گوگل کی سیکورٹی اورپروگرامنگ

انفارمیشن ٹکنالوجی ۔قسط۔7

شفیق احمد آئمی، مالیگاؤں

گزشتہ ہفتے وائس سرچ اور ٹرانسلیشن معلومات حاصل کی تھیں۔ اب ہم اس کے آگے کی معلومات حاصل کریں گے۔
سیکورٹی اور انکرپشن
انٹرنیٹ کا استعمال آج لگ بھگ نوے فیصد لوگ کررہے ہیں۔ گاؤں اور قصبوں میں اِس کا استعمال ذرا کم ہوتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں انٹر نیٹ کا استعمال اُس سے زیادہ ہوتا ہے اور بڑے شہروں میں تو اس کا استعمال لگ بھگ سو فیصد ہوتا ہے۔ ایک عالمی نیٹ ورک کے طور پر انٹرنیٹ کی طاقت اور خوبصورتی کے باوجود یہ واقعتاً غیر محفوظ ہے۔ رابطوں کے نت نئے طریقوں کی دریافت سے ڈیٹا بیسوں کی سیکورٹی توڑ کر حساس معلومات تک رسائی ممکن ہے اور کوئی بھی انفارمیشن ٹکنالوجی کا ماہر معلومات ’’ہیک‘‘ کرسکتا ہے۔ یہ معاملہ گوگل کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس کے پاس ’’جی میل ، گوگل ایپس اور گوگل Docs کی صورت میں صارفین کی حساس معلومات کا جم غفیر ہے۔ جس رفتار سے ترقی انفارمیشن ٹکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس کے میدان میں ہورہی ہے اُسی رفتار سے ’’ہیکرز‘‘ وغیرہ بھی اپنے آپ کو نت نئے ٹولز سے لیس کررہے ہیں۔ اِس لیے گوگل کی سائنسی ٹیم ’’معلومات کی حفاظت‘‘ کو یقینی بناے کے لیے ہمہ وقت سرگرداں رہتی ہے تاکہ یہ پیغامات اور ڈیٹا محفوظ رہیں اور اِن میں سے کوئی ایک بھی لفظ غیر محفوظ ہاتھوں تک نہ پہنچ سکے دوسری صورت میں گوگل کی شاندار عمارت کو زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
گوگل کی اپنی پروگرامنگ لینگویج
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی اپنی ’’پروگرامنگ لینگویج‘‘ ہوتی ہے جو صرف وہی سمجھتا ہے۔ اگر دستیاب پروگرامنگ کی زبانیں وہ کام کرنے سے قاصر ہوں جو آپ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا اپنی ذاتی لینگویج (زبان) ایجاد کریں گے؟ گوگل نے یہی کیا ہے اور ’’ڈارٹ‘‘ اور ’’گو‘‘ زبانیں ایجاد کی ہیں۔ انہیں نہ صرف اُس نے مفاد عامہ کے لیے انٹر نیٹ پر جاری کردیا ہے بلکہ ’’اوپن سورس‘‘ بھی کردیا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ حالیہ زبانوں کی کارکردگی میں اضافے پر بھی گوگل کی تحقیق جاری ہے جن میں ’’سی پلس پلس، جاوا اور پائتھن‘‘ شامل ہیں۔ اِس میدان میں گوگل واحد کھلاڑی نہیں ہے بلکہ کئی دوسری ویب سائٹس نے بھی اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ’’پروگرامنگ لینگویجز‘‘ بنا رکھی ہیں یا پہلے سے دستیاب لینگویجز کو تبدیل کررکھا ہے۔ ’’فیس بک‘‘ بھی ایک تبدیل شدہ لینگویج استعمال کرتا ہے۔ گوگل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کا ’’بیک اینڈ‘‘ خالصتاً ’’سی پلس پلس‘‘ میں تحریر شدہ ہے جبکہ اُس کے ’’فرنٹ اینڈ‘‘ کو ’’جاوا‘‘ اور ’’پایتھن‘‘ میں تیار کیا گیا ہے۔
تیز رفتار سرچ سسٹم
کئی سال پہلے جب گوگل نیا نیا تھا اور دوسرے ’’سرچ انجن‘‘ بھی انٹرنیٹ کی دنیا میں چل رہے تھے تب کسی چیز کو ’’سرچ‘‘ کرنے میں بہت وقت لگتا تھا۔ اِس بات کو گوگل نے محسوس کیا اور اُس کی ریسرچ ٹیم نے سرچ سسٹم کو تیز رفتار کرنے کی کوشش کی۔ اِس میں اُنہیں کامیابی بھی ملی اور گوگل کا ’’سرچ‘‘ ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تیز رفتار ہوتا گیا۔ پھر یہ کیفیت ہوگئی کہ صارف جو چیز بھی گوگل پر سرچ کرتا تھا تو وہ صرف ایک سیکنڈ میں سرچ ہوجاتی ہے گوگل اتنی رفتار پر بھی مطمئن نہیں ہے اور اُسے اِس رفتار سے بھی زیادہ تیزی چاہیے۔ گوگل کا خیال ہے کہ ایک سیکنڈ بہت زیادہ طویل وقت ہے اور اِسے اور ’’سرچ‘‘ کو اور زیادہ تیز رفتار کرنے کے لئے گوگل کی ’’سرور‘‘ اور ’’نیٹ ورکنگ‘‘ پر تحقیق ہمہ وقت جاری رہتی ہے تاکہ اُن پر بوجھ کے وقت کو کم کیا جاسکے۔ جب آپ گوگل پر کچھ تلاش (سرچ) کرتے ہیں تو نتائج عموماً ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لیتے ہیں۔ گوگل پر تلاش (سرچ) کے میعار کا تقاضہ ہے کہ یہ وقت نتائج کے میعار پر اثر انداز ہوئے بغیر کم سے کم کیا جائے۔ اپنی اِس کوشش میں گوگل کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ گوگل پر سرچ کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے اور نتائج بہتر سے بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ گوگل کے بارے میں معلومات کا سلسلہ جاری ہے ۔ باقی انشاء ﷲ اگلی قسط میں پیش کریں گے۔

یہ معاملہ گوگل کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس کے پاس ’’جی میل ، گوگل ایپس اور گوگل Docs کی صورت میں صارفین کی حساس معلومات کا جم غفیر ہے۔ جس رفتار سے ترقی انفارمیشن ٹکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس کے میدان میں ہورہی ہے اُسی رفتار سے ’’ہیکرز‘‘ وغیرہ بھی اپنے آپ کو نت نئے ٹولز سے لیس کررہے ہیں۔