ہا لہ أبو شعیشعؒ

سیسی کے خونی انقلاب کی پہلی شہیدہ

عمارہ رضوان، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دلی

 

تقریباً ‏سات سال پہلے کی بات ہے رمضان کا مہینہ اپنی تما م تر برکتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوا ہر طرف روح پرور مناظر دکھائی دینے لگے مساجد ہمہ وقت نمازیوں اور قاریوں سے آباد رہنے لگیں چہار جانب تكبير و تہلیل کے غلغلے سنائی دینے لگے ہمارے گھروں میں بھی ذکر و اذکار اور تلاوت و تفسیر کا ماحول بن گیا۔ مگر یہاں سے دور، کافی دور مصر کی سرزمین حق و باطل کی کش مکش کا دوسرا ہی نقشہ پیش کر رہی تھی۔ وہاں کے تقریباً تمام ہی تفریحی میدان احتجاجی رزم گاہوں کی شکل اختیار کرچکے تھے۔ کیا بچے کیا بوڑھے سبھی ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ عزم و حوصلے کا رنگ، قربانی وفدویت کا رنگ، حق اور حق خود ارادیت کا رنگ، رابعہ ہو، یا تحریر، نہضہ ہو یا منصورہ ہر جگہ ایک ہی سماں تھا۔ ہر کوئی اپنے رب سے لَو لگائے ہوئے تھا اور پرامن طریقے سے اپنے مطالبات کو دنیا والوں کے سامنے رکھ رہا تھا۔ مگر دنیا والوں نے اپنی آنکھوں پر پٹّی باندھ رکھی تھی، انہیں سب کچھ دکھائی دے رہاتھا مگر مصری عوام کے جائز مطالبات سننے کے لیے ان کے کان بہرے ہو چکے تھے، کیوں کہ یہ ان کو انتہاء پسند سمجھتے تھے جو ووٹ کے ذریعے برسراقتدار آگئےتھے اور انہوں نے ایک سال کے ہی اندر مصری قوم کو اپنا اسیر بنا لیا تھا، اگر ان کو پورے پانچ سال کا موقع دے دیا جاتا تو ان کی جڑیں اور گہری ہوجاتیں پھر تو ان کو اکھاڑنا اتنا ‏آسان نہ ہوتا۔ میڈیا ان کے ہرکام میں کیڑے نکال رہا تھا، عدالتیں ان کے ہر عوامی فیصلے کے خلاف بند باندھ رہی تھیں، بیوروکریسی ان کو ایک قدم آگے بڑھنے نہیں دے رہی تھی، مگر یہ پوری یکسوئی سے دھیرے دھیرے مصر کو ایک رفاہی مملکت میں تبدیل کر رہے تھے اور ان کا یہی ’’جرم‘‘ ناقابل معافی تھا۔ ان کو فوری اقتدار سے بے دخل کرنے کی اشد ضرورت تھی جسے جنرل سیسی نے اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر انجام دیا۔
جنرل سیسی نے مرسی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد جن کلیوں کو مَسل ڈالا تھا ان میں سب سے پہلے انٹرمیڈیٹ کی سائنس کی طالبہ ہالہ بو شعیشع کا نام آتا ہے۔ ہالہ مصر کے شہر منصورہ میں 27؍ دسمبر 1997 کو پیدا ہوئیں ‏وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں اور شہادت کے وقت وہ منصورہ انٹر کالج کے فائنل ایر کی طالبہ تھیں۔ ہالہ کے والد محمد مجاہد دہقلیہ صوبے کے اخوان کے ذمہ داروں میں سے ہیں اور پیشہ سے انجینئر ہیں اور گورنمنٹ کے زرعی ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ پوسٹ پر فائز تھے مگر سات سال قبل وہ اپنی نوکری سے بر طرف کیے جاچکے ہیں اور دیگر اخوانی رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ مصر ی قیدخانوں کی رونق میں اضافہ کررہے ہیں۔ ہالہ کی بڑی بہن صفیہ جنہوں نے دو سال قبل ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی ہالہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: "ہالہ گرچہ مجھ سے عمر میں دوسال چھوٹی تھی مگر کئی معاملوں میں وہ مجھ سے کہیں آگے تھی میرے والد صاحب ہر منگل کی شام کو گھر کے تمام افراد کو جمع کرکے فیملی اجتماع کرتے تھے۔ اس وقت ہالہ کا آگے بڑھ کر جواب دینا اور قرآن کی موتیوں کو رولنا اس کی قرآن فہمی اور قرآن سے اس کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک بار وہ پاپا سے الجھ پڑی اور تربیت کے تین اہم ستون، اخلاص، فہم اور عمل کی ترتیب پر بحث کرنے لگی۔ ہالہ نے والد صاحب کے موقف کے بر خلاف اپنا موقف رکھا کہ اخلاص سے پہلے فہم دین کا درجہ ہونا چاہیے کیوں کہ اگر دین کا صحیح فہم نہ ہوگا تو اخلاص کیسے آئے گا اگرچہ اخلاص بھی دین کا حصہ ہے۔ وہ ہمارے گھریلو اجتماع کی لیڈر تھی اور دوسری طرف گھر کے باہر وہ ایک ساتھ معلّمہ اور طالبہ کا کردار بھی ادا کررہی تھی۔ صبح سے سہ پہر تک وہ منصورہ انٹرکالج میں تعلیم حاصل کرتی تھی تو عصر سے مغرب تک وہ پاس کی مسجد سے متصل مرکز ابن لقمان میں دوسری طالبات کو صحت سے قرآن پڑھنا سکھاتی تھی۔
ہالہ اخوان المسلمون کی گرلز ونگ سے منسلک تھی اور بڑھ چڑھ کر اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی۔ غزہ میں جب اسرائیلی بمباری شروع ہوئی تو منصورہ کالج میں اس نے دیگر سہیلیوں کے ساتھ مل کر ایک فرنٹ ’’امناء اقصیٰ‘‘ کے نام سے بنا ڈالا تاکہ نئی نسل میں اسرائیلی بربریت کو واضح کر کے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لیے ڈونیشن جمع کرسکے۔
فوجی بغاوت کے فوری بعد ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ہالہ کے والد محمد مجاہد نے بلکتے ہوئے کہا کہ "ہالہ کے اخلاق وکردار، معاشرت ومعاملات کے بارے میں مجھ سے کیوں پوچھتے ہو منصورہ کالج میں جا کر پوچھ لو کہ میری بیٹی کیسی تھی اس کی سہیلیاں بتائیں گی کہ وہ اس روئے زمین پر کوئی آسمانی مخلوق تھی۔ جی ہاں آسمانی مخلوق! کیوں کہ ایک دن کے لیے بھی اس نے اس دنیا سے دوستی نہیں رکھی اور اپنے ہر عمل میں وہ آسمان والے کی مرضی تلاش کرتی تھی۔ جو لوگ زبردستی ہمارے ملک کے اقتدار پر قابض ہو گئے ہیں اور ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں ‏وہ بتائیں کہ آخر دہشت گردوں کی کون سی صفات ہمارے اندر پائی جاتی ہیں؟ ہاں ہم اپنے دستوری حقوق کے لیے جدّوجہد کرنے اور اس روئے زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کی کوشش کرنے کے ’مجرم‘ہیں ۔ اب اگر کوئی اس کو دہشت گردی سے تعبیر کرے تو اس میں ہمارا کیا قصور؟۔
ہالہ کی امی جو جامعہ ازہر کے ایک کالج سے گریجویٹ ہیں اور تعلیم کی تکمیل کے بعد سے ہی وہ خاتونِ خانہ کی حیثیت میں زندگی گزار رہی ہیں ہالہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں "ایک دن میری بیٹی مرکز ابن لقمان سے روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی میں سمجھی کہ شاید اس کا کسی سہیلی یا استانی سے جھگڑا ہو گیا ہے۔ میں نے جب اصرار کر کے پوچھا تو بتایا کہ حلقے میں ایک لڑکی دوسرے محلے سے آتی ہے جس کو میں قرآن حفظ کراتی ہوں آج وہ اپنا سبق نہیں سنا سکی۔ میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ آج اس کے گھر میں والدین کے درمیان کافی جھگڑا ہوا کہ ان کے گھر میں کوئی بیڈ نہیں ہے، شاید اس کے والد بیڈ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اس لیے وہ رات بھر ڈسٹرب رہی اور اپنا سبق یاد نہ کر سکی۔ امّی میرے گھر میں تو کئی بیڈ ہیں ایک بیڈ تو صرف مہمانوں کے لیے ہے جس کی باری شاذو نادر ہی آتی ہے ایسا کیوں نہ کریں کہ مہمان خانے کے نئے بیڈ کو اس لڑکی کے گھر ہدیہ کر دیں اور میرے کمرے میں جو بیڈ ہے اسے مہمان خانہ میں منتقل کر دیں؟ مجھے تو فرش پر بہت اچھی نیند آتی ہے۔ آخر کار میری بیٹی نے مجھے راضی کرا ہی لیا اور اس وقت کھانے کے ٹیبل پر آئی جب اسے یقین ہوگیا کہ ڈائننگ ہال کا بیڈ ہدیہ میں دے دیا جائے گا۔
