی دیوالیہ پن کاشکار ، پھر بھی اس ملک کی بیٹی کا حال اتنا دگرگوں ہے تو اس ملک کو ترقی کا خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021