ہاتھرسمیں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کا قلعہ کھنڈر میں تبدیل
علی گڑھ میں ہندوتوا مخالف راجہ کے نام پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد
یوپی اسمبلی الیکشن میں جاٹ ووٹ پر نظر تو نہیں۔۔!
ہر سیاسی پارٹی کی اپنی اپنی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں مگر بی جے پی کی کیامجبوری رہی ہوگی کہ جس سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آرایس ایس پرپابندی لگائی تھی تقریباً3000کروڑ روپے خرچ کرکے انہی کا ’اسٹیچو آف یونٹی‘ نام سے مجسمہ بنا دیا۔ ٹھیک اسی طرح کہیں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے تئیں بی جے پی کا احترام دکھانا مجبوری کے زمرے میں تو نہیں؟ کیوں کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ہمیشہ سے ہی ’جن سنگھ‘ اور ہندوتوا کے خلاف تھے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے1957 میں اٹل بہاری واجپئی کی ضمانت ضبط کروائی تھی۔ اس تعلق سے 27 نومبر 2020 کو ہفت روزہ دعوت نیوز نے مفصل رپورٹ بھی پیش کی تھی۔ جس کے مطابق ’’1967 میں راجہ مہندر پرتاپ نے ایک بار پھر علی گڑھ لوک سبھا سیٹ سے انتخاب میں حصہ لیا تھا جہاں ان کا مرکزی مقصد بی جے پی کے سیاسی والدین جن سنگھ کی مخالفت کرنا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ نے خود کو ’پیٹر پیر پرتاپ‘ کہلانا زیادہ پسند کیا۔ اپنی سوانح حیات میں اپنی تصویر کے نیچے انہوں نے اپنا یہی نام لکھا ہے’’۔
اب آپ دیکھیے کہ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی راجہ مہندر سنگھ کے نام سے تقریباً92 ایکڑ رقبہ زمین پر بننے والی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ کر گویا راجہ مہندر سنگھ سے والہانہ واپستگی کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری طرف یو پی کے ہاتھرس میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی حویلی ویران اور کھنڈر بن جاتی ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
واضح ہو کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ مغربی اترپردیش کے ضلع ہاتھرس میں مُرسان کے راجہ تھے۔ جاٹ خاندان سے تعلق رکھنے والے راجہ مہندر سنگھ کو مغربی اترپردیش کے معروف و مشہور جاٹ راجہ کے طور پرجاناجاتاہے۔ راجہ مہندر سنگھ کے وارثین اس خستہ حال حویلی سے کچھ ہی دوری پر رہتے ہیں لیکن نہ ہی سرکار اور نہ ہی وارثین نے اس قلعہ کی دیکھ ریکھ پر کوئی توجہ دی ۔ بتایا جاتا ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی سربراہی میں مسلمانوں اور ہندووں نے مل کر ہندوستان کی آزادی کے لیے کابل میں ایک عبوری حکومت کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی شخصیت نمایاں تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ان کا دلی لگاؤ تھا۔ کیوں کہ راجہ مہندر پرتاپ نے اے ایم یو سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ صرف یہی نہیں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اپنی زمین بھی عطیہ کی تھی جہاں آج سٹی اسکول چل رہا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو زمین راجہ مہندر سنگھ نے ہی دی تھی جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے افتتاحی خطاب میں ذکر کیا تھا یہ ایک تاریخی بھول ہو گی۔
جب اس الزام کے سلسلے میں ہفت روزہ دعوت نے اے ایم یو انتظامیہ سے بات کی تو انہوں نے اسے سرے سے خارج کر دیا۔ اے ایم یو ترجمان پروفیسر راحت ابرار کہتے ہیں کہ ’’راجہ مہندر پرتاپ اور ان کے خاندان کے کسی بھی شخص نے ایک گز زمین بھی اے ایم یو کو عطیہ میں نہیں دی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ سرسید احمد خان کے خوابوں کے ’مدرسہ‘ کا افتتاح 24 مئی 1875 کو ہی کردیا گیا تھا۔ دو سال بعد 7 جنوری 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی بنیاد رکھ دی گئی جبکہ راجہ مہندر پرتاپ کی پیدائش یکم دسمبر 1886 کو ہوئی۔ تب تک تو ایم اے او کالج کی عمارت تیار ہو چکی تھی۔
ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے پروفیسر سجاد بتاتے ہیں کہ ’’بی جے پی کے ذریعہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی دعویٰ کردہ اراضی اس وقت اے ایم یو کیمپس سے چار کلو میٹر دور پرانے علی گڑھ کے جی ٹی روڈ پر سٹی ہائی اسکول کے کھیل میدان کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ مثلث سائز کی 1.22 ایکڑ زمین 1929 میں 90 سالوں کے لیے لیز پر اے ایم یو کو دی گئی تھی۔ لیز کی رقم ہر سال راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی اولاد اے ایم یو سے حاصل کرتی رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس زمین پر علی گڑھ سے چار بار بی جے پی کے ایم ایل اے کرشنا کمار نومان نے بھی دعویٰ کیا تھا۔ 1984 میں یہ کیس ضلعی عدالت سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک گیا، جہاں 2003 میں ایک عبوری حکم جاری کیا گیا تھا کہ لیز کی مدت ختم ہونے سے قبل کوئی دوسرا دعویدار اس زمین پر قبضہ نہیں کرسکتا’’۔
سال 2014 میں بی جے پی کے کچھ مقامی لیڈروں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام تبدیل کرکے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کی دلیل تھی کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے اے ایم یو کے قیام کے لیے زمین عطیہ کی تھی۔ یہ معاملہ تب اٹھا جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تحت سٹی اسکول کی 1.2 ایکر اراضی کی لیز کی مدت ختم ہو رہی تھی اور راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے قانونی وارث لیز کی تجدید نہیں کرنا چاہتے تھے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صرف محمد علی جناح کی تصویر پر تنازع نہیں ہوا ہے بلکہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی تصویر بھی تنازع کا سبب بن چکی ہے۔ 6 مئی 2018 کو ہندو جاگرن منچ نے علی گڑھ میں احتجاج کیا۔ منچ نے مطالبہ کیا کہ اے ایم یو میں راجہ مہندر سنگھ کی تصویر اور مجمسہ دونوں ہی لگائے جائیں ۔ جبکہ اے ایم یو کے مولانا آزاد لائبریری کے مرکزی ہال میں جہاں یونیورسٹی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے لوگوں کی تصاویر ہیں، وہیں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی تصویر بھی تفصیلات کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر لائبریری کے ریسرچ بلاک کے دروازے کے ٹھیک اوپر لگی ہوئی ہے۔
2022 میں اترپردیش اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس دوران ہندو۔مسلم کا سیاسی کھیل خوب کھیلا جائےگا۔ ابھی سے ابا جان اور چچا جان جیسے الفاظ سننے میں آرہے ہیں۔ دوسری طرف کسانوں کا مسئلہ بھی سامنے ہے ایسے میں جاٹ برادری کو راغب کرنے کے لیے راجہ مہندر سنگھ کاکارڈ کھیلا گیا ہے۔ بہر حال ملک کو فی الحال ایک نئی یونیورسٹی مل رہی ہے یہی غنیمت ہے۔ بس یہ یونیورسٹی ملک کی ترقی کی راہ ہموار کرے ورنہ شرپسند عناصر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور راجہ مہندر سنگھ یونیورسٹی کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021