ہالہ کے والد کا اس سے بہت خصوصی تعلق تھا۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں اس کی امیدیں بہت ہی قلیل تھیں لیکن اس کے مقاصد بہت جلیل تھے۔ ہالہ جب پانچ سال کی تھی اور ابھی سال اوّل کی طالبہ تھی تو اس کی استانی نے اسے ایک مضمون سنانے کو کہا، ہالہ نے اپنے چھوٹے سے مضمون کا عنوان لکھا ’’إلى الله‘‘ الله کی طرف اور اس کے نیچے ایک جملہ لکھا ’’أحبك يا الله‘‘ اے اللہ! تیری ذات اقدس مجھے بہت محبوب ہے‏۔ ہالہ نے اپنی لا شعور کی عمر میں جو جملہ لکھا منصورہ کے میدان میں شہادت اس کے اسی تمنا اور خواہش کی تکمیل ہے‌‏۔ صفیہ جو ہالہ کی بڑی بہن ہیں اور منصورہ کے مظاہرے میں اس کے ساتھ تھیں کہتی ہیں کہ ہالہ کو امت کی بڑ ی فکر تھی وہ احوال عالم بالخصوص عالمِ اسلام کے احوال سے واقف رہنے کی برابر کوشش کرتی تھی۔ عشاء کے بعد والد محترم اور ہالہ ڈائننگ ہال میں صوفے پر آ بیٹھتے اور الجزیرۃ کے مشہور پروگرام ’’شاهد على العصر‘‘ كو ساتھ ساتھ دیکھتے، بیچ بیچ میں ہالہ کا استفسار بھی جاری رہتا تھا۔ ہالہ نے ایک ڈائری بھی بنا رکھی تھی جس میں وہ عالم اسلام کے اہم واقعات کو تاریخ کی ترتیب سے نوٹ کرتی تھی ‏اور ان میں سے بعض واقعات کو ہالہ اپنے کمنٹ کے ساتھ اپنے فیس بک پیج پر بھی شیئر کرتی تھی۔
19؍ جولائی 2013 کو جبکہ رمضان المبارک کی دس تاریخ تھی ہالہ نے اپنے ابو سے اصرار کیا کہ وہ بھی رابعہ کے میدان کے مظاہرے میں ان کے ساتھ شریک رہے گی اور ان کے ساتھ قاہرہ جائے گی۔ والد نے کہا کہ رابعہ میں میرے ذمے اسٹیج کا نظم وانصرام ہے اس لیے رابعہ میں حاضر رہنا میری مجبوری ہے صفیہ اور تمہاری امی منصورہ کے مظاہرے میں تو شریک ہو رہی ہیں تم اپنی امی کے ساتھ رہو اور کوشش کرو کہ کل اخبارات کے لیے کچھ اچھے فوٹوز بھی کلک کرو، مصری اخبارات تو ان مظاہروں کو دکھانے سے رہے ہم انہیں کو بین الاقوامی میڈیا کو ارسال کریں گے۔
ڈاکٹر صفیہ کہتی ہیں: "ہالہ نے اس رات خوب خوب عبادت کی اور تراویح کی نماز میں اپنی والدہ اور بہنوں کی امامت کی آج اس کی تلاوت میں کچھ الگ ہی لطف تھا سورہ رحمان اور یٰس کی وہ پہلے بھی تلاوت کرتی رہی تھی لیکن آج کی تلاوت کچھ اور ہی سرور عطا کر رہی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ ہالہ کے استقبال کی تیاری ہے جو آسمان پر ہو رہی ہے اور شاید یہ الوداعی قرآت ہے اس کے بعد تو ہالہ کی براہ راست بات ہوگی۔
ہالہ کی ڈائری کو میں نے بہت سنبھال کر رکھا ہے کیوں کہ اس ڈائری میں اس نے اپنا مشن جلی حروف میں لکھ رکھا ہے۔ وہ تو اپنے مشن کے راستے میں شہید ہوگئی ہم نے بھی اسی کے راستے کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے ‏۔
ہالہ! میری غم خوار و غم گسار تم تو حقیقت میں میری استانی تھیں، تم جیتے جی بھی مجھے سکھاتی رہیں اور آج شہید ہو کر بھی تم میری رہنمائی کر رہی ہو ۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں ہو تم پر اللہ کی نعمتیں اور نوازشیں تمہاری ضیافت کا سامان ہوں‘‘

ہالہ کے والد کا اس سے بہت خصوصی رشتہ تھا ، وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں اس کی امیدیں بہت ہی قلیل تھیں ، لیکن اس کے مقاصد بہت جلیل تھے ۔ ہالہ جب پانچ سال کی تھی ، اور ابھی سال اوّل کی طالبہ تھی تو اس کی استانی نے ایک مضمون سنانے کو کہا ، ہالہ نے اپنے چھوٹے سے مضمون کا عنوان لکھا ’’ إلى الله ‘‘الله کی طرف اور اس کے نیچے ایک جملہ لکھا ’’ أحبك يا الله ‘‘ اے اللہ ، تیری ذات اقدس مجھے بہت محبوب ہے‏۔ ہالہ نے اپنی عدم شعور کی عمر میں جو جملہ لکھا ، منصورہ کے میدان میں شہادت اس کے اسی تمنا اور خواہش کی تکمیل ہے‏‏۔